Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 16, 2020

کورونا۔۔۔۔اصلاح ‏کاٸنات ‏کا ‏الہی ‏نظام۔



از/ مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی /صداٸے وقت
==============================
  ہندوستان میں سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کی مرمت اور اصلاح کےکام کے لئے آمدورفت کے وسائل بند کرنے کا رواج نہیں ہے، یہاں مرمت بھی ہوتی رہتی ہے اور گاڑیاں بھی چلتی رہتی ہیں، کبھی رفتار دھیمی کردی جاتی ہے،اور کبھی کارندوں اور زائد سامان کو ہٹواکر گاڑی پاس کردی جاتی ہے، اور کبھی ڈائیوھرسن بناکرکام چلا لیا جاتا ہے، اس سے ٹرینیں لیٹ ہوتی ہیں، سڑکوں پر جام لگتا ہے، اور دیر سویر مسافر اپنی منزل پر پہونچ جاتاہے؛ لیکن مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ میں میں نے دیکھا کہ جس زون، حلقہ یا لائن کی مرمت کا کام کیا جاتا ہے، اسے پورے طور پر بند کردیا جاتا ہے، کئی روز قبل سے اسٹیشنوں پر نشر کیا جاتا ہے کہ اس حلقے میں ٹرینیں ان تاریخوں میں اتنے بجے سے اتنے بجے تک نہیں چلیں گی، ریلوے دوسرے وسائل کا استعمال کرکے مسافروں کو ان کے مقام تک پہونچا نے کا کام کرتی ہے۔ 
میں نے جو دنیا دیکھی اس کا نظام ہندوستانی انداز میں چل رہا تھا، کائنات کےفساد اور بگاڑ کو دور کرنے کے لئے کوشش کی جارہی تھی؛ لیکن کائناتی نظام کو معطل کرکے نہیں؛ بلکہ ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اصلاح کا کام عام زندگی کے ساتھ نہیں چلے گا؛ بلکہ اسے معطل کرکےکرنا ہوگا؛ چنانچہ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں پورے نظام کو ٹھپ کردیا گیا اورتب اصلاح کا کام شروع ہوا، ہر آدمی ماحولیات کے اعتبار سے فکر مند تھا کہ دنیا سے فضائی آلودگی کا خاتمہ کیوں کر کیا جائے، سمینار، سمپوزیم، بڑی بڑی کانفرنسیں، لمبی لمبی بین الاقوامی تجاویز اور اس میدان میں کام کرنے والی تنظیموں کی مشترکہ جدو جہد فضائی آلودگی دور کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں، گاڑیوں سے نکلنے والے دھنوئیں، کل کارخانوں سے نکلنے والے گیس اور فضلات نے سانس لینا دوبھرکردیا تھا، سانسیں گھٹنے لگی تھیں، اللہ نے دنیا کے بڑے حصہ میں تالا بندی اور کارخانہ کے کاموں کو روک لگا کر فضائی آلودگی کو دور کرنے کا ایسا اصلاحی نظام بنا دیا کہ ہوا صاف ہوگئی، آکسیجن میں مضر ذرات کا خاتمہ ہوگیا، ہمارے لئے مختلف امراض کا سامان بننے والے مہلک اجزاء ہماری ناک کے ذریعہ پھیپڑوں تک منتقل نہیں ہوپارہے ہیں، فضاء میں پھیلے گردوغبار نے آسمان کے صحیح رنگ کے ادراک سے ہمیں دور کردیا تھا، اب فضائے محیط میں فلک نیلگوں کا نظارہ ہم کھلی آنکھوں کررہے ہیں، ماحول اتنا صاف ستھرا ہوگیا ہے کہ ہمالیہ کی بلندی سیکڑوں کلو میٹر دورسے دیکھی جاسکتی ہے، یہی حال پانی کا تھا، پینے کا صاف قدرتی پانی دستیاب نہیں ہورہا تھا، کل کارخانوں کے فضلات کے دریا اور سمندر میں گرنے کی وجہ سے وہ استعمال کے لائق نہیں رہ گیا تھا، ہندوستان میں گنگا صفائی مہم برسوں سے چل رہی