Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 10, 2020

نعمتوں ‏کی ‏قدر، ‏توبہ ‏و ‏استغفار ‏اور ‏اللہ ‏کو ‏راضی ‏کرنے ‏کی ‏ضرورت ‏ہے ‏!


از /  مولانا عبد الرشیدالمظاہری، شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی/ صداٸے وقت 
==============================
          بسم اللہ الرحمن الرحیم 

ہماری آنکھوں نے جو دیکھا کانوں نے جو سنا عموما کھانے پینے کی سادگی اور بقدر کفایت پر گزر اوقات عربوں کے یہاں ان کی مشہور مہمان نوازی کوئ پہونچا بکری کا بچہ ذبح کیا اور گوشت بھون کر کھلادیاکھجور اور پانی سے گزر کرلیا مسافر ستو باندھ لیتا پانی ساتھ لے لیتا اور کہیں گھول کر پی لیتا عرب گرم ملک ، ستوے سے ٹھنڈک بھی پہنچتی تھی اور خوراک بھی مہیا ہوتی تھی ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ستوے لیکر مسافر وں کے چلنے کارواج تھا کئ کئ کوس متعدد میل اور کلو میٹر پیدل سفر کرلیاکرتے تھے حج کے زمانہ میں بہت سے حجاج کرام میدان عرفات اور منی میں وہاں کی شدت گرمی کی وجہ سے جو کے ستوے لیکر جایا کرتے تھے پہلی بار میں بھی لیکر گیاتھا مگر احباب نے منع کردیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں کھانے پینے کی چیزیں وہاں افراط ملتی ہیں اور معلم خود کھانے کاانتظام کرتا ہے

