Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 10, 2020

ڈاکٹر ‏کی ‏شکل ‏میں ‏ایک ‏ڈاکو ‏کے ‏ظلم ‏کا ‏شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ‏بنام ‏ڈاکو ‏



از /   محمد نظر الہدیٰ قاسمی۔ویشالی/صداٸے وقت۔
==============================

۲جون کی شام  اپنے کتب خانہ  (نوراردولائبریری )کے پیچھے خالی میدان جس کو گاؤں کی اصطلاح میں چوڑ کہتے ہیں،بہت دنوں کے بعد گیا ،وہاں بہت سارے بچے کھیل کود رہے تھے کچھ ہمارے ہم عصر بھی تھے،لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ بھی کھیلئے، میں نے بھی سوچا بچپنے کی یاد تازہ کرلوں (اگر چہ ابھی بھی میں کوئ خاص عمر کو نہیں پہونچا)بس کیا تھا میدان میں کود گیا اور پھر کبڈی کبڈی شروع ہوگیا، ایک دو مرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ جب چھلانگ لگائی بقول ڈاکٹرکلیم عاجز صاحب ''رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں -
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو ''ذہن میں بار بار یہ بات گردش کررہی تھی کہ نظر الہدیٰ تم تو بہت اچھا کبڈی کھیل لیتے تھے،کبڈی کے تو تم چمپئن تھے،خیر پاؤں غیر ہموار زمین پر پڑنے کی وجہ سے ٹخنہ میں اللہ تعالیٰ کی جو کارگری کارفرما تھی، وہ درہم برہم ہوگئ،پھر کیا تھا میں لنگڑاتے ہوئے اپنی لائبریری کا رخ کیا اور آرام سے سو گیا ،کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے خوشدامن صاحبہ سے اس بات کا تذکرہ کیا انہوں نے پانی وغیرہ جو فوری طور پر ممکن ہوسکتا تھا انہوں نے کیا، وقتی طورپر کچھ عافیت ہوئی،بعد نماز عشاء میں سوگیا ،صبح جو اٹھا تو درد کی شدت اپنے شباب پر تھی،میں اپنے برادرنسبتی معراج الہدیٰ صاحب کو کہا کہ آپ مجھے مدرسہ پہونچا دیجئے، میں مدرسہ پہونچنے کے بعد گاؤں کے جو سماجی خدمت گار ہوتے ہیں ان سے میں نے چچا محترم جناب ماسٹر محمدشمیم الہدیٰ صاحب کے ہمراہ جاکر دیکھایا اس کی جو بساط تھی اس کے مطابق اس نے دیکھ داکھ کر مجھے رخصت کردیا ، مدرسہ آنے کے بعد اساتذہ کا مشورہ ہوا کہ ٹخنہ کا معاملہ ہے ،اس لئے اکسرے کرالینے میں ہی بھلائی ہے، میں نے چچا محترم ماسٹر محمد شمیم الہدیٰ صاحب کے ہمراہ اکسرے کرانے مہوا کا رخ کیا اور اکسرے کرانے کے بعد اکسرے والے سے اس کی نوعیت دریافت کی اس نے کہا کہ ڈاکٹر سے دیکھا لینے میں عافیت ہے، مرتا کیا نہ کرتا درد کی شدت سے بے حال ہورہا تھا، مشورہ کیا کہ کون سے ڈاکٹر سے دیکھانا مناسب ہوگا ،لوگوں نے کہا کہ ڈاکٹر آر پرساد ، تلاش بسیار کے بعد ان کی کلینک پر پہونچا ،کاؤنڈر پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا مریضوں کا نمبر لگا رہا تھا، چچا نے دریافت کیا کہ ڈاکٹر صاحب کتنے بجے آئیں گے،اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پٹنہ سے آتے ہیں اور ساڑھے بارہ بجے ہرحالت میں پہونچ جاتے ہیں، میں نے سنا کہ ڈاکٹر