ہے؛ لیکن آج تک اربوں روپے صرف کرکے اس کے پانی کو گدلا ہونے سے بچایا نہیں جاسکا، وجہ یہی تھی کہ ایک طرف جس قدر صفائی ہوتی اس سے کہیں زیادہ گندگی ہم اس میں ملا دیا کرتے تھے، قدرت کے اس اصلاحی نظام نے ہمارے لئے ممکن کردیا کہ پانی کو گدلا کرنے سے ہم بچیں اور گندے فضلات سے پانی کو آلودہ نہ ہونے دیں، سارے کام بند ہوئے تو جنگلوں کی کٹائی اور پہاڑوں کی کٹائی اور تڑائی بھی رکی، ہمارے ماحولیات کی تحفظ میں ان دونوں کا بڑا اہم رول رہا ہے؛ لیکن ہم جنگل کاٹتے چلے جارہے تھے، اور پہاڑ توڑ توڑ کر زمین کے توازن کے قدرتی نظام کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا تھا، لاک ڈاؤن میں یہ کام بھی رکا تو بڑی حد تک؛ بلکہ کہنا چاہیے کہ فوری طور پرہم اس کام سے بھی باز آگئے، برسوں سے پیڑ پودوں کے لگانے کی مہم چلائی جارہی تھی، پیڑ کاٹنے پر سزائیں بھی مقرر تھیں، شجر کاری مہم ہمارے منصوبوں کا حصہ تھا؛ لیکن ہم چھوٹے چھوٹے پودے لگا رہے تھے، اور بڑے بڑے تناور درخت پر آریاں چلوا رہے تھے، ہر کوئی متفکر تھا؛ لیکن بات نہیں بن رہی تھی اب جو لاک ڈاؤن ہوا ہے تو محدود وقت کے  لئے ہی صحیح اس پر بھی پابندی لگی ہے اور اس پورے دورانیہ میں بہت سارے پیڑ کٹنے سے بچ گئے ہیں، لاک ڈاؤن اس میدان میں بھی اصلاح کائنات کا ذریعہ بنا ہے، سورج کی توانائی کو بھی ہم نے اپنے مختلف کرتوتوں کے ذریعہ متأثر کردیا تھا، اور فضاء میں پھیلی آلودگی نے اس کی صاف وشفاف کرنوں کو ہم تک پہو نچنے سے روک دیا تھا، جس کے نقصانات بہت تھے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب سورج اپنی پوری تابناکی کے ساتھ شعاعوں کو ہم تک پہونچا رہا ہے، یہ شعاعیں ہمارے جسم کو وٹامن ڈی فراہم کر رہی ہیں، بہت سارے امراض سے ہمارے جسم کو محفوظ رکھتی ہیں، شور و ہنگامہ بھی فضائی آلودگی کا بڑا سبب تھا، صوتی آلودگی نے ہماری قوت سماعت کو متأثر کرکے رکھ دیا تھا، ہمارے ہندوستان میں یہ شور کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، لوگ زور سے بولنے کے عادی ہیں، بلا ضرورت گاڑی کے ہارن بجاتے رہنا ہمارے یہاں عام ہے، گاڑی کے انجن کی آواز بھی ہمارے یہاں کم صوتی آلودگی نہیں پیدا کرتی، گانے اور ڈی جے کے استعمال نے صوتی آلودگی میں بھی اضافہ کیا تھا اور فحش گانے ہمارے سماجی ماحول کو ذہنی، نفسیاتی، جنسی اور جسمانی طور پر پریشان، پراگندہ اور آلودہ کرنے کا سبب بن رہے تھے، اب سماجی فاصلہ بنائے رکھنے کے اس ضابطہ نے ہم سب کو اس مصیبت سے نجات بخش دی ہے، اب شور شرابے، بازار کے ہنگامے ، اوباشوں کی چیخ پکار ، ہمارے سکون کو درہم برہم نہیں کرتے، قدرت کے ذریعہ اصلاح کا یہ انتظام جتنی آسانی سے ہوگیا، ہم اس پر لاکھوں روپے صرف کرکے قابو نہیں پاسکتے تھے۔ 
ہم پرندوں کی آواز سننے کو ترس گئے تھے، صبح سویرے ان کے نغمے ہمارے ذہن و دماغ کو ترو تازہ نہیں کرتے تھے؛ لیکن اب دیہاتوں میں ہی نہیں شہروں میں بھی ان پرندوں کی چہچہاہٹ بہت نہیں، تھوڑی ہی صحیح سننے کو مل رہی ہے،ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں ٹیکسی کے شیشے کے درمیان گورئے نے گھونسلہ بنا لیا تھا یہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا، پرندوں کے قریب آنے کی وجہ سے جن بہت ساری نسلوں کے معدوم ہونے کی بات ہمارے ذہن میں آرہی تھی، اب پتہ چلا کہ وہ ابھی باقی ہیں۔ 
انسان انتہائی کمرشیل ہوگیا تھا، وہ بات بات پر کہنے لگا تھاکہ "ٹائم نہیں ہے" وہ اپنے بیوی بچوں تک کے لئے وقت نہیں نکال پارہا تھا، زندگی ایک مشین کی طرح کام کرنے لگی تھی، بچوں کو وقت نہ دینے کی وجہ سے ان کے اندر آوارہ مزاجی رواج پارہی تھی، خانگی زندگی ٹوٹ رہی تھی، اللہ کے اس اصلاحی نظام نے ہمارے لئے یہ ممکن کیا کہ ہم گھر پر اپنے بچوں کو وقت دیں، ان کے ساتھ رہیں، گھریلو کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹائیں، خانگی مسائل کو سمجھیں اور انھیں دور کرنے کے لئے ہر ممکن جد و جہد کریں، ساتھ رہنے کی وجہ سے دوریاں کم ہوئیں اور محبت و الفت کے نئے دروازے کھلے، جس کے اثرات برسوں باقی رہیں گے، واقعہ یہ ہے کہ اصلاح کائنات کے اس الہی نظام نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ 
پاکی اور صفائی پر بھی ہماری توجہ ختم ہوگئی تھی، نجاست غلیظہ (بول وبراز) تک میں ٹیشو پیپر اور ٹوائلٹ پیپر کا استعمال عام ہوگیا تھا، کھانے کے بعد ہاتھ دھلنے کے بجائے ٹیشو پیپر سے ہی کام چلا لیا کرتے تھے، کرونا نے ہماری توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی ہم اب بار بار صابن سے ہاتھ دھویا کرتے ہیں، پانی کا استعمال کرتے ہیں، صفائی پر خاص دھیان دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے ہیں، قدرت کے اصلاحی نظام کا یہ ایک اور فائدہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ 
بے ضرورت گھر سے نکلنے اور گھومتے رہنے کا مزاج ختم ہوا ہے، گھومنا پھرنا کم ہوا تو چہرے کی آرائش و زیبائش پر بھی توجہ کم ہوئی اور ایک عدد ماسک نے ہمارے چہرے سے حسن کی جلوہ سامانیوں کو بڑی حد تک پردہ میں ڈال دیا۔ ہر کوئی کرونا کی وحشت اور موت کی دہشت میں مبتلا ہے۔ اور جب وحشت و دہشت کا غلبہ ہوتو خدا زیادہ یاد آتا ہے، اس مرض کی وجہ سے مذہبی معتقدات میں پختگی آئی ہے، اصلاح کائنات کا یہ نظام اللہ نے ایک وائرس سے پوری دنیا میں چلا دیا، یقیناً اس لاک ڈاؤن نے ہماری زندگی پر بہت سارے منفی اثرات چھوڑے ہیں، اور بہت ساری وجوہات سے زندگی پریشانی کے دور سے گذررہی ہے؛ لیکن کیا کیجئے جسم کی اصلاح کے لئے جب آپریشن ہوتا ہے تو تکلیفیں ہوتی ہیں؛ لیکن مریض یہ سوچ کر اسے برداشت کرتا ہے کہ اس کے بعد کی زندگی پہلے سے اچھی ہوگی اور ہم زیادہ اچھے طور پر جی سکیں گے، اسی طرح لاک ڈاؤن کی یہ پریشانیاں بھی وقتی ہیں، جو کائنات کے اصلاح کے الہی نظام کی وجہ سے ہمیں جھیلنی پڑرہی ہے؛ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہر تاریک رات کے بعد ایک روشن صبح ہوتی ہے اور وہ روشن صبح ضرورآئے گی۔ 


(مضمون نگار امارت شرعیہ، بہار، اڑیسہ و جھاڑکھنڈکے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)