Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 17, 2020

ظفر ‏الاسلام ‏خان ‏کا ‏تبصرہ ‏غداریُ ‏وطن ‏نہیں ‏، ‏بی ‏جے ‏پی ‏کی ‏جگر ‏ہنساٸی ‏کا ‏ذریعہ ‏ہے ‏۔


از/ حکیم نازش احتشام اعظمی/صداٸے وقت ۔
17 مٸی 2020.
===============================

 گزشتہ چھ برس سے دیکھا جارہا ہے کہ جو کوئی مظلوم مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کی حمایت میں آواز اٹھا تا ہے ، یا اس کی مدد کے لیے اقدامات کرتا ہے ، اس پر موجودہ حکومت ، یرقانی جماعت اور ہندوتوا شدت پسند تنظیموں کے بشمول بھاجپا کا آئی ٹی سیل بے بنیاد ، جھوٹے اور شرمناک الزامات لے کر سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ آپ صحافیوں میں جناب دنود دووا، ابھیسار شرما، پنیہ پرسن باجپائی اور اسی طرح رویش کمار کو دیکھ لیں محض بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں خلاف پھیلامنافرت اور جھوٹے پروپیگنڈے کی اصلیت دلیل اور شواہد کے ساتھ پیش کرنے کی پاداش میں ان سب کو ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ذمے داران اور بی جے پی کا آئی ٹی ساری ’’مریا دا‘‘ تہذیب کی دھجیاں اڑاتے ہونے ان سبھی لوگو ں ہندو مخا لف ، دیش کا غدار ، ملوں کی اولاد اور اس کے علاوہ ماں بہن کی گالیاں تک دیتے ہیں، ایسے ٹیوٹر ، فیس بک اور یوٹیوب میسجوں سے ان کے اکاؤنٹس آپ کو ہمیشہ بھرے ہوئے ملیں گے۔ان عقل کے اندھوں اور ڈگری یافتہ جاہلوں کو اس کا بھی احساس نہیں رہتا کہ ان گندی گالیوں تو خود ان کے مذہب یعنی ہندوتوا سے ہی دنیا کو گھن آنے لگے گی ، پھر وہ ان کے مذہب کے قریب کیسے آئیں گے۔ اس وقت دہلی پولیس بھی ساری دنیا کی نظروں کے سامنے منصب لیتے وقت اٹھائے حلف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بی پی اور آر ایس ایس اشارے پر ظلم کی نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔اور اس کا تازہ نشانہ ڈاکٹرظفرالاسلام خان بنے ہیں، مگر ہائی کورٹ نے ڈاکٹر صاحب کو فوری طور پر راحت دے دی ہے، جس کی وجہ سےدہلی پولیس مالیخولیا کا دورہ پڑنے لگاہے اور مسلسل ہاتھ پیر پٹک رہی ہے۔
واضح رہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرظفر الاسلام خان کے ایک انتہائی مبنی بر حقیقت بیان کو بہانہ بناکر بی جے پی اور اس جملے باز جماعت کے پھیکو اسپوکس پرسنوں نے چو طرفہ حملے کرنا شروع کردیے ہیں۔چونکہ اس وقت ہندوستان میں میڈیا نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے، لہذا مودی اور بی جے پی کاترجمان بن کر کام کرنے والے نیو ز چینلزاور پرنٹ میڈیا مسٹر خان کے بیان پر خوب نمک مرچ لگا  کر اسے بریکنگ نیوز والااینگل دینے میں جی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اپنےفیس بک پوسٹ پر متنازعہ تبصرے کیے تھے۔ اگر میڈیا اور بی جے پی کے دعوے کو بھی  قبول کرلیا جائے تو بھی ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا بیان کہیں سے حقیقت کے متغایر نہیں ہے۔بھاجپائیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیس بک پر لکھا ہےکہ جس دن ہندوستان کے مسلمان عرب ممالک سے اپنے ساتھ حکومت کے ظلم و ستم کی شکایت کریں گے ، اس دن موجودہ حکومت کے اندر زلزلہ پیدا ہوجائے گا ۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اس تبصرے نے  وزیر اعظم دفتر میں کھلبلی مچادی ہے اور بی جے پی کا آئی ٹی سیل پا گل ہاتھی کی طرح آسمان سر پر اٹھا چکا ہے، جب کہ گودی میڈیا کی زہر افشانی نے بی جے پی کومزید پاگل بنا دیا ہےاور اس وقت سے یہ عناصر ایسے تڑپ رہے ہیں ،جیسے سانپ کی پشت پر پیر پڑ گئے ہوں۔ بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ ظفر الاسلام ہندوستان کی شبیہہ کو داغدار کررہے ہیں۔ مگر ظفر الاسلام خان کے اس بیان سے ملک کی شبیہ نہیں بگڑ رہی ہے، بلکہ یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ دنیا میں ہندوستان ہی ایک ایسا گلدستہ ہے،جس میں طرح طرح کےپھول کھلتے اور اپنی مختلف النوع خوشبوؤں سے دنیا کی روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔مگر افسوس کہ 2014 سے پہلے والا ہندوستان یرقانی قوتوں کے اقتدار میں آنے اور 2002 گجرات مسلم نسل کشی کے لیے امریکہ اور دیگر سپر پاور ممالک کے ذریعہ قصور وار ٹھہرائے جانے والے نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی ہندوستان کی عزت و احترام پر بٹہ لگنا شروع ہوگیا ۔ مودی کے ہندوستان کی زمام کار ہاتھ میں لینے کےچند ماہ بعد ہی قومی دارالحکومت دہلی سے متصل اتر پردیش کے قصبہ دادری سے بے گناہ مسلمانوں کی ماب لنچنگ کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ ابھی تک بند نہیں ہوسکا ہے۔بلکہ وقفہ وقفہ سے اس غیر انسانی ہجومی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔البتہ ایسے واقعات اب میڈیا کیلئے خبریں نہیں رہے ،لہذا دنیاکی آ نکھوں میں دھول جھونک کر ستم گری کا یہ سلسلہ جاری وساری ہے ، 2018 میں اس سلسلے کی ایک اسٹوری ’’ دی ہندو‘‘ روزنامہ نے شائع کی تھی میں اس کہا گیا تھا کہ ہجومی دہشت گردی کا اژدہا ابھی تک اپنی ستم آرائی سے باز نہیں آیا ہے، البتہ اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے ماب لنچنگ کے لئے گائے کے گوشت یا گائے کی اسمگلنگ کا الزام دھرا جاتا تھا، لیکن اب بچہ چوری اور دوسری قسم کی افواہیں پھیلاکر یہ وارداتیں انجام دی جارہی ہیں، یہ نامراد دہشت گردی کسی ناگہانی یا حادثاتی سوچ کا پیش خیمہ نہیں ہوتے ، بلکہ یہ منظم اور منصوبہ بند ہوتے ہیں، جسے منظم کرنے اور فاتحانہ انداز میں انجام دینے کے لئے ہندو شدت پسند تنظیموں کے مراکز میں ان کے ذمے داروں کے بہترین دماغوں کا شیطانی استعمال ہوتا ہے۔حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ ستمبر 2015 کے بعد ہجومی دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہی دیکھنے کو ملے ہیں، ’’ دی ہندو ‘‘ کی اسٹوری بتاتی ہے کہ ان دہشت گردانہ وارداتوں کا نشانہ بیشتر مسلمان ہی بنتے ہیں، البتہ دوتین فیصد دلت قبائل کے لوگ بھی مذہبی انتہا پسندی کی اس بدبودار سوچ کا شکار ہوئےہیں۔  
 اس میں شبہ نہیں کہ بد نصیب ہندوستانی مسلمانوں پر اکثریتی طبقہ بالخصوصی آر ایس ایس ،وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور بی جے پی کے غنڈہ عناصر کے ذریعے مظالم کی یلغار کاسلسلہ آزدی کے بعد سے ہی مستقل جاری تھا ، بس فرق یہ تھا کہ پہلے قصور واروں کے خلاف کارروائی ہوتی تھی اور خود مختار عدالتوں سےبیشتر مظلوموں کو انصاف بھی ملا کرتا تھا۔جس کی بنیاد پر ہم ہندوستانی فخرکے ساتھ کہا کرتے تھے سیکولرزم ،مذہبی ہم آہنگی اور ’’انیکتا میں ایک ایکتا ‘‘ کاپر کیف منظر دیکھنا ہو تو ہندوستان کا سفر کیجئے اور محض انسانیت اور وطنیت کی بنیا پر د مذہبی، علاقائی ، رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود ایک ساتھ جینے مرنے اور پر امن زندگی گزارنے کے سبق سیکھئے۔ مگر 2014 میں شدت پسند بھگواپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ حسین گلدستہ پاش پاش ہونے لگا۔ اس گلدان میں چہکتے ہوئے رنگ برنگے پھول کمہلانے لگے اور دھیرے دھرے اس کی پنکھڑیوں سے انسانی خون کی مہک آنے لگی۔واضح رہے کہ ملک کی یہ درگت اس وقت سے بنی ہے ، اور ہمارامثالی ہندوستان دنیا میں شرمسار ہونا شروع ہوا ہے جب سے ہندوشدت پسند جماعت بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اور اپنی مسلم دشمنی کے لیے ساری دنیا حتیٰ کہ اقوام متحدہ تک میں مشہور نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں۔اس سے قطعی انکار نہیں کہ اکثریتی طبقہ کی جانب سے اقلیتوں پر مختلف قسم کے مظالم کی مشق ہمیشہ سے جاری ہے، مگرسیکولر ہندوستان کے اندر ریاست کی پشت پناہی میں اقلیتو اور دلتوں کے خلاف غنڈہ گردی کا ننگا رقص دنیا پہلی بار دیکھ رہی ہے،جس پر خود امریکہ جیسے اسلام دشمن ملک نے بھی متعدد بار تشویش کا اظہار کیا ہے۔آپ امریکہ کی مذہبی آزادی کاجائزہ لینے والی تنظیم (USCIRF) کی 2018 سے لگاتار بھارت کے تعلق سے آنے والی رپورٹس کو دیکھ لیں،جو لگاتار یہ کہتی آ رہی ہیں  کہ بی جے پی کے زیر اقتدار اور مودی کی سربراہی والے ہندوستان میں اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں اور ان کے مذاہب بھی شدید خطرے میں ہیں۔یرقانی عناصر کی غنڈہ گردی کی تاریخ کافی پرانی ہے، مگر اس کو پہلی بار یہ غنیمت موقع حاصل ہوا ہے کہ ’’ جے شری رام کے نعروں کی فلک شگاف چیخ وپکار کے درمیان مختلف الزامات لگاکر ہجومی دہشت گردی کو رواج دیا گیا اوراسی نعروں کے درمیان بے گناہ اقلیتوں، دلتوں بالخصوص مسلمانوں کا بہیمانہ قتل کردیں ، مگر ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی،اور اگر دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے کوئی کارروائی ہوئی بھی تو وہ بس دکھاوے کے لیے ہوگی، پولیس اس دروازے سے مجرم کو اندر لے جائے گی اور اسی لمحہ پچھلے دروازے سے اسے باہر بھیج دے گی، اس کے بعد بھاجپائیوں اور ہندو شدت پسند وں کے پھول مالاؤ سے اس کا شاندار استقبال کیا جائے گا، تاکہ دوسرے ہندو نوجوانوں کی بھی ذہن سازی ہو اور وہ اسی مذہبی جنون کی آگ میں تپ کر بم کا گولا بن جائیں اور کسی بے مسلمان پر جاکر پھٹ پڑیں تاکہ ان کا بھی ایسا ہی ’’سو سواگت‘‘ ہو، ان ہجومی دہشت گردی کے بعد یرقانی فوج کی جانب سے جس طرح دفاعی محاذقائم کئے گئے وہ اس بات کی شہادت کے لئے کافی ہیں کہ ان تمام ہجومی دہشت گردوں کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی، بی جے پی کے ترجمان شاہنواز حسین نے کہا ہے کہ کویت کی جانب سے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو لکھا گیا خط حیران کن ہے۔ ہندوستان کے مسلمان جس طرح سے محفوظ اور آزاد ہیں یہ دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ ایسے نفرت انگیز خط سے ملک کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کرنا انتہائی بدقسمتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان جس طرح سے محفوظ اور آزاد ہیں یہ دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ ایسے نفرت انگیز خط سے ملک کی شبیہہ خراب کرنے کی کوشش کرنا انتہائی بدقسمتی ہے۔اسی دوران ، بی جے پی کے ترجمان وجے سونکر شاستری نے کہا کہ یہ لکھنا غلط ہے ، یہ جھوٹ ہے۔ ہندوستان کی شبیہہ کو خراب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ 
