Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 31, 2020

‏” ‏کرنے ‏کا ‏کام ‏“ ‏۔۔۔۔۔۔۔۔دعوت ‏دین ‏کے ‏تعلق ‏سے ‏ایک ‏اہم ‏تحریر۔

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت /٢٣ مٸی ٢٠٢٠۔
==============================
بہت سارے لوگ سوال کرتے ہیں کہ برادران وطن میں دعوت کا کام کرنے کے لیے کچھ کتابوں کے نام بتائیے ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ دعوت دین کا کام پوری توجہ چاہتا ہے ۔یہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ آپ نے کھیت میں گیہوں کے بیج بکھیر دیا اور دو ماہ بعد کھیتی لہلہانے لگی ۔حالانکہ اس میں بھی وقت پر کھاد پانی اور نگرانی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دعوت کا کام قرآن اور کتابیں تقسیم کرکے نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔ اس کی ضرورت بس ایک حد تک ہوا کرتی ہے تاکہ لوگ اس کام سے غافل نہ ہوں ۔ نومسملوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات پڑھیۓ ۔سینکڑوں نہیں ہزاروں میں چند افراد ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ میں فلاں کتاب یا قرآن پڑھ کر مسلمان ہوا ۔ وہ بھی ایک فیکٹر ہے ورنہ اکثر لوگ یہی کہتے ہوۓ ملیں گے کہ میں اپنے دوست کے برتاؤ سے , اس کے اخلاق سے , مصیبت کے وقت میں فلاں کے کام آنے سے متأثر ہوا اور پھر اسلام کی جانب متوجہ ہوا اور غور کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی دین حق ہے ۔
آپ کے سوال کے جواب میں میرا جو پچیس تیس سال کا تجربہ ہے وہ  شیئر کرنا چاہوں گا کہ 
1۔عجلت میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے ۔
2۔ بیک وقت سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر کام نہ کیجیے کہ کہنے کو ہم نے دو ہزار اور پانچ ہزار لوگوں کو لٹریچر پہنچادیا اور دوچار سے بھی کوئی رابطہ اور تعارف نہیں ہے ۔
3۔ آپ سو پچاس افراد کے درمیان ہی رہیے اور اپنے قرب وجوار ہی میں رہیے ۔ ان کے ساتھ  اپنے حسن سلوک اور حسن اخلاق سے بہتر سے بہتر معاملہ کیجیے اور جوہرِ قابل کو تلاش کرتے رہیے ۔چند لوگوں سے خصوصی تعلق قائم کرکے ان کے سچے ہمدرد بن جائیے کہ وہ بھی آپ سے گھل مل جائیں ۔ اب موقع بموقع آپ کو حکیم کی طرح سے سلوک کرنا ہوگا ۔ کس وقت کیا برتاؤ کیا جاۓ ۔ اس سے امید ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ ان میں بھی مختلف مزاج اور صلاحیت کے لوگ ہوں گے جو اپنی صلاحیت کے اعتبار سے مختلف مرحلوں تک آپ کا ساتھ دیں گے اور یہی آپ کی کامیابی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے معاون و مددگار بن جائیں ۔ہر کوئی مسلمان نہیں ہوجاۓگا ۔ یہ تو خالص اللہ کی توفیق پر ہے ۔ البتہ بڑی تعداد میں آپ کے حمایتی نہ سہی کم از کم مخالف نہ ہوں تو یہ اپنے آپ میں خود بہت بڑا اچیومنٹ ہے ۔
4۔ دعوت دین کے کام کے لیے کتابیں پڑھوانے کے بجاۓ اپنے وجود کا اپنے عمل کا مطالعہ کروانا چاہیے اور اس سے زیادہ مؤثر کوئی دوسری چیز نہیں ہے ۔ 
5۔ لہذا اپنی آبادی میں , اپنے آس پاس رہنے والے تمام انسانوں کے سامنے حسن عمل کے ذریعہ دعوت پیش کیجیے ۔ان کے کام آیۓ اور اپنے تمام امور کو اسلام کے حکم کے مطابق انجام دیجیے جس کو دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ مسلمانوں کا راستہ اختیار کرنے میں سکون اور راہ نجات ہے ۔
