Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 14, 2020

جماعت اسلامی ہند مشرق کے وفد کا دورہ اعظم گڑھ۔۔دلت مسلم کے درمیان حالیہ تنازعات سے متاثر مواضعات کے حالات کا جاٸزہ۔

بلریاگنج اعظم گڑھ ۔۔۔۔اتر پردیش/صداٸے وقت /14 جون 2020.
============================
  ابھی کل جونپور کے گاؤں بھدیٹھی جاکرصحیح صورت حال معلوم کی کوشش کی گئی اور قانونی کارروائی  کرنے کی بات کی گئی تھی ۔ اسی طرح کے چند اور حادثات بلریاگنج سے آگے مہرا چاندپٹی میں دو بار ایک 12 مئی اور دوسرا عید سے چند روز پہلے کا ہے ۔ اس کے بعد تیسرا واقعہ 11 جون کو سکندرپور اور چوتھا واقعہ کوٹھیا گاؤں کا ہے جو چاندپٹی سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔
ان تمام واقعات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کی نوعیت ایک جیسی اور منصوبہ بند ہے ۔

جون پور بھدیٹھی کے بعد دوسرا مقام مہرا بازار چاند پٹی کا ہے جہاں ایک فریق کا لڑکا دوسرے فریق کے آم کے باغ سے آم توڑتا ہے اور اپنی بکری کو اس کے کھیت میں ہانک دیتا ہے ۔ جس کا باغ اور کھیت ہے وہ جب منع کرتا ہے تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجاۓ گالم گلوچ کرنے اور جھگڑا کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔ دونوں لڑکوں میں پہلے مارپیٹ ہوتی ہے ۔پہلے فریق کا لڑکا اپنے گھر جاکر مارپیٹ کی اطلاع کرتا ہے ۔ ادھر اٹھارہ بیس مرد عورت لڑکے جوان آکر دوسرے فریق کے تنہا لڑکے کو مارنا شروع کردیتے ہیں جب لڑکے کے گھر والوں کو خبر ہوتی ہے تو ادھر سے بھی آٹھ دس نوجوان موقع پر پہنچتے ہیں اور دونوں فریق میں جم کر مار پیٹ ہوتی ہے جس میں دونوں طرف زخمی ہوجاتے ہیں ۔پہلے فریق کی طرف سے عورت مرد لڑکے لڑکیاں سب دوسرے فریق کے گھر پر  گروپ کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں اس کے بعد دونوں فریق تھانہ پہنچ کر ایف آئی آر کرانا چاہتے ہیں ۔ پہلے فریق کی ایف آئی آر درج کرکے فوراََ کارروائی شروع کردیتے ہیں جب کہ دوسرے فریق کی ایف آئی آر  درج نہیں کی جارہی ہے ۔ اور پانچ نامزد لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے اس کے علاوہ پانچ مزید نامزد اور کچھ نامعلوم افراد کی گرفتاری کے پولیس مسلسل چھاپے مار رہی ہے اور وہ لوگ خوف وہراس اور پولیس کی سخت مار سے چھپنے پر مجبور ہیں ۔پہلے فریق کا میڈیکل معائنہ بھی ہوگیا اور رپورٹ بھی لگ گئی جبکہ دوسرے فریق کی نہ ایف آئی آر درج ہورہی ہے اور نہ ہی میڈیکل معائنہ ہورہا ہے ۔وہ لوگ پانچ افراد کی ضمانت کے لیےرات دن کورٹ کچہری کا چکر لگارہے ہیں اور ایک ماہ گزرنے کے بعد ابھی کوئی نتیجہ نہیں سامنے آیا ۔ شاید ہائی کورٹ تک جانا پڑے ۔ کتنا وقت لگے گا اور کتنا روپیہ برباد ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے برعکس فریق اول کے لوگ آزاد گھوم رہے ہیں اور انہیں حکومت کی جانب سے مالی مدد اور دیگر سہولتیں دینے کا اعلان کیا جارہا ہے ۔
