Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, May 5, 2020

موجودہ ‏حالات ‏میں ‏مسلمانوں ‏کو ‏کیا ‏کرنا ‏ہے۔۔۔قرآن ‏و ‏سنت ‏کی ‏روشنی ‏میں ‏رہنماٸی۔


موجودہ حالات یقینا سنگین اور مسلمانو ں کے لیے بالخصوص پریشان کن ہیں ۔مگر یہ حالات نیے نہیں ہیں ۔

از / ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی /صداٸے وقت۔
=============================

ایسے حالات میں کرنا کیا ہے ؟ قران وسنت اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ  کرنے سے جو ہدایات و رہنمایی ملتی ہیں وہ یہ ہیں ۔
1۔ رجوع الی اللہ :اپنے رشتے کو اللہ سے مضبوط کیا جاے,فرض اور سنت نمازوں کے علاوہ نوافل کا اہتمام کیا جاے ۔ خصوصا اس کا اہتمام کیا جاے کہ فرض کے ساتھ کوئی سنت نہ چھوٹنے پاے ۔ دعاؤں کا اہتمام کیا جاے ۔ اللہ تعالی کو پسند ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام ممکن ذرایع اختیار کرنے کے بعد میدان جنگ میں بھی سجدہ ریز ہوکر دعا فرماتے تھے ۔ حسب حیثیت صدقہ و خیرات کرنا بھی مشکلوں سے نجات پانے کا ذریعہ ہے ۔اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ۔
2۔ گناہوں سے توبہ کی جاے ۔یہ گناہ عذاب کا سبب ہوتے ہیں ۔ جس کا جو حق ہے وہ ادا کیا جاے ۔ اس لیے کہ حقوق کی ادائیگی کے بغیر توبہ بے معنی ہے ۔ جس کو تکلیف پہنچایی ہے اس سے معافی مانگی جاے ۔ اگر بندوں سے تو اکڑ اور ظلم وزیادتی روا رکھی جاے اور اللہ سے توبہ طلب کی جاے تو اللہ تعالی ایسی توبہ قبول نہیں کرتا ۔
3۔ والدین کو اگر کسی طرح تکلیف پہنچایی ہے تو ان سے معافی مانگی جاے ۔ والدین کی بددعا انسان کو تباہ وبرباد کردیتی ہے ۔ اسی طرح درجہ بہ درجہ تمام رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی , اگر مال و متاع زمین مکان غبن کر رکھا ہے تو اس سے دستبرداری اور مطلوبات کی اداییگی اور ظلم کیا ہے تو اس کی تلافی کی جاے ۔
4۔ تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جاے ۔ردعمل اور غم و غصہ کی کیفیت طاری نہ ہونے پاے ۔اسی طرح خوف اور ڈر کے بجاے ہمت اور بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جاے ۔ صبر و استقامت مومن کا اسلحہ ہے ۔مرجاییں گے ,ایمان کا سودا نہ کریں گے ۔سیرت رسول اور سیر صحابہ و صحابیات کا مطالعہ کرنے سے حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔
5۔ اپنی جان مال , عزت وابرو کی حفاظت کی ہر ممکن انفرادی و اجتماعی تیاری کی جاے ۔ خدانخواستہ ایسے حالات سے سابقہ پڑ جاے تو پہلے تو صبروتحمل کے ساتھ گریز کرنے اور سمجھانے بجھانے کی کوشش کی جاے اور اگر حالات قابو سے باہر ہورہے ہوں تو بزدل بننے یا ہاتھ جوڑنے کے بجاے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاے حتی کہ جان دینی پڑے تو اس کے لیے بھی امادہ رہیں ۔ مومن تو شہادت کو اپنا مطلوب و مقصود جانتا ہے ۔
6۔ خیر پسند غیر مسلم افراد کو ساتھ لے کر (اگر وہ تیار ہوں) بصورت دیگر خود اپنا وفد بناکر انتظامیہ سے ملاقات کریں اور حالات سے زبانی و تحریری آگاہ کریں ۔ اپنے مطالبات پیش کریں ۔ پریس کانفرنس کریں اپنی اواز بلند کرتے رہیں ۔خامو ش رہنے سے ظالموں کو شہ ملتی ہے ۔
7۔ اپنے حقوق کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کیے جاییں گرچہ قانون بھی پابند سلاسل نظر ارہا ہے مگر اس کو اختیار کرنا ہوگا ۔
8۔ جس طرح ہر بستی محلہ اور گاوں میں نوجوانوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو کسی کا انتقال ہونے پر قبر وغیرہ تیار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں , اسی طرح ظلم کے خلاف اور کمزوروں کی حمایت میں کچھ نہ کچھ افراد کو ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ظلم کا علاج ظالموں کی سر کوبی ہے ۔ 