مثلا ہمارے سماج کا بہت بڑا مسئلہ اونچ نیچ چھوت چھات اور ذات برادری کی بنیاد پر ہمار ےبرتاؤ کا ہے ۔ ہندووں میں زیادہ ہے اور مسلمانوں میں کم ہے ۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات میں بالکل نہیں ہے ۔ اب اگر مسلمان اپنے عمل سے اسلام کی تعلیمات کا نمونہ پیش کریں گے تو غیر مسلم لازماََ متأثر ہوں گے اور اگر آپ کا معاشرہ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے اور کتاب پر کتاب بانٹتا رہے تو یہ عمل منافقوں جیسا عمل ہوجاتا ہے ۔ لم تقولون مالا تفعلون
یا شادی بیاہ ہمارے سماج کا سنگین مسئلہ ہے ۔ غیر مسلم سماج کا بھی اور مسلم سماج کا بھی ۔ جب کہ دین اسلام اس کا آسان حل پیش کرتا ہے ۔ اب ہم تو اپنے عمل میں کوئی تبدیلی نہ لائیں اور لٹریچر بانٹتے پھریں کہ اسلام یہ کہتا ہے اور اسلام وہ کہتا ہے تو کتابوں میں تو دنیا کا ہر مذہب یہ اور وہ کہتا ہے ۔ اصل بات تو عمل کی ہے ۔ غیر مسلم دیکھتا ہے کہ غریب مسلمان نہایت سادگی کے ساتھ نکاح کرلیتا ہے مگر وہ اسلامی تعلیم کی اطاعت کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ غربت کی مجبوری کی وجہ سے کرتا ہے ۔ وہ یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی بہت آسان ہے ۔آریہ سماج کے مندر میں جائیے دولہا دولہن ایک دوسرے کو برمالا پہنادیتے ہیں ۔ ہوگئی شادی ۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ مگر جو دولت مند ہیں تو جو خرافات ہندووں میں ہے وہی خرافات مسلمانوں میں ہے ۔ بڑے بڑے دین دار ہیں ۔اسلام کے علمبردار ہیں لیکن جب عمل کا وقت آیا تو یہ مجبوری , وہ مجبوری , یہ تاویل ,وہ تاویل اور صرف ڈیکوریشن پر بیس لاکھ اور پچاس لاکھ خرچ ہے تو ہندو کہتا ہے کہ یہی کام تو ہمارے سیٹھ لوگ کرتے ہیں وہی مسلمان سیٹھ کرتے ہیں تو آخر فرق کیا رہ جاتا ہے ۔ اب آپ وہاں خدا اور آخرت اور جنت جہنم کا فلسفہ پیش کرتے رہیے ۔ کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔
امیر ہوں کہ غریب صرف اور صرف اپنے عمل سے اسلام کا صاف ستھرا نمونہ پیش کیجیے ۔ اسی سے اسلام ماضی میں پھیلا ہے ۔ حال میں بھی جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں وہ عمل سے متأثر ہوکر ہی اسلام قبول کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا ۔ 
بصورت دیگر جو بدتر حال ہمارا ہے اس میں اضافہ ہی ہوگا ۔ ہم ہوں کہ آپ ہوں ۔ ناگوار خاطر نہ ہو ۔ بہت سارے داعیان اسلام کے سوالوں کے جواب میں یہ چند سطریں تحریر کردی ہیں ۔ بہت سارے داعیان اسلام کا حال یہ ہے کہ ایک تقریر کرنے کے لیے دو لاکھ چار لاکھ روپیے خرچ کرارہے ہیں ۔ ایسی گاڑی چاہیے ویسا لاؤڈ اسپیکر چاہیے ۔ یہ شرط وہ شرط وغیرہ ۔ ہر بات کو صاف صاف اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ اج کل داعی اسلام کا ٹائٹل لگانے کا بھی رواج ہوگیا ہے ۔
کس درجہ ہوۓ فقیہانِ حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں , قرآں کو بدل دیتے ہیں
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی