Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 12, 2020

ماں ‏کی ‏مامتا ‏اور ‏اولاد ‏کا ‏اخلاق ‏سوزش ‏رویہ۔۔۔



از/ شرف الدین عظیم الاعظمی/ صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
 روئے زمین پر قدرت کی طرف سے بکھری ہوئی نعمتوں میں سے سب سے قیمتی دولت، اور سب سے انمول نعمت ماں کا عظیم  سرمایہ ہے'، اسی دولت کے دم سے زندگی میں بہار ہے'، دنیا میں پھیلی ہوئی محبت کی شعاعیں اسی ماں کی ممتا کے خورشید جہاں تاب کا جلوہ ہے، اولاد کے تئیں ایثار وقربانی، اخلاص و وفا، الفت محبت، وارفتگی وجاں نثار ی کے حوالے سے ماں وہ بے نظیر اور روشن استعارہ ہے جس کا بدل اول روز سے اس روئے زمین پر موجود نہیں ہے، وہ حالات کی کڑی دھوپ میں کبھی سائبان بن کر کھڑی ہوجاتی ہے تو کبھی  گردش زمانہ کے نتیجے میں  حوصلہ شکن ماحول میں مصائب وآلام کی موجوں میں ہچکولے کھاتی ہوئی زندگی کی شکستہ کشتیوں کے لئے عافیت کے ساحلوں کی صورت میں نظر آتی ہے، وہ کبھی موسم خزاں میں بہار بن کر جلوہ گر ہوتی ہے تو کبھی مایوسیوں کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں  موت کے ہم آغوش وجود میں زندگی کا چراغ روشن کرجاتی ہے،  
مادیت کے اس عہد میں جہاں خودغرض کرداروں کی حکمرانی ہو،جہاں مفاد پرستی عروج پر ہو، جہاں نفسانیت اور حرص و ہوس کی گھٹائیں ہر سو پھیلی ہوئی ہو،جہاں تعلقات اور روابط کی ساری نوعیتیں مفادات کے حصار میں محصور ہوں،وہاں بے لوث محبت، بے غرض الفت، پرخلوص چاہت،پاکیزہ جذبات سے معمور عشق وجاں نثاری اور مفادات سے خیال سے بھی ناآشنا ایثار وقربانی کا اگر کوئی روشن مینار ہے'تو وہ صرف اور صرف ماں کی ذات اور اس کا وجود ہے'، وہ اس وقت بھی اپنی اولاد کی محبت سے سرشار رہتی ہے جب اولاد کا کردار اس کی نگاہوں کی ٹھنڈک ہوتا ہے اور وقت بھی اپنی شفقتوں کی بارش اس پر نثار کرتی ہے جب اولاد کی طرف سے احسان فراموشی کا بدترین فعل صادر ہوتا ہے،وہ اس لمحے میں بھی اپنے لخت جگر کی کامیابی کے لئے دعاؤں میں مست رہتی ہے جب اس کی اولاد کا عمل فرحت وسکون کی فضا ہموار کرتا ہے اور اس گھڑی میں بھی اس کے نیک جذبات کی موجوں میں سکوت نہیں ہوتا ہے جب ناخلف انسانوں کی طرف سے اس کی عظمتوں کو پامال کیا جاتا ہے،

موسم بدلے،زمانے کی روش بدلی، معاشرے کا مزاج بدلا،  حالات کے تیور میں سختیاں آئیں، سماجی ڈھانچے میں بے شمار تغیرات آئے، دنیا انقلاب آشنا ہوئی، فضاؤں نے مادیت کا لباس پہنا،ہواؤں نے سازشی جال بنے، محبتوں کے پیمانے بدلے، رشتے ناطے کے معیار میں تبدیلی رونما ہوئی،غرض سب کچھ بدلا۔مگر ماں کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا وہ پہلے بھی اولاد کی محبتوں میں جیتی تھی آج بھی اسی الفت و
شفقت کے پاکیزہ احساسات اور نیک جذبات کی بے کراں وسعتوں میں زندہ ہے۔

 ماں کے انہیں اوصاف کی وجہ سے جو قدرت نے اس کے وجود میں ازل سے رکھ دی ہے' دنیا کی تمام تہذیبوں میں،تمام خطوں میں،تمام نظریات میں،اور‌تمام کلچر میں اس کا تقدس،اس کی عظمت،اس کا احترام، اور اس کی اہمیت ہر دور  میں اعلیٰ حیثیت سےمسلم رہی ہے'، مگر مادیت کے اس انسانیت بیزار عہد میں جہاں اور بہت سارے رشتے اور تعلقات مادہ پرستی اور خودغرضی کی قربان گاہ پر موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے اس مقدس اور بے غرض وقیمتی متاع کو بھی اس وحشیانہ دار پر بے دردی سے مصلوب کردیا گیا، اور دنیا کے چند روزہ عیش کے لئے اس مقدس رشتے کو عموماً پامال کرکے حیوانیت کی روش اختیار کر لی گئی،

