Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 25, 2020

جمعہ ‏نامہ۔۔۔دنیا ‏و ‏آخرت ‏کی ‏بھاگ ‏دوڑ۔۔


از/ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت ۔
=============================
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب ؓ  کا قول ہے’’ دنیا پیٹھ پھیرکر بھاگ  رہی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے ‘‘،  یہ دنیا  و آخرت کی ایسی عکاسی  ہے کہ  جس کاا نکار کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ زندگی کی ریت گھڑی کا ایک  ذرہ ہر لمحہ نیچے گر  جاتا ہے اور انسان ہرلحظہ موت سے قریب تر ہوتاجاتا ہے۔ اس معاملے میں  شاہ و گدا سب بے اختیار ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت اس  عمل میں خلل نہیں ڈال سکتی۔ زندگی اور موت کایہی   دلچسپ اور عجیب و غریب رشتہ  ہے ۔موت سے قبل عرصۂ حیات میں انسان کو  اپنا سمتِ سفر طے کرنے کی  مکمل آزادی ہے۔  وہ چاہے تو بھاگنے والی کے پیچھے بھاگے یا آنے والی کی طرف دوڑے ۔ اس بابت یہ رہنمائی  بھی دی  گئی ہے کہ  ’’ اور دنیا وآخرت  ہر ایک کے بیٹے ہیں ، تو تم آخرت کے بیٹے بنو ،دنیاکے بیٹے نہ بنو‘‘۔ یعنی دنیاوی عیش طرب کے بندے بن کر  اس  کو اپنا مائی باپ نہ بنالو بلکہ آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصد حیات بناو۔ 
فلاح آخرت کو  اپنا مطمح نظر بنانے والے اہل ایمان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کامیابی  و کامرانی کی جانب ذوق و شوق سے رواں دواں ہوتے ہیں اور ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔  دنیا ان کا تعاقب کرتی رہتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ان کا مقدر کررکھا ہے وہ بھی انہیں حاصل ہوجاتا ہے دنیائےفانی  ان کا کچھ نہیں بگاڑپاتی ۔ اس کے برعکس جو لوگ دنیا وی کامیابی کو اپنا نصب العین بناکر اخروی نجات  سے غافل ہوجاتے ہیں انہیں ملک الموت  پیچھے سے دھر دبوچ   کرآخرت کی دہلیز پر لے جاتا ہے اور وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے بادلِ ناخواستہ اس مقام پر پہنچا دیئے جاتے ہیں جس سے وہ عمر بھر بھاگتے رہے اور اس کی کوئی تیاری نہیں کی۔   غفلت کا شکار عالم انسانیت کو خبردار کرتے  ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہ ُ   فرماتے ہیں  ’’آج عمل کا دن ہے  کوئی حساب وکتاب نہیں،اور کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں ‘‘ ۔ یعنی مہلت عمل کے  خاتمہ پر اعمال کی سزا یا جزا سے دوچار ہونا ہی پڑےگا۔ 
دنیاوی کا میابی کو اپنی زندگی کا مقصد اس لیے بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ عالم شہود میں ہے اور آخرت عالم غیب میں ہے ۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان دنیا  کی چکا چوند کے فریب میں مبتلاء ہوکر اس کی قدرو قیمت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہو کر اس  کے پیچھے بگ ٹٹ    بھاگتا  رہتا ہے۔ وہ دنیا جس کی بابت  بکری کے مردہ بچہ کا کان  پکڑ کر نبیٔ پاک ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کون ہے جو بکری کے اس چھوٹے کانوں والے مردہ  بچہ کو ایک درہم میں خریدنے کے لئے آمادہ وتیار ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ہم بکری کے اس مردہ بچہ کو جس کے کان بھی چھوٹے ہیں ایک درہم میں تو کیا مفت لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں  اور اس کو ہم لے کر کیا کریں گے ؟‘‘
  آپ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا : کیا تم اس کو لینا گوارہ کروگے؟ صحابہ ؓ نے کہا اے  اللہ کے رسول ﷺ  اللہ کی قسم  اگر یہ زندہ ہوتا   تب بھی  عیب دار تھا کیونکہ اس کے دونوں کان چھوٹے ہیں  اب  جب کہ  وہ مرچکا ہے تو ہم اس کو کیسے خریدنا گوارہ کریں گے‘‘، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم  تمہارے نزدیک  اس چھوٹے کانوں  والے  بکری کے  مردہ بچہ کی جو حیثیت ہے اللہ کے یہاں دنیاکی حیثیت اس سے بھی کمتر ہے ‘‘۔جس دنیا کے پیچھے پڑ کر انسان اپنی  آخرت  بگاڑ لیتا ہے ان کا  موازنہ کرتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا’’اللہ کی قسم!آخرت (کے مقابلے) میں دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں  کہ جیسے کوئی شخص اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ (انگلی) اس میں سے کیا (نکال کر) لاتی ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ دنیائے فانی کی حیثیت کو جان لینے کے بعد اس کے حصول کی  خاطر اپنے آپ کو آخرت کے  دائمی خسارے میں ڈال لینا کیسا ہے؟  آخرت پر دنیا  کی  فوقیت کا اعلان کرنے والا مسلمان تو شاید  ہی کوئی ہومگر عملاً  آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے والے کم ہی ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’اگر اللہ کے یہاں دنیا کی حیثیت  مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالی کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں کرتا‘‘۔