Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, May 22, 2020

اپنا ‏چہرہ ‏آٸینے ‏میں ‏دیکھتے ‏رہنا ‏چاہیٸے۔

ااز / ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت۔
=============================
نرم گفتاری , شفقت , چہرے پر مسکراہٹ,  حسن ظن, کسی کے عیب کی پردہ پوشی , وقت ضرورت مالی تعاون , ہمدردی و غمگساری, سادگی, انکساری ,شائستگی اور دوسروں کو بالخصوص اپنے سے کم عمر دوستوں کو عزت دینا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا , اگر ان کی کسی کمزوری کی اصلاح کرنا ہی مقصود ہو تو نہایت خوبصورت انداز میں بہتر طریقہ اختیار کرنا ۔ مصیبت اور سخت حالات میں اپنے عزیز واقارب اور دوستوں کے لیے ڈھال بن جانا ۔یہ صفات ایک تعلیم یافتہ , مہذب اور خاندانی شرافت سے وابستگی کی نمایاں علامتیں ہیں ۔
اس کے برعکس بعض لوگ بد تہذیب , کرخت مزاج اور بد دماغ ہوتے ہیں ۔ کوئی نمایاں دینی یا دنیاوی عہدہ مل جاے تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ بعض پروفیسروں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ کس قدر غرور اور گھمنڈ ہو تا ہے جیسے فرعون وقت ہوں ۔ چہرے پر خشونت , کرختگی ,  سخت مزاجی , لہجے میں اینٹھن اور اپنے سے کمزور اور چھوٹوں پر رعب ڈالنے کی کوشش کرنا ۔ اسی طرح بعض لوگ اپنے کو سپر ثابت کرنے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے اندر صلاحیت کم ہوتی ہے مگر باصلاحیت ثابت کرنے کے لیے موقع تلاش کرتے ہیں اور اپنوں ہی کے درمیان اپنے پورے جسمانی وجود سے آگ اگل رہے ہوتے ہیں ۔ کسی کو بے عزت کرکے ایسے لوگ تسکین حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی انکساری میں بھی غرور ہوتا ہے ۔ اپنے سے طاقتور کے سامنے یا جن سے ان کو خطرہ ہوتا ہے ان کے سامنے بڑے شریف اور نرم گفتار ہوتے  ہیں مگر جن سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا ہے ان کو ذرا بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ 
یہ طرز عمل دراصل معاشرے کے ذلیل اور پسماندہ خاندان سے وابستہ ہونے کی علامت ہوا کرتی ہے ۔ وہ کسی منصب کا حق دار نہیں ہوتا ہے مگر اتفاق سے اسے حاصل ہوجاتا ہے ۔ وہ خالص دنیا دار ہوتا ہے مگر دین داری کا لبادہ اوڑھے ہوتا ہے ۔ وہ کسی اجتماعیت کے ساتھ دو قدم چل نہیں سکتا ۔لوگ ایسے لوگوں کو برداشت کررہے ہوتے ہیں ۔معاشرے کے دیگر لوگ اپنی شرافت نفس کی بنا پر اس فرد کو عزت دے رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے کو اس عزت کا حق دار سمجھنے کی غلطی کر رہا ہوتا ہے ۔ حالانکہ خود اپنے ساتھ کے دوسرے ہم منصب سے ایک منٹ بھی اس کے تعلقات درست نہیں ہوتے ۔کوئی آزمائش آن پڑے تو چینخ پڑتے ہیں اور برسوں چینختے رہتے ہیں ۔ 

یہ آئینہ ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص جہاں بڑی خوبیوں کا مالک ہے تو وہیں بہت ساری کمزوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جو اکثر نظر نہیں آتی ہیں ۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت اسی لیے پیش آتی ہے تاکہ ہم اپنی صورت ان الفاظ کے آئینے میں دیکھتے رہیں ۔ اور فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوئی ہو تو اسے سنوارنے بنانے پر توجہ دیتے رہیں ۔ 
بہت معمولی تعلیم یافتہ افراد , غریب انسان نہایت اعلی صفات کے مالک ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بہت تعلیم یافتہ , دولت مند افراد نہایت برے اخلاق و برتاو کے ہوسکتے ہیں ۔ ٹھہر کر ہر ایک کو دوسروں کا داغ دھبہ تلاش کرنے کے بجاۓ اپنا داغ دھلنے اور مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
خدا کرے کہ اس سال ماہ رمضان میں ہم اپنا احتساب کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوۓ ہوں ۔ اللہ تعالی ہماری مدد فرماۓ ۔آمین 
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی