Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 6, 2020

مسلمانوں ‏کا ‏معاشی باٸیکاٹ ، ‏حلال ‏سرٹیفکیشن ‏اور ‏معاشی ‏پلاننگ ‏۔


تحریر /دانش ریاض، ممبئی/صداٸے وقت / ٦ مٸی ٢٠٢٠
==============================
ورلڈ ایکونومک فورم سوشل ڈسٹینسنگ کے لئےسن 2022تک کی جس طرح وکالت کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم کردی جانے والی ہے۔پوری دنیا میں بھارت وہ واحد ملک رہا ہے جہاں ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کوطویل لاک ڈائون کا سامناکرنا پڑا ہےاور شاید مکمل لاک ڈائون کے حوالے سے بھی یہ دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں ہر چیز پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔لہذا مجموعی طور پر تو ملک کی عوام نے تکلیفیں برداشت کی ہیں لیکن خصوصی طور پر اس کی سب سے زیادہ مار مسلمانوں پر پڑی ہے۔شیطانی میڈیا نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو جس طرح حاشیہ پر لاکھڑا کیا ہے اس کا بہتر اندازہ تومکمل لاک ڈائون کے خاتمہ کے بعد ہی ہوگا لیکن لاک ڈائون کے دوران ہی معاشی بائیکاٹ کے جو ویڈیوز وائرل کئے گئے ہیں وہمستقبل کی معاشی مار کی طرف بخوبی اشارہ کرتے ہیں۔
یوں تو تقسیم ہند کے بعد سے ہی مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا آغاز ہوچکا تھا اور وہ تمام کلیدی کاروبار جس پر کبھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا کرتاتھا دھیرے دھیرے ایسے گرفت میں لئے گئے کہ بیشتر انڈسٹریز میں مسلمان صرف بندھوا مزدور بن کر رہ گئے۔یقیناً سازش کو کامیاب بنانے میں مسلمانوں کی کوتاہی کا بھی دخل ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو زمانے کی رفتار کے ساتھ تیار نہیں کیا اور ’’پدرم سلطان بود‘‘کا خواب دیکھتے ہوئے ان بدمستیوں کا شکار رہے جس نے رہی سہی نیا بھی ڈبو دی لیکن ان کوتاہیوں کے ساتھ دشمن کی مضبوط پلاننگ نے انہیں ازکار رفتہ بنادیاہے۔
بھلا ہو خلیجی ممالک کا جنہوں نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دیا اور پھر نیم مردہ قوم زندگی کی انگڑائیاں لینے لگی۔لیکن یہ انگڑائی بھی ان لوگوں کو راس نہیں آئی جو پیسے کو خدا تسلیم کرتے ہیں اور ہر روز اس کی پوجا کرنا واجب گردانتے ہیں۔لہذا ان اداروں پر قدغن لگانے کی تیاری کی جانے لگی جو ’’مین پاور کنسلٹنسی ‘‘کیا کرتے تھے۔جب یہ کشتی بھی منجدھار میں پھنسنے والی تھی تو میں نے اس فیلڈ کےناخدائوں سے فرداً فرداً اورپھر اجتماعی طور پر ملاقات کرکے آنے والے طوفان سے آگاہ کیا تھالیکن صحافی اگر کم عمر ہو اسی کے ساتھ غریب ہو تو بہت کم دھننا سیٹھ لائق خاطر سمجھتے ہیں ۔بالآخر 2014کے پارلیمانی انتخابات کے بعد جب باقاعدہ ناطقہ بند کردیا گیا تو ان لوگوں کی منت سماجت قابل دید تھی جو کبھی لائق خاطر نہیں سمجھا کرتے تھے۔لیکن کہتے ہیں کہ وقت رہتے تگ و دو کرنے والا جہاں عقلمند ہوتا ہے وہیں وقت ختم ہوجانے کے بعد دوڑ لگانے والے کو بیوقوف ہی گردانا جاتا ہے لہذا اس بیوقوفی کا سامنا بھی مسلمانوں نے کرلیا اوروہ موقع بھی گنوادیا جو انہیں مالی طور پر عزت و شرف عطا کرتاتھا۔
حالیہ معاشی بائیکاٹ دراصل بھارتی مسلمانوں پر آخری کیل ٹھوکنے کی تیاری ہے۔معاشی مندی کے بعد لاک ڈائون نے مسلمانوں کی معاشی کمر توڑ دی ہے رہی سہی کسر ان بائیکاٹ کے ذریعہ پوری کی جائے گی اور ممکن ہے کہ ایک ایسا ماحول بن جائے جہاں مسلمان منڈی میں شجر ممنوعہ قرار پائے۔البتہ ایسے ماحول میں وہ لوگ کامیاب قرار پائیں گے جو صبح مومن شام میں کافر اور شام میں کافر صبح مومن ہوجائیں۔جن حرام کمپنیوں کو حلال قرار دینے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا اور پھر دیدہ دلیری کے ساتھ پیڈ نیوز کی شکل میں وضاحتی بیانات شائع کروائے گئے کم از کم وہ اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ایک ایسے ماحول میں جبکہ حرام وحلال کی تشخیص ختم ہوتی جارہی ہے اورجبہ و دستار والے ہی حرم کو رسوا کرنے پر آمادہ نظر آرہےہیں عام مسلمانوں کے لئے معاشی پلاننگ انتہائی ضروری ہے ۔آئندہ دنوں میں جہاں چھوٹے کاروباریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی وہیں کارپوریٹ کو مزید بڑھاوا ملے گا ممکن ہے کہ آن لائن کاروبار میں اضافہ ہو اور وہ لوگ بہتر طور پر بزنس کرپائیں جنہیں آئی ٹی انڈسٹری اور مارکیٹنگ پر دسترس حاصل ہو۔ 