صاحب پٹنہ سے آتے ہیں تو میرے اوپر تھوڑا رعب پڑا اور میں مطمئن ہوگیا کہ میں نے علاج کے لئے تشفی بخش جگہ کا انتخاب کیا ہے،بہر حال ڈاکٹر صاحب کے انتظار میں بیٹھا رہا وقت گذر ہی نہیں رہا تھا،دیکھتے دیکھتے ایک بج گیا پھر بھی ڈاکٹر صاحب نہیں پہونچے،اسی طرح کے انتظار کے مو قع سے عربی کا یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے"الانتظار اشدمن الموت"انتظار کرنا موت سے بھی زیادہ سخت ہے،اسی کیفیت سے دوچار تھا؛لیکن کربھی کیا سکتا تھا،فیس کی رقم جمع ہوگئی تھی ،چاہ کر بھی وہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا، آدھ پون گھنٹے کے بعد ڈاکٹر صاحب آدھمکے، میں اپنی باری کا شدت سے منتظر تھا، میری باری آئی ، ڈاکٹر صاحب کے روبرو ہوتے ہوئے میں نے اپنی کیفیت بیان کی، اکسرے کو انہوں نے بلب کی روشنی میں آسمان کی طرف دراز کرتے ہوئے دیکھا اور اکسرے پر دوجگہ نشان لگایا، اور میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ ٹخنہ کے پاس دو جگہ کریک ہے، ایک دوا لکھ کر میرا پرزہ کمپاؤنڈر کے ہاتھ دھما دیا، میں وہاں سے نکل کر اپنی پہلی جگہ پر آکر براجمان ہوگیا، کمپاؤنڈر صاحب تشریف لائیں اور انہوں نے کہا کہ آپ کے پاؤں کا پلستر ہوگا اتناپیسہ لگے گا ،آپ آپس میں مشورہ کرلیں،میں نے کہا کہ میرے چچا موجود ہیں ان سے بتا دیجیۓ،اس نے پوری تفصیل بتادی،پھر چچا بھتیجے دونوں نے باہم مشورہ کیا ، مشورہ میں یہ بات طے ہوئی کہ مدرسہ چلتے ہیں اس کے بعد دیکھا جائے گا، جب تک میں گاڑی کے پچھلے حصہ پر بیٹھ کردو کاغذ لے کر قرعہ اندازی کی تو قرعہ اندازی میں یہ بات نکل کر آئ کہ پلستر کرالینا ہی بہتر ہے، میں نے چچا سے کہاکہ چلئے اسی سے پلستر کرالیتے ہیں،پھر ہم دونوں دوبارہ دوادوکان آ ئیں اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی فیس پلستر کے تعلق سے زیادہ ہے،اگر ممکن ہوتو اپنی توسط سے اس میں کچھ ترمیم کروادیں مہربانی ہوگی،خیر بیچارے کے کہنے پر ڈاکٹر صاحب نے پانچ سو روپے کم کردئے، جب میں نے اپنے جیب کو ٹٹولا تو رقم ندارد ،پھر موبائل کی طرف دیکھااور سوچا اس کے ذریعہ رقم منتقل کرکے کام کرالوں گا لیکن  وہ بھی خوراک ختم ہونے کی وجہ سے بے ہوش ،اب ہوش میں لانے کے لئے اس کو خوراک کی ضرورت تھی لیکن خوراک منتقل کرنے والا آلہ(چارجر)وہاں مہیا نہیں تھا، بھر بھی کیسے کیسے کرکے چودہ سو کا انتظام ہوا اور میں نے کمپاؤنڈر سے کہا کہ یہ رقم لکھ لیں اور بقیہ رقم جب ہم پکا پلستر کرانے آئیں گے تو انشاء اللہ ادا کردیں گے، خیر ڈاکٹر نے کچا پلستر کیا اور تاکید کی کہ ایک ہفتہ کے بعد آکر پکا پلستر کرالیجۓ گا، اب دوا کی بات تھی،دوا کیسے لوں جیپ رقم سے خالی، دوادوکان والے نے کہا کہ آپ دوا لے جائیں، اور آپ جب یہاں آئیں گے تو میری رقم کی ادائیگی کردیجئے گا، میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اس ناگفتہ بہ دور میں بھی اس حلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہے،مہوا سے واپس ہوا، ایک دن آبائی وطن میں قیام کے بعد اپنے اہل و عیال کے پاس مظفر پور آگیا، اور آرام سے رہنے لگا،‌والدہ کا بار بار اصرار ہورہا تھا کہ ڈاکٹر رتن رنجن اگھوریا بازار سے ایک مرتبہ مل لیتا تو اچھا تھا، اچھا ایک بات لکھنا بھول ہی گیا جب ڈاکٹر آر پرساد مہوا سے ملاقات کرکے لوٹ رہا تھا،کمپاؤنڈر نے کہا کہ ابھی آپ کو اکسرے نہیں ملے گا جب آپ پکا پلستر کرانے آئیں گے تو آپ کو اکسرے ملے گا، میں نے سوچا چھوڑئیے اکسرے میرے پاس رہے کہ ڈاکٹر کے پاس کیا فرق پڑتا ہے،یہ سوچ کر میں نے نظر انداز کردیا، جب میں گھر آیا تو سب لوگوں نے اکسرے کا مطالبہ کیا تو میں نے جواباً کہا کہ اکسرے ڈاکٹر نے اپنے پاس رکھ لئے ہیں،جب پکا پلستر کے لئے جائیں گے تو وہ دیں گے، سب کو جواب بھی دے رہا تھا اور اندر ہی اندر اپنی بیوقوفی پر نالاں بھی تھا،خیر ایک ہفتہ مکمل ہونے کو ہوا تو میں نے عزیزم فخر الہدیٰ سلمہ سے کہا کہ کل صبح صبح مہوا چلنا ہے ڈاکٹر نے بلایا ہے، والدہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو والدہ نے کہا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر رتن رنجن اگھوریا بازار کو دیکھا لو میں نے والدہ کی بات مان کر ڈاکٹر رتن رنجن کے پاس گیا ،پنجہ دے کر اپنے نمبر کا اندراج کرایا، جب میری باری آئی ڈاکٹر رتن رنجن سے روبرو ہونے کا تو بہت محبت سے ساری کیفیت دریافت کی اور انہوں نے اکسرے کا مطالبہ کیا میں نے کہا کہ وہ تو ڈاکٹر آر پرساد مہوا کے پاس ہے، انہوں نے اکسرے لکھ دیا اکسرے کرانے کے بعد انہوں نے جب دیکھا تو انہوں نے میرے بھائی فخر الہدیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ان کے پاؤں میں کوئی شکایت نہیں ہے ہلکی موچ ہے وہ بھگوان کی کرپا سے ٹھیک ہوجائے گا اور انہوں نے کمپاؤنڈر سے کہا کہ ان کا پلستر کاٹ کر مجھے دیکھاؤ ، جب انہوں نے میرے پاؤں کو ٹٹول کر دیکھا تو برجستہ  طنزیہ انداز میں ہاتھ کو اچھالتے ہوئے کہا سر آداب جائیے گھومئے پھرئے ، دو طرح کی دوا تجویز کی اور روانہ کردیا ،اسی وقت سے میں الحمد للہ اچھی طرح چلنے لگا، اگر مہوا ڈاکٹر آر پرساد کے پاس جاتا تو اپنا بل بنانے کے لئے میرے پاؤں کو پلستر سے پھر جکڑ دیتا اور میں ڈیرھ دو مہینے کے لیے بستر پر دراز رہتا،اس وقت سے میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی کوئ ڈاکٹر مریضوں کے حق میں ملک الموت سے کم نہیں ہوتے، سماجی طور پر اسباب کے درجہ میں انسان ڈاکٹر کو بھگوان کا درجہ دیتے ہیں اور ان کی تجویز کی ہوئی،دوا کو آب حیات سمجھ کر لوگ پیتے اور کھاتے ہیں،اگر ڈاکٹروں کی یہ حالت رہی تو پھر کیا ہوگا یہ بھولی بھالی جنتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے۔
نوٹ۔۔۔مضمون نگار کی راٸے سے صداٸے وقت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