9۔ اپس میں اتحاد قایم کریں ۔ اتحاد کے لیے برداشت کرنا سیکھیں ۔ زبانی جمع خرچ کے بجاے عملا کام کریں ۔ نہیں کرسکتے ہیں تو خاموشی اختیار کریں ۔ خواہ مخواہ زبان درازی کرکے ماحول خراب نہ کریں ۔ اجتماعی زندگی کے آداب سیکھیں ۔کچھ لوگ غیر سنجیدہ اور بدتمیز ہوتے ہیں جو معمولی اور غیر اہم باتوں پر صبح تا شام ٹر ٹر کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے مخالف پر طنز و تعریض کے تیر چلاتے رہتے اور اپنےکو عقل مند ثابت کرتے ہیں ۔ایسے لوگ اتحاد کے دشمن ہوتے ہیں ۔بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا ہے , ان کو کنارے لگادینا چاہیے ۔ اگر باز نہ اییں تو ان کا علاج کیا جانا چاہیے ۔ یاد رکھیے اتحاد اور اجتماعیت کے لیے نرم زبان ,نرم اسلوب گفتگو اور سنجیدگی لازم ہوتی ہے ۔ تند مزاجی کے ساتھ اجتماعیت باقی نہیں رہ سکتی ۔ 
(  ایک بنیادی بات پیش نظر رکھیے ۔ اتحاد کسی نہ کسی نصب العین پر ہوتا ہے ۔ اپ اپنا نصب العین متعین کیجیے ۔اتحاد ہوجاےگا۔ نصب العین اپ قران مجید سے معلوم کیجیے ۔ معروف کا حکم اورمنکر سے روکنا یہ قران کی رو سے بنیادی مقصد ہے ۔ بھانت بھانت کے فکر وعمل اور ہر کس و ناکس کو لے کر اپ اتحاد کی بات کریں گے تا قیامت اتحاد نہیں ہوگا۔
اسی ضمن میں اکثر رونا رویا جاتاہے کہ مسلمانوں کا کوئی لیڈر نہیں ہے ۔ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ یہ کہیے کہ سب لیڈر ہوگیے ہیں کوئی مقتدی Follower نہیں رہ گیا ہے ۔ لیڈر فالوورس سے ہوتا ہے ۔یہاں صورت حال یہ ہے کہ دو ادمی ایک دوسرے کا پاس و لحاظ رکھنے کو تیار نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ لیڈر نہیں ہے ۔ پاجامہ پہننے کا ڈھنگ نہیں ہے اور تبصرہ کرتے ہیں کہ ” یہ مسلم پرسنل لا بورڈ جو ہے نا وہ بک گیا ہے ۔ دارالعلوم دیوبند ہے نا کچھ نہیں کررہا ہے ۔ اپ کو طے کرنا ہوگا کہ برتن دھلنے والا برتن دھلے ۔ ملک و ملت کی پالیسی نہ بناے اور اسی طرح پالیسی بنانے والے کو اپنی سطح کے لوگوں کے درمیان ہی پالیسی پر گفتگو کرنا چاہیے ۔ انپڑھ لوگوں کے درمیان اپ خلافت اور ملوکیت پر گفتگو کریں گے اور خود ہی فیصلہ کرلیں گے تو اتحاد کیسے ہوگا ۔ زبر دستی کا مصنوعی اتحاد کتنے دن باقی رہے گا ۔بلکہ انتشار ہی سے  ”اتحاد“ کی ابتداء ہوگی ۔ اسی طرح غیبت کرنے ،غیبت سننے  اور ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے رہیں گے اور کہیں گے اتحاد نہیں ہے ۔ واہ کیا خوب ! )
10۔ اول وآخر اسلام کی دعوت ہر ممکن طریقے سے دی جاے ۔ خصوصا قران مجید کی ہدایت کے مطابق بنیادی پہلؤں کو موضوع دعوت بنایا جاے ۔ یا ایھا الناس ان اعبدوا اللہ , واتقوہ و اطیعون  ۔ ( اے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو ، اس کا تقوی اختیار کرو اور رسول کی اطاعت کرو )۔ اسی طرح اسلام , مسلمانوں اور مسلم تاریخ کے بارے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی تدابیر اختیارکی جائیں ۔ سازش کرنے والوں کا ادراک ہو اور بروقت سازشوں کو بے نقاب کیا جاے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف کون کس کو استعمال کررہا ہے ؟ کون کیوں اور کس طرح استعمال ہورہا ہے ؟ اس پر تبادلہ خیال ہو اور اس پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کی جاییں ۔ مولفة القلوب پر  بھی غور کرنا چاہیے ۔ 
اللہ تعالی ہمیں امن و امان قایم کرنے اور فتنہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہمت و طاقت ,وسایل واسباب اور عقل و دانش عطا کرے ۔ امین
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی 9839538225