 حال ہی میں ہمارے ملک بھارت میں اسی حیوانیت کی ایک بدترین مثال ہماری نگاہوں کے سامنے سے گذری ہے'جس نے پورے وجود کو ہلا ڈالا، موبائل اسکرین پر واٹس ایپ کے ذریعے روزانہ
 دسیوں ویڈیوز پر نظر پڑتی ہے'لیکن چند روز قبل دو ویڈیوز اور اس میں موجود دو متضاد کرداروں نے ایک جانور کو انسانوں سے زیادہ باشعور اور پیکر الفت اور ایک احسان فراموش شخص کو حیوان کی صف میں کھڑا کر دیا ہے، ایک ویڈیو میں ماں کا شاندار کردار ہے جسے انسان نہیں بلکہ ایک پرندہ اس طرح ادا کررہا ہے کہ ماں کی ممتا کی پوری تصویر نگاہوں میں پھر جاتی ہے تفصیل اس کی یوں ہے کہ ایک تنگ ہال میں ایک مرغی اپنے بچوں کو لیکر دانہ چگ رہی ہے ہال چاروں طرف سے بالکل بند ہے ناگاہ ایک بڑا سانپ نمودار ہوا اور قریب تھا کہ وہ اس کے بچوں کو اچک لے مگر ماں نے یہ دیکھ کر بجائے اس کے کہ اپنی جان بچانے کی فکر کرتی پوری قوت سے سانپ پر حملہ آور ہوئی، اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر دیر تک اس سے لڑتی رہی یہاں تک کہ اس نے اپنے سارے بچوں کو موت کے منھ سے نکال لیا۔۔۔۔
 
دوسری طرف ایک ضعیف عورت کی داستان ہے،جو ممبئی کے باندرہ اسٹیشن پر بے یارومددگار بیٹھی ہے'اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، وہ اپنی زندگی کی آخری منزل میں ہے اس منزل میں؟ جب اسے ہر قدم پر سہارے کی ضرورت ہے،
 اس کو تنہا اور بے بسی کی حالت میں دیکھ کر ایک چینل کی لیڈی رپورٹر نے اس کے حالات کے بارے میں پوچھ لیا، معلوم ہوا کہ وہ صبح سے اسٹیشن پر یونہی بیٹھی ہے'اسے دلی جانا ہے'،دلی میں اس کا ایک لڑکا ہے'اور ممبئی میں بھی ایک لڑکا موجود ہے وہ دلی میں ہی اپنے لڑکے کے گھر میں کسی طرح گذارا کرتی تھی لاک ڈاؤن سے پہلے اسے خبر ملی کہ اس کا لڑکا ممبئی میں بیمار ہے'
 ممتا نے مجبور کیا اور اسے دیکھنے کے لئے تنہا وہ ممبئی چلی آئی
 اور اس کی تیمار داری میں مصروف ہوگئی لڑکا شفایاب ہوگیا
 مگر ملک کے حالات کی وجہ سے وہ دہلی واپس نہ جاسکی مجبوراً یہاں رک گئی ،اس دوران اس کے اسی لڑکے کا رویہ جس کی محبت میں اس نے اتنا طویل سفر طے کیا تھا انتہائی سفاکانہ اؤر بے رحمانہ ہوگیا، کئی بار اس نے اس بوڑھی عورت پر ہاتھ بھی اٹھایا مارا پیٹا، بالآخر چند روز قبل اسے گھر سے نکال دیا، رپورٹر کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دلی میں جو لڑکا ہے'اس کا رویہ بھی اسی طرح کا ہے'، لیکن اس خاتون نے باوجود اس کے سفر کا ارادہ اس لیے کیا ہے کہ وہاں وہ کسی گھر میں محنت ومزدوری کرکے پیٹ بھر لے گی یہاں تو چاروں طرف اندھیرا ہے زاد راہ کے طور پر اس کے پاس ایک تھیلا ہے جس میں چند کپڑوں کے علاوہ ریلیف کی طرف سے ابلے ہوئے چاول کا ایک چھوٹا سا ڈبہ ہے'، گفتگو کے دوران اس ضعیفہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہورہی ہے'،چہرے سے اس کی بے بسی مکمل عیاں ہے۔اور ساتھ ساتھ معاشرے کی وہ گھناؤنی اور جگر خراش تصویر بھی !جس کے سفاک ماحول نے اس کی زندگی کا سائبان چھین لیا ہے'اور بے یارومددگار اسے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر زندگی کی مشکل ترین گھڑی گذارنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

