Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 8, 2020

مسلکی ‏اختلاف ‏کے ‏بیچ ‏مِلّی ‏یگانگت ‏کی ‏ضرورت ‏۔


از/ ثناءاللہ صادق تیمی/صداٸے وقت ۔
==============================
ملتوں کی زندگی میں شعور و حکمت کے تقاضےکیا ہوتے ہیں ان پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وقتا فوقتا اس پرمباحثے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ ملت اسلامیہ ہند کو بحیثیت ملت کئی سطحوں پر اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ 
مسلکی اختلاف کو نظر انداز نہيں کیا جاسکتا ۔ یہ سچائی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کئی مسلکوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ شیعہ سنی کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ جہاں شیعہ حضرات کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں وہیں سنی حضرات کے یہاں بھی کئی مسالک ہیں ۔ برصغیر میں غالب مسلک حنفی ہے لیکن اس مسلک کے بھی کئی ذیلی مسالک ہیں ۔ حنفی بریلی ، حنفی دیوبندی ، جماعت اسلامی اور ان تینوں سے الگ ائمہ اربعہ کی تقلید سے دور  اہل حدیث حضرات ۔ یہ بات بھی ہے کہ ان کے یہاں بہت سے بنیادی مسائل میں  بھی اختلاف پایا جاتا ہے ، عقیدہ و منہج کا بھی اختلاف موجود ہے لیکن ان تمام کے ساتھ ایک بڑی سچائی یہ ہے بھی ہے کہ ان کا دین میں اختلاف نہیں ہے ۔ بنیادی طور پر ایمان و اسلام کے ارکان اور شعائر دینیہ کو اصولی طور پر سب قبول کرتے ہیں ہاں ان کے بیچ ان کی تفصیل میں اختلاف ہےلیکن عجیب بات یہ ہے کہ بالعموم مسلکی اختلاف پر جب گفتگو ہوتی ہے تو اس میں معروضی طریقہ نہیں اپنایا جاتا اور لازمی طور پر اسے ایک سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ فکر ونظر کا اختلاف فطری بھی ہے اور ضروری بھی ۔ فقہ و مسائل کی کتابیں پڑھیے تو آپ اسلاف کے علمی ، فکری اور اجتہادی سرمایے کی داد دیے بنا نہیں رہ سکتے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعد کے ادوار میں فقہ مقارن یا آزادانہ استفادہ کے راستے کو کافی دبایا گيا اور ایک عجیب انجماد کی کیفیت چھاتی چلی گئی اور یوں کل حزب بما لدیھم فرحون کا منظر نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگا ۔ معاملہ یہاں تک بھی اتنا خطرنا ک نہیں تھا جتنا خطرناک یہ ہوا کہ اس اختلاف نے باہمی رسہ کشی اور تنازع کا روپ دھارن کرلیا اور ایک گروہ نے لازما دوسرے گروہ کو اسلام کا دشمن یا کسی نہ کسی سازش کا حصہ سمجھ لیا جب کہ اگر نگاہیں کھلی رکھ کر اور بصیرت سے کام لے کر سرمایوں پر نظر رکھی جائے تو بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔ 
مسلکی انسلاک میں شدت کی اس روش نے صورت حال ایسی پیدا کردی کہ ایک ہی ملت کے دو افراد ایک دوسرے کو اپناماننے کو آسانی سے تیار نہیں ہوتے ۔ معاملہ تو یہاں تک بگڑتا ہے کہ یہ نادان ملی اور مسلکی رشتوں کے بیچ فرق کرنا بھی نہيں جانتے ۔ اگر ہندوستان جیسی جگہ پر بھی کسی مسلم بھائی کے ساتھ کوئی معاملہ ظلم و زيادتی کا پیش آتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مسلک دیکھتے ہیں ۔ آپ صرف دہشت گردی کے معاملے پر نظر رکھ لیں تو یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی ، ذاکر نائک کے معاملے پر نظر رکھ لیں تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہوکر سامنے آجائے گی ، ابھی تبلیغی جماعت کے معاملے پر بھی رد عمل کے تنوع کو دیکھیے اور " مگر "  " لیکن " کے صیغوں پر نظررکھیے تو یہ حقیقت کھل جائے گی اوربالکل ابھی ظفر الاسلام خان صاحب کے معاملے کو دیکھ لیجیے تو بھی یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی ۔