ہم نے ابھی تک بین الاقوامی برادری خاص کر خلیجی ممالک اور او آئی سی کی جانب سے ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم اور ریاست کی سرپرستی انجام دی جانے والی مجرمانہ کارروائیوں پر جو بھی رد عمل سنا یا پڑھا ہے، ان سب میں ایک بات مشترک ہے وہ سبھی تنقیدیں اورد عمل ماضی کے ہندوستان کی تعریف کرتی ہیں اور موجو دہ حکومت کے دور اقتدار میں رونما ہونے والی بھگوا دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی ماضی کی تعریف کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی ہےکہ کاش یہ اسی ایکتا اور باہمی رواداری کے ماحول کو اختیار کرلے۔ یوروپی یونین میں پیش کی جانے والی تجاویز میں بھی یہی باتیں شامل تھیں،بدقسمتی سے جو پیش نہیں کی جاسکیں، امریکہ کی مذہبی آزادی کا جائزہ لینے تنظیم نے بھی یہی کہا ہے کہ مودی اور ہندو شدت پسندجماعت بی جے پی کے زیراقتدار ہندوستان میں اقلیتی برادریاں اور ان کے مذاہب کو شدید خطرات درپیش ہیں۔یعنی تمام  تشاویش اور تنقیدیں بی جے پی کی نفرت آمیز سیاست اور ہندو شدت پسندوں کو ریاستی حمایت کی مذمت کرتے ہوئے ہندوستان کو اس کے گنگا جمنی تہذیب والے ، بقائے باہم کے پیرو کار اور سچے سیکولرزم میں یقین رکھنے والے 2014 سے پہلے والے ماحول کی جانب لوٹنے کی خوہش کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں پر اندیشے ظاہر کئے ہیں۔ دبئی شہزادی ہند القسیمی کا بیان تو اور بھی واضح ہے جس میں انہوں نے پورے ثبوت کے ساتھ کہا ہے کہ ’’انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست سے  دیگر ممالک بالخصوص حلیج سے اس کے رشتے استوار و مربوط کرنے کی کوششوں  کوشدید دھچکا پہنچا ہے۔ شہزادی ہند القسیمی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’میں اںڈیا کو جاتنی ہوں۔ وہ انڈیا جو گاندھی کا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے بہت مصائب جھیلے ہیں۔ پوری دنیا کووڈ- 19 کی وبا سے تباہ ہے، ایسے سراسیمہ حالات میں بھی زعفرانی شدت پسند عناصر کی جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے سلسلہ جاری ہے، لہذا ہندوستان اور ہندوستانیوں کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ نفرتوں کا یہ سلسلہ لازمی طور پر بند ہونا چاہیے۔
ذرا درج بالا سطور کا غیر جانبداری اور انصاف  کی آنکھ سے دیکھئے کیا ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب کے بیان سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے غداریِ وطن کا کوئی پہلو نکلتا ہے ، یا اس کے برعکس اس بیان سے بی جے پی اور مودی و امت شاہ کی جگ ہنسائی ہورہی ہے اور اسی سبکی سے دنیاکی توجہ اپنی جانب سے ہٹوانے کے لیے بی جےپی ان کے خلاف مقدمات دائرا کرا رہی ہے تو کبھی دہلی پولیس کو ان کے پیچھے لگایا جارہا ہے۔جو خود ہی خاکی کے بھیس میں آرایس ایس اور گوڈسے کی راہ پر چل رہی ہے،جس کی ایک جھلکی ابھی دوماہ پہلے ہی شمال مشرقی دہلی کے آر ایس ایس ورسیز مسلم کش فسادات میں دیکھی جاچکی ہے ، جبکہ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف یہ خاکی وردی احتجاج کرنے والوں کے مسلسل سر کچل رہی ہے ،جو آج بھی لاک ڈاؤن کے دور میں ناجائز گرفتاریوں کے ذریعہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ بہر حال ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب کا تبصرہ غداری وطن پر مربوط نہیں ہے ، بلکہ انہوں نے اس کے ذریعے بی جے پی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے، غالباً عدالت نے بھی اس پہلو کو سمجھ لیا ہے ،اسی وجہ سے اس نے دہلی پولیس ناپاک پلاننگ پر فوری طور سے پانی پھیر دیا ہے۔