Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 21, 2020

مجھے ‏ڈھیروں ‏دعاٸیں ‏دینے ‏والا ‏دنیا ‏میں ‏نہیں ‏رہا۔۔۔


   
از/ محمد عارف اصلاحی /صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
جناب عمران احمد صاحب سیہی پور کا گزشتہ 18 جون کو ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا، اللہ مغفرت فرمائے ، پسماندگان کو صبر جمیل دے ،

زمانہء طالب علمی میں مدرسۃ الاصلاح پر میرے دور کا پہلا جلسہ منعقد ہوا، جلسہ کے سلسلے میں طلبہ واساتذہ میں مختلف ذمہ داریاں تقسیم ہوئیں، مجھے اعلانات کو شعبے میں جگہ ملی، مغرب کے بعد ہم لوگ اپنی ڈیوٹی پر تھے، اس دوران استاذ محترم مولانا مفتی محمد شعیب قاسمی صاحب رحمہ اللہ اعلان گاہ آئے اور کچھ اعلان کرنے کو کہا، میں نے اعلان کیا، مولانا مرحوم کے پیچھے ایک لحیم شحیم شخص جو ان کا قریبی لگتا تھا، وہ میرے ذریعہ کئے گئے اعلان کو غور سے سن رہا تھا، مولانا کے پیچھے مڑتے ہی اس نے کہا" یہ کون لڑکا ہے جو غضب کی اردو بولتا ہے"-مولانا نے کیا جواب دیا میں نہیں سن سکا، بس ان کا یہ تعریفی جملہ ان سے تعارف کا سبب بنا، وہ تھے ہمارے ڈاکٹر عمران چشتی صاحب جنھیں لوگ دعائیں کرنے کی وجہ سے" بابا " بھی کہا کرتے تھے، پہلے اینٹ بھٹہ وغیرہ کا کام تھا ان کا، رفاہی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے، اصلاح معاشرہ تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا انھوں نے، پھر بعد میں عیدگاہ منڈیار میں ایک ڈسپنسری کھول لی تھی انھوں نے، کئی سالوں تک ڈسپنسری چلائی اور مختلف جگہوں پر چلائی، دواؤں کے ساتھ دعاؤں کا بھی اہتمام کرتے تھے اپنے مریضوں کے لئے، میرے والد محترم کے پاس اکثر ڈسپنسری بند کرنے کے بعد جایا کرتے تھے۔میرے والد محترم کے انتقال کے بعد مجھ سے ان کا ربط ضبط بڑھا، اور اتنا بڑھا کہ اکثر معاملے میں محض مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوتے تھے حالانکہ ان کے مقابلے میں میری کوئی حیثیت نہ تھی، نہ جانے کیوں مجھ سے ایک عقیدت سی رکھتے تھے، مجھ سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ بابا آپ کے پاس اکثر کیوں آتے ہیں تو تفریحا میں نے جواب دیا تھا کہ وہ سب کے لئے بابا ہیں اور میں ان کے لئے۔بہت دکھ ہورہا ہے اب ہمارے درمیان نہیں رہے، وہ ان کا عقیدت سے آکر بیٹھنا، آفس کے باہر اپنی باری کا انتظار کرنا، باتیں کرنا، اپنے مسائل شئر کرنا، میری باتوں اور مشوروں پر اعتماد اور خوشی کا اظہار کرنا، باتیں اتنی انہماک سے سننا جس سے  کبھی کبھی میں سوچنے لگتا تھا کہ کیا میری باتیں اتنی درست ہوتی ہیں کہ اتنا عبادت گذار بندہ اسے کان سے صرف سن ہی نہیں رہا بلکہ یہ کہنا چاہ رہا ہو کہ "آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی".
ابھی عید بعد اسکول تشریف لائے تھے، اعتکاف میں دعائیں کیں تھی خاص طور پر میرے لئے بھی اور حسب معمول ڈھیر ساری دعائیں کرکے رخصت ہوئے تھے، کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ہوگی۔
اللہ میرے خیر خواہ، میرے محسن، مجھے حوصلہ دینے والے اپنے عبادت گذار بندے کی لغزشوں کو تو معاف فرما، اس کی قبر کو نور سے بھر دے، اسے اپنے سایہ عاطفت میں جگہ عطا کر ۔آمین