دوسرا واقعہ بھی اسی گھرانے سے وابستہ ہے کہ ایک فریق پانچ چھ نوجوان دوسرے فریق کے دوجوانوں کو راستہ روک کر بے تحاشہ مارنے لگتے ہیں جبکہ وہ دو لوگ موٹر سائیکل سے رات دیر اپنے گھر لوٹ رہے تھے ۔ یہ دونوں نوجوان کسی طرح مار کھاکر اور موٹر سائیکل چھوڑ کر بھاگ کر اپنی جان بچاتے ہیں ۔ جب تھانہ میں جاکر FIR کرانا چاہتے ہیں تو ایف آئی آر نہ لکھ کر روپیے خرچ کرکے صلح مصالحت کی بات کی جاتی ہے ۔  جبکہ فریق اول سے تحریر لے لی جاتی ہے وہ مار تے پیٹتے ہیں , موٹر سائیکل  کو توڑ پھوڑ دیا جاتا ہے ,  وہ لوگ آزاد گھوم رہے ہیں ۔
تیسرا واقعہ سکندر پور میں بھی اسی طرح کی صورت حال ہے ۔ پورے گاؤں میں یک طرفہ گرفتاری ہوئی اور گاؤں میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے گھروں کے دروازوں کو توڑا گیا اور ابھی بھی فورس لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آنا جانا اور گاؤں میں جاکر کسی سے ملنا ممکن نہیں ہو سکا ۔یہ معلوم ہوا کہ ایک گھر میں نکاح کی تقریب تھی بعض قریبی رشتہ دار دوسرے گاوں سے شرکت کے لیے گئے تو ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ۔ 
اسی طرح کا معاملہ کوٹھیا کا ہے ۔ اس گاؤں میں بمشکل بیس بائی مسلم گھر ہیں جو ایک ہی خاندان کے ہیں اور غریب و مزدور طبقہ ہے باقی اطراف میں ٹھاکر پنڈت یادو اور دوسرے لوگ ہیں ۔دس ہزار کے قریب ووٹرس ہیں ۔ اچھی خاصی تعداد دلت کی ہے ۔ یہاں بھی یہی ہوتا ہے کہ بکری اور بھینس چراتے ہوۓ ایک  فریق کا لڑکا دوسرے فریق کے لڑکے کو مارتا ہے ۔ دونوں کی مارپیٹ کے بعد ایک فریق کے بہت سارے عورت مرد لڑکے لڑکیاں دوسرے فریق کے لڑکے کو دوڑاتے ہوۓ اس کے گھر تک داخل ہوجاتے ہیں اور گھر میں گھس کر مارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دونوں فریق میں مارپیٹ اور پتھر بازی ہوتی ہے ۔ ایک فریق دس لوگوں کے خلاف نامزد FIR کراتا ہے اور تین لوگ گرفتار کرلئے جاتے ہیں ۔ جب دوسرا فریق FIR کرانا چاہتا ہے تو نہیں لکھی جاتی ۔ دوسرے فریق کے گھر میں ایک ایڈوکیٹ ہیں انہوں نے آن لائن رپورٹ کی ہے ۔ پولیس باقی لوگوں کو حاضر کرنے کے لیے بار بار گھر پر آرہی ہے ۔ 
ہر جگہ یہ دیکھا گیا کہ ایک فریق تو دلت ہے اور دوسرا فریق گاؤں کے اہم تر اور باحیثیت مسلم ہیں ۔ مارپیٹ کے فورا بعد کچھ خاص لوگ سرگرم ہوجاتے ہیں اور دلت آبادی اور تھانے اور میڈیکل سنٹر کا چکر لگانے لگتے ہیں ۔وہ ہمیشہ پیچھے ہوتے مگر پوری طرح سرگرم ہوتے ہیں ۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ  عدالت کے کسی فیصلہ اور کسی انکوائری سے قبل وزیر اعلی نے دلت فیملی کو سرکاری مکان اور نقد روپئے دینے کا اعلان کردیا ہے جب کہ دوسرے فریق (مسلم فیملی ) کے لیے NSA اور سخت سے سخت کارروائی کرنے کا آرڈر دے دیا ہے جس سے ایک فریق کا دماغ آسمان پر چلا گیا اور دوسرے فریق میں زبردست خوف وہراس اور بے چینی پائی جارہی ہے ۔ اس کے پاس قانونی چارہ جوئی اور ضمانت کے لیے جو روپیے خرچ کرنا پڑتے ہیں , وہ بھی نہیں ہوتے ۔
جماعت اسلامی ہند اترپردیش مشرق  کے اس وفد میں نجم الثاقب ایڈوکیٹ سکریٹری جماعت اسلامی , احمد کلیم معاون ناظم ضلع جماعت اسلامی اعظم گڑھ , محمد ساجد خان ایڈوکیٹ , ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی اور سراج احمد وغیرہ شامل تھے