چناچہ وہاں جمرات کے راستے پر اور  خیموں کے سامنے بھی پھل وغیرہ ملتے تھے مگر بعد میں دوکانیں وغیرہ لگانا ممنوع ہوگیا چونکہ بھیڑ بھی ہونے لگی اور جس سال منی میں آگ لگی نظام اور سخت ہوا تاہم معلمین پھل فروٹ اور ہلکے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں اس میں مصلحت یہ ہے کہ سفر میں استنجےوغیرہ کی پریشانیوں کا سامنا نہ ہو ، عرفات میں تو ہمیشہ کھانے پینے کی آزادی رہی اور آج بھی ہے اس ملک میں صبح کاناشتہ موٹی روٹی چٹنی سرکہ وغیرہ تھا دوپہر کو بھی کھانے یابھونے وغیرہ چبانے کا رواج تھا آموں کے موسم میں دوپہر میں لوگ آم خوب کھایا کرتےتھےاور شام کا کھانا روٹی چاول دال وغیرہ اہتمام سے پکتاتھا باقی پھل فروٹ شہروں میں ملتے تھے دیہاتوں میں میسر نہیں آتاتھا حکیم جی اگر سیب کھانے کو بتایا تو پتہ لگانے پر معلوم ہوتا کہ اعظم گڑھ بوک پر شاید مل جاۓ اور چھوٹے چھوٹے بازاروں میں اور بستی گلیوں میں سیب انگور انار چلاچلاکر فروخت کرتے ہیں کھانے کی مختلف اجناس واقسام کی اشیاء کا ڈھیر ہے دستر خوان کا انداز ہی بدل گیا تقریبات اور شادیوں  کے موقع پر عجیب وغریب انتظامات ہوتے ہیں کھیتی کی پیداوار میں کئ گنا اضافہ ہوا  مختلف شہروں اور صوبوں بلکہ ملکوں سے اشیاء خوردنی آنے لگیں پینے اوڑھنے کے نظام میں کافی تبدیلی آئی مکان عالیشان بن گئے بڑی بڑی ڈگریاں اور ملازمین لوگوں کو حاصل ہوئیں گرمی سردی ہر زمانے میں اسباب راحت میسر ہیں گھروں گلیوں شہروں میں ہر طرف قمقمے اور روشنیاں نظر آتی ہیں ہر ایک ساتھ میں پوری دنیاکی خبر ہےمختلف قسم کی فضائی اور زمینی سوار یاں ہیں 
قیام کے واسطے شہروں میں عمدہ سے عمدہ انتظامات ہیںسواریاں اس قدر کہ ایک دو کلومیٹر بھی پیدل نہیں چلناہے
راحت رساں سواریاں ہیں۔ جگہ جگہ کھانے، پینے اور فواکہ ٹھنڈا پانی فراہم ہے۔ پیسوں کی فراوانی جو نعمتیں آپ کو مل رہی ہیں پہلوں کے تصور میں نہیں ان کے زمانوں کے لحاظ سے تو آپ کی دنیا ہی جنت نشاں بنی ہوئی ہے تاہم کچھ بیچارے کمزور بھی ہیں نعمتوں کے اس قدر سیلاب کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ان کو استعمال کرتے، اللہ کا شکر ادا کرتے، غریبوں، مسکینوں ، بیواؤں ، یتیموں ، بے بسوں کا خیال کرتے مگر ہم اترا گیے۔ ہم نے ان انعامات کو اپنی کمائی اور فنکاری کا کمال سمجھ لیا، قارون نے یہی کہا تھا کہ یہ خزانہ تو میں نے اپنے فن اور ہنر سے کمایا ہے اس کا انجام تاریخ کے اوراق بیان کرتے ہیں۔ ہم نے نعمتوں کو اپنی آسائش میں استعمال کیا خدا کو بھول گیے شریعت ، سنت اور اخلاق کا سودا کرلیا، جوڑے پر جوڑے تیار ہورہے ہیں اور غریبوں، مسکینوں کے سامنے اکڑ رہے ہیں۔ انا ہمارے اندر آگئی اسی انا کے دعوی نے فرعون اور اس کی قوم کو تباہ کیا۔ کھانے پینے کی فراوانی پر کھانے  کی جو قدر کرنی چاہیے تھی ہم نے نہ کیا؛ بلکہ ناقدری کیا، بہت سارے کھانے پھینک دیے جانے لگے نابدان کے گندے پانی میں خوراک کو بہادیا گیا ‌ خود تو ہر طرح کے لطف میں ، پر غریبوں ، بے بسوں کا خیال نہ کیا، یہ کوئی ایسا امر نہیں جو کسی خاص ملک میں ہو بلکہ پوری دنیا خوش حالی کے عروج پر پہنچ گئی، بے حیای، بے غیرتی، عریانیت، زنا، شراپ نوشی، عیاشی ، سود ، رشوت ، حق تلفی ، نعمتوں کی ناقدری اللہ کی ناشناسائ، بہت سارے مہلک امر اض ، ہمارے اندر جڑ پکڑ گیے کا کرتے اس میں اخلاص کی کمی یا فقدان ماتحتوں کے ساتھ برتاؤ میں تفرد و بڑائی ان کی اہانت حقارت ذلت انسانیت کے حدود سے باراخلاق آگیے تو خداے ذوالجلال کو جلال آیا اور پوری دنیا کے حالات آنا فانا بدل دیا۔ ساری دنیا حیران،ششدر، پریشان ،غریب بھی حیرت زدہ، ایک دوسرے سے ملنا ہاتھ ملانا خیریت پوچھنا آنکھیں اور منہ ملا کر باتیں کرنا سب انداز بدل گیا ایک دوسرے سے بھاگنے اور دور رہنے ہی میں خیر سمجھ رہے ہیں، یہ عذاب تو اوپر سے آیا ہے اس لیے اوپر والے سے اس میں دعا، استغفار اور مانگنا کام دیگا اپنی تدبیریں احتیاط علاج سب ضروری پر مالک کو راضی کرنا سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ اسلیے خود اپنے سے اور پوری انسانیت سے درخواست ہے کہ اوپر والے سے اپنا تعلق مضبوط کریں، نعنتوں کی قدر کریں،حالات میں صبر اؤر غمخواری اختیار کریں بلکہ دوسرے کے حقوق کو پہچانیں تمام برائیوں سے توبہ کریں زائد از حاجت اشیاء ہوں تو غریبوں محتاجوں یتیموں بیواؤں بےبسوں پر صرف کریں بلاضرورت سفر ترک کریں۔ اللہ کا ذکر اور اس کی یاد میں لگیں ان شاءاللہ حالات بدلیں گے اور اوپر والا اپنی رحمت نازل فرماے گا اسلیے دعا کریں اللہ ہم سب سے راضی ہوجائےاور بلاٹل جائے آمین