Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 10, 2020

کورونا ‏کے ‏خوف ‏سے ‏نمازیوں ‏کے ‏درمیان ‏فاصلہ ‏کا ‏حکم۔



از /ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند/صداٸے وقت۔
==============================
سوال :
         لاک ڈاؤن کے بعد مسجدیں دوبارہ کھلیں اور ان میں نمازیں پڑھی جانے لگیں تو ایک نئی چیز دیکھنے کو مل رہی ہے _ وہ یہ کہ دو نمازیوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا جارہا ہے _  حالاں کہ عام دنوں میں نمازی مِل مِل کر کھڑے ہوتے تھے _  کچھ علماء اس کو جائز کہہ رہے ہیں تو کچھ ناجائز بتاتے ہیں _  اس سے بڑی الجھن ہورہی ہے _ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں ، کون سا طریقہ درست ہے؟ نمازیوں کو مِل مِل کر کھڑے ہونا چاہیے ، یا وبا کے اندیشے سے فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونے کی گنجائش ہے؟

جواب :
          دین کے تمام احکام  صحت مند افراد اور عام حالات کے لیے ہیں _ کسی شخص کو کوئی عذر ہو ، یا کوئی غیر معمولی حالت ہو تو جتنا عذر ہوگا اتنی گنجائش ہوگی _  پانی موجود نہ ہو ، یا موجود ہوتے ہوئے کسی مرض کی وجہ سے وضو نہ کیا جاسکتا ہو تو تیمم کا حکم ہے ، کوئی شخص کھڑا ہوسکتا ہو اور رکوع کرسکتا ہو ، لیکن پیر میں تکلیف کی وجہ سے سجدہ اور قعدہ کرنے میں اسے دشواری ہو تو وہ قیام اور رکوع کرے گا ، لیکن سجدہ اور قعدہ کرتے وقت کرسی کا استعمال کرسکتا ہے _ یہی حکم دیگر معاملات کے لیے بھی ہے _

        نماز کا ایک متعین طریقہ ہے _ احادیث میں اس کی تفصیلات موجود ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھ کر بتا دیا ہے کہ اس طرح نماز پڑھا کرو  _ آپ ص نے باجماعت نماز کے دوران صفوں کو سیدھا رکھنے ، قدم بہ قدم اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے اور درمیان میں ذرا بھی خلا نہ رکھنے کا تاکیدی حکم دیا ہے _ اس سے نمازیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق ، نظم وضبط ، فرشتوں سے مشابہت اور دلوں کے درمیان قربت پیدا ہوتی ہے _ عام حالات میں یہ سارے کام اقامتِ صلاۃ کے حکم میں داخل ہیں _ نمازیوں کا اپنے درمیان فاصلے رکھنا اور ایک دوسرے سے دور کھڑے ہونا خلافِ سنت ہے _ اس سے شیطان کو رخنہ اندازی کرنے کا موقع ملتا ہے _

        لیکن خلافِ معمول حالات میں نماز کے معروف طریقے میں حسبِ ضرورت کچھ فرق کیا جاسکتا ہے _ قرآن مجید کی ایک آیت سے اس کا استنباط ہوتا ہے _ سورۂ البقرہ کی آیت 238 میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ نمازوں کی پابندی کرو اور اللہ کے سامنے اس طرح کھڑے ہو جس طرح فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں _  اگلی آیت میں ارشادِ باری ہے : 
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُكۡبَانًا فَاِذَآ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰهَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ ( البقرۃ :239) 
" اگر تمھیں خوف ہو تو چاہے پیدل ہو یا سوار (جس طرح ممکن ہو نماز پڑھو) اور جب خوف دور ہوجائے تو اللہ کو اُس طریقے سے یاد کرو جو اُس نے تمہیں سکھا دیا ہے _ “

     یہ آیت اس معنیٰ میں صریح ہے کہ اس میں عدمِ خوف کی حالت میں نماز کو معروف طریقے پر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، جب کہ خوف کی حالت میں معروف طریقے سے ہٹ کر نماز پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے _  آیت میں جمع کا صیغہ ہے ، مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جماعت سے نماز کا حکم دیا گیا ہے _ باجماعت نماز اگر زمین پر پڑھی جائے گی تو ظاہر ہے کہ نمازی مِل مِل کر کھڑے ہوسکتے ہیں ، لیکن اگر ہر نمازی سواری پر ہو تو ان کے درمیان لازماً فاصلہ ہوگا _

       آیت میں 'خوف' سے مراد اصلاً دشمن کا خوف ہے اور اس میں حالتِ جنگ میں نماز کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ، لیکن لفظ 'خوف' چوں کہ مطلق آیا ہے ، اس لیے مفسرینِ کرام (مثلاً طبری ، قرطبی ، ابن عطیہ ، سعدی وغیرہ) نے  لکھا ہے کہ لفظِ 'خوف' کے استعمال میں یہ حکمت ہے کہ ہر طرح کا خوف اس میں شامل ہوسکتا ہے ، چاہے دشمن کا ہو ، یا درندے کا ، یا کسی اور چیز کا _ اسی بنا پر فقہائے عظام نے درندوں ، موذی جانوروں ، اور زہریلی مخلوقات سے خوف کو بھی اس آیتِ مبارکہ کے عموم میں شامل کیا ہے _

          خوف کی نوعیت جتنی شدید یا خفیف ہوگی ، شریعت کی طرف سے اتنی ہی رخصت اور رعایت ہوگی _ کرونا وائرس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ جسمانی رابطہ سے پھیلتا ہے _ ایک مریض شخص کا ہاتھ یا اس کے جسم کا کوئی حصہ یا کپڑے دوسرے شخص کو چھو جائیں تو اسے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے _ ایک شخص ، جس میں اس مرض کی علامات ظاہر نہ ہوں وہ بھی اس کو منتقل کرنے والا (Carrier) ہوسکتا ہے _  یہ باتیں معتبر اور مستند مسلم ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی ہیں ، اس لیے انہیں محض واہمہ نہیں قرار دیا جاسکتا _

      مرض کی خطرناکی کو دیکھتے ہوئے ابھی احتیاط کے ساتھ مسجدوں کو آباد کرنے کی ضرورت ہے _ چنانچہ بوڑھوں اور بچوں کو ابھی گھر پر ہی نماز پڑھنی چاہیے _ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے جو لوگ مسجد جائیں وہ بھی تمام احتیاطی تدابیر ملحوظ رکھیں _

        چنانچہ اگر کرونا وائرس سے خوف کی بنا پر نمازیوں کے درمیان مناسب فاصلہ کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے _ ظاہر ہے کہ یہ خلافِ معمول حالت کا حکم ہے _ جب یہ حالت ختم ہوجائے گی تو بغیر فاصلہ رکھے مِل مِل کر کھڑے ہونے کا مسنون تاکیدی حکم واپس آجائے گا _