فی الحال مسلمانوں کو جس فیلڈ پر خصوصی توجہ دینی چاہئے وہ ایگریکلچر(Agriculture) ہے ۔انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی ،کپڑا ،مکان شامل ہے اور بدقسمتی سے اسی فیلڈ میں مسلمان پچھڑگیا ہے۔اگر علاقائی سطح پر ہم کنزیومر کو آپریٹیو سوسائٹی قائم کریں اور جگہ جگہ کوآپریٹیو اسٹورس کھول لیں تو کم ازکم ’’روٹی ‘‘کے مسئلہ پر قابوپایا جاسکتا ہے۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ایگریکلچر(Agriculture) پر آپ کی گرفت ہوگی۔لاک ڈائون کی وجہ سے مزدوربھاگ رہے ہیں ایسے میں اگر آپ کھیت کھلیانوں میں ڈیرہ جمادیں تو مسئلے کا فوریحل تلاشاجاسکتا ہے۔ ’’کپڑے ‘‘کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پاورلوم تو ہمارے پاس ہے لیکن ٹریڈنگ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے صرف ’’لیبر ‘‘کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیںجبکہ ’’ٹریڈنگ‘‘ کا بھرپور فائدہ مارواڑی اٹھا رہا ہے۔لہذا اگر ٹریڈنگ پر دسترس حاصل کرلی جائے تو مسلمان بھی بڑی کمپنیاں بنا سکتا ہے لیکن فی الحال ’’امداد باہمی‘‘ کے ذریعہ اگر ہم اس تجارت کو فروغ دیں تو کارپوریٹ کا مقابلہ بآسانی کرسکتے ہیں۔ یقیناً لاک ڈائون کے دوران جن مساجد کو کورنٹائن سینٹر بنایا گیا یا جن مساجد سے راشن تقسیم کرنے کی پہل کی گئی انہوں نے اس فریضہ کو ادا کرنے کی کوشش کی جس کو کہ مسلمان بھلائے بیٹھے تھے۔
اب اگر ہم مساجد کو سینٹر بناکر اپنے تجارتی امور کی پلاننگ بھی  کرنے لگیں توہم اس سنت کو زندہ کرنے والے قرار پائیں گے جس کا آغاز نبی پاک ﷺ نے بیت المال کے ذریعہ کیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب چھوٹے چھوٹے تکنیکی کاموں میں مسلمانوں کو مہارت حاصل تھی لیکن بڑا خواب دیکھنے کے چکر میں وہ اس صلاحیت سے بھی محروم ہوگئے نتیجتاًالیکٹریشین ،پلمبر،کارپینٹر،موٹر میکنک کے ساتھ وہ دوسرے تکنیکی کام جن پر ان کا اختصاص تھا ہاتھ سے جاتے رہے لہذا اس وقت اگردوبارہ ان امور پر توجہ دی جائے تو ہم کساد بازاری میں بھی دو وقت کی روٹی بہتر طور پر کما سکتے ہیں۔
یقیناً بڑے اور سنہرے خواب دیکھنا اچھی بات ہے لیکن اپنی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہوئے بلندیوں پر چڑھنا ہی عقلمندی ہے۔اس وقت جبکہ بنیادوں کو ہلایا جارہا ہے ہمیں بنیادوں کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔رازق تو اللہ ہی ہے ۔سورہ شوری آیت 27میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’اگر اللہ تعالی اپنے ( سب ) بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے‘‘ ۔اس کی تشریح اس روایت سے بھی کی جاسکتی ہے جس میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوالے سے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعض مؤمن بندے ایسے ہیں کہ مالداری اُن کے ایمان کی قوت کا باعث ہے اگر میں انہیں فقیر محتاج کردوں تو اُن کے عقیدے فاسد ہوجائیں اور بعض بندے ایسے ہیں کہ تنگی اور محتاجی ان کے ایمان کی قوت کا باعث ہے، اگر میں انہیں غنی مالدار کردوں تو اُن کے عقیدے خراب ہوجائیں ۔واللہ اعلم بالصواب
اللہ تعالی ہمیں ان جائز امور کا ذمہ دار بنائےجو دین ودنیا میں ہمارے ایمان کی سلامتی کا باعث قرار پائے۔یقیناً تمام فضل کا سزاوار تو صرف رب کائنات ہی ہے۔   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 مضمون مگار دانش ریاض معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر اور آل انڈیا حلال بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں۔