Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, May 11, 2020

غزوہ ‏بدر ‏کا ‏پیغام۔

از/  ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی / صداٸے وقت 
============================
اسلامی تاریخ میں غزوہ بدر ( 17  رمضان المبارک ہجرت کے دوسرے سال مدینہ سے 70 میل کی دوری پر ایک گاؤں بدر نام کے مقام پر پیش آیا ) ایک نہایت اہم اور روشن سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کی بڑی عظمت و اہمیت ہے ۔ اسے یوم الفرقان بھی کہا جاتا ہے یعنی حق و باطل کو واضح کرنے والا غزوہ ۔ اس غزوہ میں یہ بات عیاں ہوگئی کہ  کون حق یعنی دین اسلام کے ساتھ ہے اور کون باطل یعنی کفر و شرک کا حمایتی ہے ۔ غزوہ بدر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قران مجید میں سورہ آل عمران سورہ النساء اور سورہ الانفال میں مختلف بنیادی پہلو پر اللہ تعالی نے ایات نازل فرمائی ہے ۔ بخاریؒ ,مسلمؒ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر کتاب الجہاد میں باب غزوہ بدر قائم کرکے بہت ساری روایات کو یکجا کردیا ہے ۔ اس موضوع پر بے شمار کتابیں عربی و اردو میں دستیاب ہیں ۔علامہ شبلی ؒ نے سیرت النبی میں جلد اول ص 180 تا 347 یعنی 167 صفحات میں غزوات پر بحث کی ہے , جس میں غزوہ بدر سے متعلق گفتگو تقریبا 30 صفحات پر مشتمل ہے ۔ الجہاد فی الاسلام میں مولانا مودودی ؒ نے مفصل بحث کرتے ہوۓ مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سارا لٹریچر موجود ہے ۔تفصیل کے طالب کو ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔ وہاٹس ایپ پر کسی مختصر تحریر میں ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔
یہاں نکات کی شکل میں چند باتیں پیش خدمت ہیں ۔
1 ۔ غزوہ سے پہلے مکہ میں کس طرح کے سنگین حالات سے کیوں گزرنا پڑا۔ آخر وہ کیا پیغام اور مقصد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا اور اپ نے اپنے اصحاب کی کس طرح تربیت کی کہ وہ صبر وعزیمت کی چٹان بن گیۓ ۔ غزوہ بدر کا ایک بنیادی پیغام یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنے اندر وہ صفات پیدا کرے ۔ عقاید کی پختگی , ایسی پختگی کہ جان چلی جاے لیکن ایمان و اسلام کے باب میں نہ انفرادی نہ اجتماعی کوئی سودا نہیں ہوسکتا ۔ کسی طرح کا قومی اور علاقائی جذبہ نہیں بلکہ  اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت و اطاعت کی جانب دعوت دینا اصل مقصد زندگی ہو ۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کا راج ہو ۔ اس کے لیے دیوانگی , صبر و تحمل , ایثار و قربانی , زبردست عزم و حوصلہ اور تمام اسلامی کردار کو اپنے اندر پیدا کرنا ۔
2۔ اشاعت اسلام , دعوت اسلام , نفاذ اسلام اور خلافت یا احکام الہی کے قیام کا مقصد امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی زندگی کا مقصد ہو اور اس مقصد کے حصول کے لیے باہم مضبوط اتحاد و اتفاق ہو ۔ مستحکم اجتماعیت ہو ۔ اس اجتماعیت میں اصحاب اولی الامر کی تقوی و معروف میں بلا شرط اطاعت ہو ۔ ایسی اطاعت ہو کہ مومن , مسلم  اور منافق دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کی طرح واضح ہوجاۓ ۔ 
3 ۔ غزوہ بدرکا ایک پیغام یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی اطاعت کرنے اور اللہ کی اطاعت کروانے کے لیے, ظلم  فتنہ و فسادکو ختم کرنے کے لیے , اللہ کی راہ میں اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے , کفار و مشرکین کی حکومت میں مظلوم وکمزور طبقوں بالخصوص مسلمانوں کی حمایت و نصرت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ۔ جو کفار و مشرکین و منافقین مسلمانوں پر ظلم کرنے سے باز نہ آئیں ان کا علاج کرنا , مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بازیابی اور ان کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کرنا اور اسلامی شعائر اور عبادات کی ادائیگی میں مزاحم ( مقابل) قوتوں کو راستے سے ہٹادینا ۔۔۔۔۔یہ غزوہ کا پیغام ہے ۔
4 ۔ اپنی تمام تدبیریں اختیار کرنے کے بعد ہر حال میں اللہ کی مدد پر بھروسہ کرنا ۔ مسلمان اپنی تعداد  قوت و طاقت اور اسباب کو حتی الامکان جمع تو کرتا ہے مگر بھروسہ ہمیشہ اللہ کی ذات پر کرتا ہے ۔ اسی کی مدد کا طالب ہوتا ہے ۔ غزوہ بدر میں ایک طرف صرف 313 افراد , دو گھوڑے , 70 اونٹ ,چند تلواریں اور چند نیزے تھے , بہت سارے نہتے تھے ۔ دوسری جانب ایک ہزار دشمن تمام نمایاں سرداروں کرنل جرنل کی موجودگی , آلات حرب کا ڈھیر اور مال و دولت اور ساز و سامان کا انبار 100 گھوڑے اور 170 اونٹ  ۔مگر مسلمان خوفزدہ نہ ہوے ,بزدلی کا شکار نہ ہوے , گھبراکر میدان سے راہ فرار اختیار نہ کیا , موت کے ڈر سے کفار و مشرکین کے سامنے کسی طرح کی کمزوری و پسپائی کا مظاہرہ نہ کیا , کسی طرح کے لیت و لعل اور حیلہ و بہانہ کی روش اختیار نہ کی  ۔ شرعی احکام یا ایمان و اسلام سے دستبرداری کا اعلان نہ کیا بلکہ دشمنوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوے۔ جن کو دین اسلام سے پھیرنا , ان کے مقصد سے بھٹکانا اور شرک و منافقت کی طرف موڑ نا ناممکن تھا ۔  غزوہ بدر کا ایک پیغام یہ ہے کہ مسلمان بڑے سے بڑے فرعون وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کرتا ہے کہ تم میرا کیا بگاڑ سکتے ہو ۔زیادہ سے زیادہ مجھے اذیت دے سکتے ہو , میرا قتل کرسکتے ہو مگر تم مجھے میرے دین سے پھیر سکو , تو یہ کسی کے بس کا نہیں ہے ۔ میرا جینا اور میرا مرنا سب معبود حقیقی ذات واحد لا شریک کے لیے ہے ۔
5 ۔ غزوہ بدر کی فتح سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ مشرکین جہاں بدترین ظالم ہوتے ہیں ,  وہیں موت کے نام سے لرزاں بر اندام ہو تے ہیں ۔ وہ مرنے کے لیے کسی صورت امادہ نہیں ہوتے ۔انہیں اپنی کثرت , اپنی قوت اور اقتدار کا نشہ تو ہوتا ہے مگر وہ جان دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ اگر انہیں معلوم ہوجاے کہ مسلمانو ں سے مقابلہ کرنے میں ان کی جان جا سکتی ہے تو الٹے پاوں بھاگ کھڑے ہوں گے بلکہ ساری ہیکڑی سرد پڑ جاےگی ۔ ( بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبیی کی تاریخ سے ایسا ہی کچھ تاثر قایم ہوتا ہے ۔) 
6 ۔ اختصار کے پیش نظر اپنی بات کو سمیٹتے ہوے غزوہ بدر کے اس پیغام کو پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ایک عظیم الشان نصب العین کی حامل ملت کو اپنا مقام و منصب پہچاننا چاہیے , اپنی ملی عزت و غیرت کی حفاظت کے لیے ہمیشہ اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھنا چاہیے ۔ جیسے بندر اور کتے حملہ آور ہوں تو اگر آپ بھاگیں گے تو وہ کاٹ کھاییں گے ۔ لیکن آپ ڈٹ جائیں , لاٹھی لے کر دوڑالیں تو وہ بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ یہی حال دشمنان اسلام کا ہے کہ اگر نرم چارہ بن جائیں گے تو وہ اور چڑھتے جائیں گے اور اگر ڈٹ کر مقابلہ کیا جاے کہ ایسے بھی مرنا ہے اور ویسے بھی مرنا تو انشاء اللہ موت خود راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاۓ گی ۔ فاعتبروا یااولی الابصار ۔
ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین ۔

ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی