Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 15, 2020

لاک ‏ڈاٶن ‏میں ‏ممبٸی ‏سے ‏وطن ‏سفر ‏کرنا ‏کتنی ‏بڑی ‏آزماٸش ‏تھی۔۔سفر ۔نامہ کی چوتھی ‏و ‏آخری ‏قسط۔

یقین نہیں ہورہاتھا کہ گھر جارہےہیں
لاک ڈاؤن میں ممبئی سے وطن سفر کرنا کتنی بڑی آزمائش تھی اس کا اندازہ اس روداد سے ہوسکے گاجس کی ۳؍ قسطیں شائع ہوچکی ہیں۔ چوتھی اور آخری قسط ملاحظہ فرمائیں۔

حمزہ فضل اصلاحی/صداٸے وقت /١٥ جون ٢٠٢٠۔
==============================

بس گھر کیلئے نکلی ، قرنطینہ مرکز کے سامنے رکی ہمیں اسکریننگ کے مرحلے سے گزرنے میں گھنٹوں لگ گئے۔ غالباً رات گیارہ بجے ہم نے یہ مرحلہ بھی طے کر لیا۔ باہر نکلے۔روڈویز کی بسیں ہماری منتظر تھیں۔ ہم نظام آباد تحصیل کی بس میں سوار ہوگئے۔ ساڑھے گیا رہ بجے بس روانہ ہوئی ۔ بس پر سوار اکثرمسافروں نے اپنے اپنے گھر فون کرکے کہہ دیا: ’’گاڑی لے کر تیاررہئے ،ہم آرہے ہیں۔ ‘‘
اسی دوران کچھ مسافر کہنے لگے کہ ابھی نہیں چھوڑیں گے۔ بس ہمیں قرنطینہ مرکز لے جارہی ہے۔کسی نے یقین کیا کسی نے نہیں کیا ۔اسی رات ایک اور نیا دن شروع ہوگیا۔ ساڑھے بارہ اورایک کے درمیان فاطمہ گرلز کالج داؤدپور کے سامنے بس رکی ۔ کچھ مسافر گھر جانا چاہتے تھے مگربس ڈرائیور نے انہیں روکا اور کہا:’’ چیک کرنےوالے ہوں گے تو دس منٹ میں چھوڑ دیں گے۔ ‘‘  اس پر اعتبار کرکے سب بوجھل قدموں سے کالج کے احاطے میں داخل ہوگئے ۔ یہاں بھی لائن لگانی پڑی۔ایک پولیس اہلکارسب سے وہی سوالات کررہا تھا جو ٹرین سے اترتے وقت اور اسکریننگ سے قبل کئے گئے تھے ، یعنی  والد کا نام ، عمر ، بلاک ،تحصیل اور گاؤں  وغیرہ  کی بابت پوچھنے لگا ۔
کھا نانہیں ملا
اس مرحلے سے گزرنے کے بعد مسافروں نے کھانا مانگا ۔ اس پر جواب ملا کہ اتنی رات کو کھانا کہاں سے لائیں؟ کچھ افراد نے اپنے روتے بلکتے بچے دکھائے ۔ اس سے بھی بات نہیں بنی ۔ قرنطینہ مرکز کے امین کے ہاں فون بھی کیا گیا مگر کھانے کا انتظام نہیں ہوا۔ ایک فیملی بہت زیادہ پریشان تھی ، اس کے بچے بلک رہے تھے، اسے دیکھ کر وہاں کے باورچی کا دل پسیجا اور اس نے اپنے ساتھی کو جگا کرکہا :’’ اٹھا مر دے ، لڑکا بھوکانن ہیں۔‘‘ ( اٹھ جائیے لڑکے بھوکے ہیں) اس کا ساتھی گہری نیند سے اٹھا اور اسکول کے خالی حصے میں چلا گیا ۔ اسکول کھلا کھلا سا تھا ۔ ہوائیں بھی چل رہی تھیں ، کوئی تکلیف نہیں تھی۔ پھر بھی لوگ گھر جانا چاہتے تھے۔ میر ا گاؤں  منجیر پٹی یہاں سے تقریباً ۵۔۶؍کلو میٹر کے فاصلے پرہے۔ میں نےبھی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ چارو ناچار میں میرے بھائی اور بھانجے نے۳؍ الگ الگ چارپائیاں لیں۔ تھو ڑا بہت بچاکھچا سامان  (بریڈ جیلی چنا، پاؤ اور بسکٹ )وغیرہ کھاکر سوگئے ۔ صبح سات بجے آنکھ کھلی۔ سامنے دیکھا لمبی قطاریں تھیں۔ ایک لائن میں ہم بھی شامل ہوگئے۔ پھر اسکریننگ ہوئی ۔ ایک کاغذ ملا جس پر ۱۴؍ دن ہو م کوارنٹائن کی ہدایت دی گئی تھی۔ ابھی کئی اور قطاریں باقی تھیں مگر اب کسی لائن میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی۔
قید سے آزاد ہوگئے
  ہم گھر جانے کی تیاری ہی کررہے تھے کہ میرے گھر سے کھانا آگیا۔ ہم نے کھا نا نہیں کھا یا ۔ اجازت لے کر نکل آئے۔ ایسا لگا کہ قید سے آزا د سے ہوگئے۔ قرنطینہ مرکز کے سامنے ایک آٹورکشا کھڑا تھا۔ اسی پر بیٹھ کر گھرکیلئے نکلے۔ راستے میں یقین ہی نہیں ہورہاتھا کہ ہم اپنے گھر جارہے ہیں۔ رکشا جیسے ہی گاؤں میں داخل ہو ا ، عجیب طرح کی خوشی ہوئی ۔ اسے الفا ظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ، پھر صبح۸؍ بجے گھر کا دروازہ آیا۔ گھروالوں نے استقبال کیا ، سلام جواب کا تبادلہ ہوا۔انہیں دیکھ کر سفر کی صعوبتیں بھولنے لگیں ۔ سوئے بغیر تکان زائل ہو نے لگی۔جی چاہتا تھا کہ جشن منائیں ، چیخیں چلائیں مگر’’لوگ کیا کہیں گے ‘‘نے ہمیں  روک لیا ۔
شرمک  اسپیشل ٹرین سے جس نے بھی سفر کیا ہوگا ؟ وہ  یقیناً ان تجربات سے گزراہوگا۔ اس کے سامنے بھی  یہ مسائل آئے ہوں گے ۔ کل بھی آئیں گے ۔ آج بھی لوگ اپنے آبائی وطن پہنچنے کیلئے شرمک اسپیشل یا دوسری ٹرینوں اور پرائیویٹ گاڑیوں سے سفر کررہےہیں ۔ کسی بھی طرح سے وہ اپنے گھر پہنچنا چاہتےہیں ۔ کچھ چلچلاتی دھوپ میں پیدل بھی چل رہے ہیں۔ لو کے تھپیڑے کھا رہےہیں ، ان کے تلوے زخمی ہوگئے ہیں، چھالے پڑ گئے ہیں، پھر بھی وہ بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ کچھ اپنے وطن کے قریب بھی پہنچ گئےہیں ، ان کے ساتھ بیوی بچے بھی ہیں، سامان ہے ، لڑکھڑا رہے ہیں مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہےہیں،بس انہیں اپنا آبائی وطن ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ وطن  پہنچنے کی کوشش میں بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہو کر بہتوں کی جان چلی گئی ۔ کچھ کی زندگی سڑک حادثوں نے چھین لی۔کچھ ایسے بد نصیب بھی تھے جو شرمک ٹرین اور دوسرے ذرائع سے اپنے گھر کے قریب پہنچ گئے تھے ، چند قدم کے فاصلے پرتھے ، ان کا دم نکل گیا ۔اس اعتبار سے   میں خوش نصیب  ہوں کہ خیریت سے گھر پہنچ گیا  اور دو ہفتے سے اپنے گھروالوں کے ساتھ  ہنسی خوشی رہ رہا ہوں۔