 مسلکی نشوں میں بدمست یہ نادان جانتے ہی نہیں کہ ظالم طاقتوں کے لیے آپ کا مسلمان ہونا ہی مسئلہ ہے ۔ وہ شیعہ سنی ، بریلی دیوبندی سمجھتے ضرورہیں لیکن وہ سب کو یکساں طور پر اپنے لیے ٹارگیٹ مانتے ہیں ۔ ان کی اپنی اسٹریٹجی ہے ، منصوبہ بند پالیسی ہے پہلے وہ جماعت اسلامی کو نشانہ پر لیں گے ، سب خوش کہ چلو ہم بچے ہوئے ہیں ، پھر وہ سلفیوں کو نشانہ بنائیں گے ، بقیہ سب خوش کہ چلو ہم بچے ہوئے ہیں ، پھر وہ دیوبند ، ندوہ اور تبلیغی جماعت کو نشانہ بنائیں گے ، بقیہ سب خوش کہ چلو ہم بچے ہوئے ہیں ، پھر وہ مزاروں کو بھی نہيں بخشیں گے ، بقیہ سب خوش کہ چلو ہم تو بچے ہوئے ہیں اور پھر انہیں بھی نہیں بخشا جائے گا جن کا شعار تعزيہ داری ہے کہ اللہ کے دشمن ہر اس چيز کے دشمن ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں اسلام سے کوئی تعلق ہے یا جن کا تعلق بنا لیا گيا ہے ۔
ان سچائیوں کو سامنے رکھیے تو مسلکی اختلاف کے بیچ ملی یگانگت کا راستہ نکالنے میں ہی سب کی نجات ہے ورنہ ایک ایک کرکے سب کے سب نشانے پر ہوں گے ۔ جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ یہ ملی یگانگت قرآن وسنت کا مطالبہ بھی ہے اور وقت کا تقاضہ بھی ۔ مسلکی اختلاف پر نہ گفتگو میں کوئی مسئلہ ہے اور نہ مناقشہ میں لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسائل میں اختلاف کے باوجود دین میں ہمارے اتحاد اور  ہماری ملی یگانگت کو کمزور نہ کرے ۔ ہم لاکھ مسائل ، عقائد اور فقہ و فراست کی تفصیلات میں ایک دوسرے سے اختلاف کریں لیکن اصولی طور پر مسلمان ہونے میں ہم یقینی طور پر باہم شریک ہیں اور اس حقیقت پر زور دینا بھی بہت ضروری ہے ۔ وہیں ایک دوسری حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ مسلکی اختلاف کا صرف یہی ایک پہلو نہیں کہ وہ ہمارے اختلاف کا مظہر ہیں بلکہ وہ اس بات کا بھی مظہر ہیں کہ ہمارے یہاں فکروبصیرت کے سوتے خشک نہیں رہے اور علم وآگہی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ زندہ قوموں کے یہاں ہی فکروبصیرت کے معاملات میں اختلاف و تنوع پایا جاتا ہے ۔ اس لیے اگر نیتیں درست کر لی جائیں اور ان سرمایوں کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر رکھ کر ان سے استفادہ کیا جائے تو ملت کی تہذیبی اور ثقافتی  ترقی کے ساتھ عملی و علمی بہتری کا دروازہ بھی وا ہوگا لیکن اگر کوئی ان اختلافات کو بنیاد بناکر ملت کے بیچ دوری پیدا کرنے کی سیاست کرے ، وہ چاہے پیشہ ور مقرر ہو یا ناسمجھ پیر یا سیاست کی روٹی سینکنے والا کوئی بہروپیہ ہو یا   اللہ والا کوئی نادان واعظ ان تمام پر شکنجہ کسنا امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے ، لکھ لیجیے کہ گلا پھاڑ پھاڑ کر ، قسمیں کھا کھاکر اور چیلنج کرکرکے تقریر کرنے والے تمام پیشہ ور مولوی چاہے ان کا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو ، اپنی نوٹنکی کا غریب عوام سے بہت تگڑا خراج وصول کرتے ہیں ۔ اسی طرح ملت نے جن پلیٹ فارم کو اجتماعیت کے تحفظ اور ملی مسائل کے حل کے لیے تیار کیا تھا اگر کوئی انہیں کسی بھی طرح سے تفریق بین المسلمین کے لیے استعمال کرتا ہو تو ملت کی ذمہ داری ہے کہ اس ظالم کو ظلم سے روکے اور ملت کے شیرازہ کو بکھیرنے نہ دے ۔
اللہ کے لیے ملی یگانگت کی اہمیت کوسمجھیے ، یہ اچھی خبر ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو پولیس نے ہراساں کرنا چاہا تو عوام اور قائدین نے سوالات کیے اور ڈاکٹر صاحب کے گھر کےچاروں طرف پہریدار بن کرکھڑے ہوگئے ۔ یاد رکھیے کہ اگر یہی روح اتحاد باقی رہ جائے تو دشمن صرف کھسیانی بلی کی مانند کھمبا نوچ کررہ جائے گا ۔ ان شاءاللہ