Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 6, 2020

چلی ‏ہے ‏رسم ‏کہ ‏کوٸی ‏نہ ‏سر ‏اٹھا ‏کے ‏چلے ‏۔



از/ *سرفرازاحمد قاسمی (حیدرآباد)*
برائے رابطہ 8099695186
        صداٸے وقت / ٦ مٸی ٢٠٢٠
==============================

         اس وقت ہماراملک ہندوستان جس عجیب وغریب حالات سےگذررہاہے یہ انتہائی افسوسناک ہے،ہرطرف نفرت کی فضاء عام ہورہی ہے،ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کوٹارگیٹ کیاجارہاہے لیکن اسکے باوجود حکمراں طبقےکی  جانب سے پوری قوت کے ساتھ یہ بھرم بھی پھیلایاجارہاہے کہ ملک میں سب ٹھیک ہے،کہیں کوئی تشویش کی بات نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ساری چیزیں اسکے برعکس ہورہی ہیں،ایک طبقے وہ ہےجو مسلسل ہرزہ سرائی کررہاہے،مسلمانوں کے خلاف نفرت  پھیلا یا جارہاہے، میڈیااس میں اہم کردار ادا کررہاہے،عدلیہ کو یرغمال بنالیاگیاہے،مقننہ اس بات پراپنی قوت صرف کررہاہے کہ کیسے ایک خاص مذہب کے لوگوں کومجرم اورغدار بنایاجائے،انکی نقل وحرکت پرنظر رکھکر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالاجائے،انکی زندگیاں اجیرن بنائی جائے،سماج میں انکے خلاف نفرت کابیج بویاجائے،گویاہر اعتبار سےانھیں سماج سے بالکل الگ تھلگ کردیاجائے،اور کہیں نہ کہیں وہی سب کچھ دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے جواسپین میں مسلمانوں کےساتھ ہوا،اسپین اوراندلس میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی عبرت ناک ہے،ایک ایسی داستان ہے جسکوسننے کی ہرشخص ہمت نہیں کرسکتا،لیکن حقیقت سے انکار بھی  نہیں کیاجاسکتا اسلئے وہ دلخراش داستان تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں،اسکی وجوہات کیاتھیں؟اور کیوں وہاں کے مسلمانوں پرظلم وبربریت کی تاریخ رقم کی گئی؟یہ بھی ایک فکرانگیز سوال ہے،جس پر انشاءاللہ کسی موقع پر روشنی ڈالی جائے گی،اس وقت صرف اتنا جان لینا ضروری ہے کہ دہلی کے ایک اخبار نے 28 اپریل 1998ء  میں ایک رپورٹ شائع کی جسکامختصر سااقتباس یہ ہے کہ"چند سال قبل آر ایس ایس نے اپنا ایک وفد ہندوستان سے اندلس (اسپین) اسلئے بھیجا تھا تاکہ وہاں جاکر وہ یہ تحقیق کرے کہ تقریبا ایک ہزار سال وہاں مسلم حکومت ہونے کے باوجود آج وہاں اسلام کا نام ونشان عمارت وغیرہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں ایساکیوں؟،یہ اتنا  بڑا کام اسپین والوں نے کس طرح کیا؟یہ وفد وہاں پہونچااور جاکر تحقیقات کی توا نکو لوگوں نے بتایا کہ ہم نے مسلمان قوم کا اعتماد انکے علماء پرسے اٹھادیا،وفد ہندوستان واپس آیا اور آرایس کو اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی،جس میں تفصیل سے اسپین میں ہوئی تبدیلی اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ظلم وبربریت کی دلخراش داستان کاجائزہ لیاگیاتھا"، (دیکھئے روزنامہ قومی  آواز دہلی) اسی دن سے آرایس ایس، اسی ایجنڈے پرعمل پیراہے، ملک کی موجودہ صورتحال کاجائزہ لیجئے تویہ  بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ  یہ سب  کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم پلاننگ اورمنصوبہ بندی کے ساتھ کیاجارہاہے،بھارت میں آج کل جوصور تحال ہے یہ اسی ایجنڈے پرعمل آوری کانتیجہ ہے،کوئی مسلمان یہاں اپنے حق کی آواز نہیں اٹھا سکتا،حکومت کی جانب سے دستور میں دئے گئے آزادی اورہمارے حقوق ہمیں فراہم نہیں کئے جائیں گے،  اگراسکے خلاف کوئی آواز بلند کرتاہے تواس پرپوری شدت کے ساتھ  کاروائی ہورہی ہےاورحکومت کاناپاک شکنجہ اسکے لئے ہمہ وقت تیار ہے،"بھارت ایک سیکولر ملک ہے"شاید یہ جملہ اب کسی خواب سے کم نہیں ہے،ملک کی حالت کتنی دگرگوں اورسنگین ہوتی جارہی ہےاسکاہم  تصور تک نہیں کرسکتے،دستوری  ادارے،عدلیہ،مقننہ،اورمیڈیا یہ سب یرغمال بنالئے گئے  ہیں،اب ہرقانونی شکنجہ صرف اور صرف اس ملک کے مسلمان کےلئے باقی رہ گیاہے،کرونا وائرس کی آڑ میں لاک ڈاؤن کاجوسلسلہ  چل رہاہے اور اس  بہانے سے شاہین باغ،جامعہ ملیہ،دہلی اورملک بھر کے دیگرشہروں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں جاری ہیں،لیکن اسکے خلاف کوئی آواز اٹھانے کےلئے تیارنہیں ہرطرف سناٹاہے،کسی بھی سیاسی  پارٹی اورکسی لیڈر  نے ابتک اس مسئلہ پرآواز بلند نہیں کیا،مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں صرف اس وجہ سے ہورہی ہیں کہ شاہین باغ اورجامعہ ملیہ سمیت ملک بھر میں مسلمانوں نے ایک کالے قانون"سی اے اے اوراین آرسی" کی پرزور مخالفت کی تھی جسکے بعد ملک کے تقربیا 300 شہروں میں شاہین باغ کے طرز پراحتجاجی  مظاہرہ منظم کیاتھا،جوتین مہینے سےزائد تک   چلاجسمیں  مسلم  خواتین نے پورے جوش وخروش سے حصہ لیاتھا،اسی جرم کی پاداش میں ملک بھر میں مسلمانوں کی گرفتاریوں کاسلسلہ جاری ہے،اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نوجوانو ں کے ساتھ خواتین کوبھی اسی جرم میں گرفتار کیاجارہاہے،UAPA کے نام سے جسکو موجودہ حکومت نے ابھی گذشتہ سال دسمبرمیں تر میم   کرکےپارلیمنٹ سے  پاس  کرایاہے،اس قانون  کی آڑ میں خاص طور سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا جارہاہے،جامعہ ملیہ دہلی کی ایک مسلم طالبہ جو شادی شدہ اورحاملہ  ہے، اوراسکا تعلق کشمیر ہے اسکو گذشتہ 10 فروری کو دہلی پولس نے گرفتارکیاتھا،دوتین دن کے بعد انکی ضمانت ہوگئی تھی کورٹ نے انکی رہائی کاحکم دے دیاتھا،انکو رہاکیا جاتا اس سے پہلے دہلی پولس نے ان پر یواے، پی اے، کے تحت سنگین  الزام عائد کردیاجسکی  وجہ سے وہ اب تک یعنی تین ماہ سے تہاڑ جیل میں قید ہے،سوشل میڈیا پرزور وشور سے یہ خبرآج کل گشت کررہی ہے لیکن مجال ہے کہ ملک کامیڈیا یاکوئی اپوزیشن قائد اس مظلوم طالبہ کی حمایت میں آواز اٹھائے،ایسے بہت سے واقعات ہیں جوروز ہمارے سامنے انجام دئیے جارہے ہیں،اور ان سب کاشکار صرف مسلمان بن رہاہے،جولوگ افواہ پھیلاکر ملک کا ماحول خراب کررہے ہیں، نفرت انگیز نعرے لگارہے ہیں،غلط الزام کے تحت ایک بھیڑ کسی پر حملہ آور ہوتی ہے اوراسکو موت کے گھاٹ اتاردیتی ہے،لیکن اس بھیڑ کےخلاف یانفرت انگیز نعرے لگانے والوں کےخلاف،جھوٹی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف،لوگوں کوزندہ جلانے والوں کے خلاف کوئی  کاروائی نہیں ہوتی،انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا کیوں کہ  یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے،اگریہ مسلمان ہیں اور انکاجرم کچھ بھی نہیں تب بھی انھیں مجرم بنادیاجائے گا،کوئی بھی الزام لگاکر انھیں بہت آسانی کے ساتھ جیل کی سلاخوں میں ڈال دیاجاتاہے،اور ملک بھر کے تمام ادارے،ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی رہتی ہے کیایہی جمہوریت ہے؟2014 کے الیکشن کے بعد ملک میں جس طریقے سے ظلم وبربریت کاننگا ناچ گیا اور جمہوریت کاجنازہ نکالاگیا یہ بڑاافسوسناک ہے اسکاسلسلہ اب بھی جاری ہے،آپ ذرا سوچئے جن لوگوں نے دہلی جلائی،وہاں حیوانیت بھی شرم شار ہوگئی، جہاں لوگوں کی عزت وآبرو پامال کی گئی ، کئی دنوں تک مسلسل دہلی جلتی رہی،لوگوں کےگھراور دکانیں لوٹ لی گئی،کئی سولوگوں کوموت کے گھاٹ اتاردیاگیا،کیاایسے لوگوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی ہوئی؟اگر ہوئی توصرف مسلمانوں کے خلاف، عام آدمی کے طاہرحسین کے خلاف کیوں کہ یہ مسلمان تھے،انکاسب سے بڑاجرم یہی ہے یہ لوگ مسلمان ہیں،غیرمسلموں کے خلاف یہاں کوئی کاروائی نہیں ہوگی، الیکشن کے موقع پر بی جےپی کے جن لیڈروں نے نفرت آمیز نعرے لگائے،اشتعال  انگیزی کی  اوربھڑکاؤ بھاشن دیئے کیاان میں سے کسی ایک کےخلاف بھی کاروائی ہوئی؟کیوں ہوگی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں کہ یہ مسلم نہیں ہیں اسلئے انکا ساراجرم معاف ہے،اعظم خان مسلمان ہیں اسلئے انکے خلاف کارروائی کی گئی انکی یونیورسٹی تک  کو نہیں  بخشا گیا،وہ اب بھی فیملی کے ساتھ پس دیوار زنداں ہیں،انھیں ایک تازہ شکار اور مل گیا، ڈاکٹر ظفرالاسلام کی شکل میں،انکے خلاف بھی  ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے،آئیے پہلے یہ جانتے ہیں ڈاکٹر ظفرالاسلام کون ہیں اور انکا جرم کیاہے؟ڈاکٹر ظفر الا سلام خان ایک غیر سیاسی شخص ہیں،وہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں،وہ بین الاقوامی سطح کے ایک اعلی تعلیم یافتہ اسلامی اسکالر ہیں،عربی کےعلاوہ انگریزی زبان پرانکو مکمل عبور حاصل ہے،عرب ممالک میں انکوبڑے عزت واحترام کی نگاہ سے نگاہ سے دیکھاجاتاہے،انھوں نے برطانیہ کی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی،اس سے پہلے وہ مصر کے جامعة الازہر یونیورسٹی اورقاہرہ یونیورسٹی میں بھی تعلیم کےسلسلے میں مقیم رہے،پچاس سے زائد کتابیں انھوں نے تصنیف اورترجمہ کیاہے،ایک لمبے عرصے تک وہ "ملی گزٹ" کےنام سے ایک انگریزی اخبار نکالتے رہے،جس میں نمایاں طورپر پوری بے باکی کے ساتھ مسلم مسائل کی رپورٹنگ کرتے رہے،وہ غریبوں اورمفلوک الحال کی مدد کےلئے ایک سرگرم رفاہی ادارہ بھی چلاتے ہیں،جسکے تحت انھوں نے بڑاکام انجام دیاہے،مظفر نگر فسادات کے مظلومین کےلئے 32گھروں پرمشتمل ایک کالونی بھی بنائی ہے،اسکے علاوہ بنگال کے مرشدآباد میں غریب بچوں کاایک اسکول بھی چلاتے ہیں،ایک عرصے تک وہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کےصدر بھی رہے اوراس تنظیم کو متحرک وفعال بنایا،انکا جرم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی،جس میں کویتی حکومت کاانھوں نے شکریہ اداکیاتھا،ہندوستانی مسلمانوں پرہورہے ظلم وستم کو دیکھکر کئی عرب ممالک نے مسلمانوں کی حمایت میں آواز اٹھائی،جس میں کویت بھی شامل ہے،اسی کاڈاکٹرظفرالاسلام خان نے شکریہ اداکیا،دہلی میں فساد میں جس طرح منظم طورپر مسلمانوں کانقصان کیاگیا،اوراملاک اورگھروں کولوٹاگیا،یہ تماشہ پوری دنیانے دیکھا،اورکچھ ممالک یہ دیکھکر بیدار ہوئے اورہندوستان کے مسلمانوں سے ہمدردی کااظہارکیاتھا جسکے نتیجے میں ڈاکٹر خان نے شکریہ اداکیا،بس یہی انکاجرم ہے اوراس جرم کی پاداش میں"اشتعال انگیز اوردیش دروہی کامقدمہ قائم کرلیاگیاہے،اوراب انکواقلیتی کمیشن سے ہٹانے کی آواز زور وشور سے جاری ہے،حالانکہ یہ کوئی بہت بڑامعاملہ نہیں تھا جسکو طول دیاجاتا لیکن اصل معاملہ یہ ہے یہ مسلمان ہیں اورایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں،اسلئے اب انکو ٹارگیٹ کرنے کاسلسلہ جاری ہے،اورمیڈیا ٹرائل کے ذریعے انکوہائی لائٹ کردیاہے،انکا جرم یہ بھی ہے