Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 20, 2020

اردو ‏کی ‏چاشنی ‏کا ‏ہم ‏سے ‏زیادہ ‏بردران ‏وطن ‏کو ‏اعتراف ‏ہے۔

از/ محمد نظر الہدیٰ قاسمی/صداٸے وقت
=============================
آج بتاریخ ۱۹جون  ۲۰۲۰ء بروز جمعہ شام میں میں والد محترم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کی خود نوشت سوانح (یادوں کے قافلے)کا پرنٹ نکلوانے چندوارہ گیا، پرنٹ نکلوا ہی رہا تھا کہ اچانک ایک خوبصورت خوب روغیر مسلم نوجوان ہمارے سامنے نمودار ہوا،دیکھنے میں لگ رہا تھا کہ وہ راجپوت  خاندان سے ہوگا ،جب پرنٹ شدہ کاغذ پر اس کی نظر پڑی تو بیساختہ اس کی زبان سے نکلا کہ اردو زبان اچھی ہے،منٹو کو پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے لیکن ان کی ناول اردو سے ہندی میںconvert ہے جس کی وجہ سے وہ بات نہیں رہ پاتی پھر بات ہی بات میں اس نے اردو سیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ کتنے دنوں میں ہم اردو سیکھ سکتے ہیں،میں نے کہا کہ اگر محنت ولگن کے ساتھ سیکھیں گے تو دو تین مہینہ کافی ہے،اس کے بعد آپ تحریری مشق کرتے رہیں،ان سے الگ ہونے کے بعد میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آنے لگے،اور زمینی سطح پر ہم لوگوں کے درمیان اردو کی لاچاری و بے بسی جو محسوس کی جارہی ہے اس پر غوروفکر کرنے لگا کہ ابھی جو اردو کے ساتھ لاپرواہی ہے وہ ہما شما سے چھپی ہوئی نہیں ہے،ہم اردو نہ پڑھتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کو اردو پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں، اردو کے تعلق سے ہمارے درمیان جو حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپےنہیں ہیں، اپنی کوتاہی اور غفلت کو اپنے ہی درمیان کیا بیان کریں،جب سوچتا ہوں تو بہت دور تک پہونچ جاتا ہوں، اسی زمینی حالات کو حافظ کرناٹکی نے محسوس کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار ان اشعار میں کیا ہے ۔
اردو سے پوچھا زلف تیری کیوں بکھر گئ
سنوری تھی جو کہ میر سے غالب سے داغ سے
کہنے لگی نصیب پر روتی ہوں آج میں
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اپنے آس پاس اور گاؤں گرام کے حالات جب ہم دیکھتے ہیں تو حقیقت میں اردو کی زبوں حالی اور اس کے زوال کا خود کو ہی مجرم پاتے ہیں،عصری تعلیم نے ہمارے ذہن و دماغ کو اس طرح اپنے قبضہ میں کرلیا ہے کہ ہمیں نہ اب دین سے کوئی واسطہ ہے اور نہ اپنے بچوں کو صبح سویرے مکتب بھیجنے کے تعلق سے ہم فکر مند ہیں،پہلے زمانہ میں مکتب میں بلاتفریق مذہب و ملت لوگ بچوں کو مولوی صاحب کے پاس بھیجا کرتے تھے،اور وہ بچے دیگر تعلیم کے ساتھ اردوبھی پڑھنے میں دلچسپی دیکھاتے تھے،اسی وجہ سے پہلے پریم چند،کرشن چند،جگن ناتھ آزاد،چکبست ،سعادت حسن منٹو،فراق گورکھپور ی گلزار دہلوی وغیرہ اردو کے شیدائی پیدا ہوۓ،لیکن ان دنوں اس زبان کے ساتھ ہندو مسلم کا کھیل کھیلاجارہا ہے،جو بچے اسکول اور کالج میں آتے ہیں وہ بھی اساتذہ کی بے توجہی کی وجہ سے اپنے اندراردو کی مضبوط صلاحیت نہیں پیدا کرپاتے ہیں،بچی کھچی کسر دفتر کا عملہ نکال دیتا ہے، جو بچے اردو کا انتخاب کرتے ہیں  جب ان کا ایڈمٹ کارڈ سامنے آتا ہے تو اس میں اردو کے بجائے ہندی یا سنسکرت درج ہوتا ہے،اردو کے طلبہ اس کو ہلکا سمجھتے ہیں عموماً اس کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی اور اگر ان کے ایڈمٹ کارڈ میں غلطی سے اردو کے بجائے ہندی لکھ کر آگیا تو اس میں ترمیم کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ سوچ کر اسے باقی رہنے دیتے ہیں کہ اگر ہندی ہی لکھ دیا ہے تو کیا ہوگیا،اس طرح کی سوچ اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہندی سے اسکول کے بچے کو شروع سے ہی مناسبت ہوتی ہے،اور اردو کو ہلکے میں لینے کی وجہ سے اس کی طرف توجہ نہیں ہوتی ،اس لئےہم اگر اردوزبان کی بقاء چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اپنےگاؤں کے پرائمری اسکول اور  مکتب کو فعال بنانا ہوگا تاکہ ہمارے بچے ابتداء ہی سے اردو سے دلچسپی لینے لگیں ،
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کے تعلق سے ہم تمام لوگ فکر مند رہیں خود بھی  پڑھیں اور بچوں کو بھی اس کی طرف راغب کریں،ورنہ وہ دن دور نہیں جب رئیس امروہوی کے اس شعر کو گنگناناپڑے۔

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے​

تحریر کردہ: محمد نظر الہدیٰ قاسمی 
خادم تدریس:مدرسہ اسلامیہ چہرا کلاں
نگراں:نوراردو لائبریری حسن پور گنگھٹی
سرپرست: الھدیٰ فروغ اردو کوچنگ سینٹر