کہ انھوں نے اقلیتی کمیشن  کومتحرک اورفعال بنایا،کوروناوائرس کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم تبلیغی جماعت کےذریعے جوچھیڑی گئی اوراس میں تبلیغی جماعت کی الگ حدبندی جوحکومت کی جانب سے کی گئ،اسکے خلاف سے پہلے انھوں نے ہی آواز اٹھائی، دہلی کی مسجدوں میں رمضان کےدوران اذان پر پابندی کی کوشش کوانھوں نے ہی ناکام بنایا،دہلی فساد کےوقت مصیبت زدہ اورتباہ وبرباد لوگوں کوانھوں نے کافی راحت پہونچائی،اوربارباران علاقوں میں لوگوں کی دادرسی اورخبرگیری کرتے رہے،اوراسکے لئے دہلی کی کیجریوال سرکار کوباربار متوجہ کرتے رہے،گویاکہ یہ ایک ہمہ گیر،متحرک اورفعال شخصیت ہیں،جوآج سنگھی حکومت کے نشانے پرہیں،اس ملک میں لوگوں کوزندہ جلادیاجاتاہے لیکن اس پرکسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کوئی ایکشن نہیں،لیکن اگرآپ مسلمان ہیں تو پھریہ ساراقانون آپ کےلیے ہے،افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ لوگ بھی ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی مخالفت کررہے ہیں،اگرہمارا یہی طریقہ اور رویہ رہاتھا تو مشکل وقت اور خطرناک حالات میں سچ بولنے والے اورمظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھانے والے کون ہونگے؟کیاہمیں اس پر غور نہیں کرناچاہئے؟ایسے وقت میں جب حق اور سچ بولنےولکھنے والوں کو قتل کیاجارہاہے،سولی پرلٹکایاجارہاہے کیاکوئی پھر اسکی ہمت کرسکے گا؟ اگرآج ہم نے ایسے لوگوں کی حمایت نہیں کی اورآواز نہیں  اٹھایا تو پھرکون ہماری آوازبننےکےلئے  تیار ہوگا؟یہ وقت سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کاہے کہ آج ملک کاسنگھی میڈیا جسکاچاہتاہے ٹرائل شروع کردیتاہے،اور پھراسکے نتیجے میں ان پرقانونی شکنجہ ڈال دیاجاتاہے،ہم ایسے وقت میں متحد ہوکرآواز نہیں اٹھا سکتے،مظلوم کی حمایت نہیں کرسکتے،اس طرح کی کردارکشی کے خلاف مضبوطی کےساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے،آزمائش اورامتحان کی اس نازک اوراہم وقت میں کھڑے نہیں ہوسکتے توپھر مستقبل میں جرات وبے باکی اورایمانداری سے مسلمانوں کےحق میں آواز اٹھانے کی ہمت کون کرےگا؟ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسے باصلاحیت لوگ قوم کےلئے باعث فخرہیں،افسوس اس بات کابھی ہے کہ اب تک کسی بھی مسلم تنظیم یامسلم ادارے اور انکے ذمہ داران کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کی حمایت میں کوئی بیان اب تک موصول نہیں ہوا،
           ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ اس وقت ہم پر ایسی حکومت مسلط ہے جو ایسا مسلمان چاہتی ہے جوگونگا، بہرا ہونے کے ساتھ ضمیرفروش اورمردہ ضمیر بھی ہو،کسی آئینی ادارے کے کسی پوسٹ پروہ ایسے مسلمان دیکھناچاہتی ہے جونہ حق بول سکے، نہ حق لکھ سکے اورنہ ہی حق کے لئے آواز بلند کرسکے،بس آپ سرکاری مراعات حاصل کرتے رہیے،اورہم سے سوال مت کیجئے،اپنے حقوق مت طلب کیجئے،اگرآپ نے غلطی سے بھی کوئی ایساقدم اٹھالیا تو پھرآپ کو قانون کے شکنجے میں جکڑدیاجائے گا،پس دیوار زنداں کیاجائےگا،الزام تراشی اور جھوٹ کاسہارالیکر پابند سلاسل کیاجائےگا،یہاں تک کہ آپ کوپھانسی پربھی چڑھادیاجائے گا،کیاآپ ان حالات کو محسوس نہیں کرتے؟ بقول شخصے کہ 
      *چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کے چلے!*

(مضمون نگار کل ہند  معاشرہ بچاؤ تحریک،حیدرآباد کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com