خاتون کی اس حالت زار کا یہ اندوہناک منظر علی الاعلان کہ رہا ہے'کہ آج کا انسان احسان فراموشی، مفاد پرستی اور حیوانیت میں جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے'، یہ واقعہ اس طبقے سے متعلق ہے  جس کے اشرافیہ افراد اور مخصوص تہذیب ونظریات کے علمبرداروں کی طرف سے اسلام کے خلاف زہر افشانی اور اشتعال انگیز ریمارکس کا وقتاً فوقتاً
ایک طوفان کھڑا ہوتا رہتا ہے'، مذہبی تنگ نظری اؤر انسانیت سوز تعصب کی آگ انہیں کبھی اس بات کی طرف آمادہ نہیں کرتی ہے کہ اپنے سماج اپنے کلچر،اپنی تہذیب پر بھی کبھی نظر ڈالیں اور خاندان سے لیکر ملکی فضا تک پھیلے ہوئے حیا سوز اور اخلاق سوز دھوئیں سے مظلوم خواتین کی حفاظت کی تدبیریں تلاش کریں،

اس میں شک نہیں کہ ملک یا سماج میں کسی کے ذاتی عمل سے مذہب ونظریات پر حکم نہیں لگایا جاسکتا مگر اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ عمومی طور معاشرے میں انسانوں کے طرز عمل میں ،اس کے حسن و قبح میں مذہب اور نظریات ہی کا عمل ننانوے فیصد کارفرما ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ نسبتاً قوم مسلم میں ماں کی حق تلفی،اس کے حقوق کی پامالی ،اس کے ساتھ بداخلاقی،اور غلط رویوں پر مبنی واقعات بہت کم پائے جاتے ہیں، یہ اسلام کی اس تعلیم کا اثر ہے'جس میں ماں کے تقدس کو ثریا کی بلندی پر پہونچا دیا گیا ہے، جس کے قدموں میں انسانوں کی جنت رکھ دی گئی،
 جس کی خوشنودی خدا کی خوشنودی اور جس کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا گیا ہے'۔
 
 اسلام کے بنیادی سرچشمہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ماں کے حقوق اس کی عظمت ورفعت کو بڑے واشگاف انداز میں بیان کیا گیا ہے والدین کے سخت سے سخت رویوں پر بھی خوشدلی سے صبر و تحمل کا حکم ہے،،تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اور اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ضعیف ہوجائیں تو ان سے سخت لہجہ میں بات نہ کرو،نہ ہی ان کی بات پر اف کرو، بلکہ نرمی اور ادب سے پیش آؤ (بنی اسرائیل آیت نمبر 23ترجمہ شیخ الہند) ہم نے انسانوں کو اس کا حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کریں(الاحقاف آیت نمبر 15) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا بھی شکر گزار بنو(لقمان آیت نمبر 15)  یہ آیتیں دو ٹوک انداز میں بتارہی ہیں کہ پروردگار عالم کی عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت ہی اطاعت وعبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
 

 ماں کی عظمت اس کی اہمیت اور اس کے حقوق سے پوری انسانیت کو روشناس کرانے والی کائینات کی عظیم ہستی،محسن انسانیت فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،والدین اولاد کے حق میں جنت اور جہنم ہیں یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی جنت کا راستہ اور پامالی جہنم اور عذاب کا پیش خیمہ (ابن ماجہ رواہ ابو امامہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں!
 میں پھر کہتا ہوں تمہاری ماں،میں پھر کہتا ہوں تمہاری ماں، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے (بخاری ومسلم بحوالہ معارف الحدیث جلد نمبر 6صفحہ 46)
    ‌ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو سخت بددعائیں دی ہیں،ان کے اوپر رسوائی ،ذلت اور خواری کی مہر لگائی ہے'جو اپنے والدین کے ساتھ برا رویہ اور غیریت کا سلوک کرتے ہیں، آپ نے فرمایا وہ شخص ذلیل،خوار اور رسوا ہو،پوچھاگیا یارسول اللہ کون؟ارشاد ہوا جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائے اور ان کی خدمات کے ذریعے جنت کا استحقاق نہ حاصل کرلے(
    صحیح مسلم) ایک شخص نے جہاد کی اجازت اس حال میں مانگی کہ اس کی ضعیفہ ماں موجود تھی اور اسے سہارے کی ضرورت تھی آپ نے اس کی خدمت کا حکم دے کر واپس کردیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ ‌جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کے علاوہ تھیں اور مشرکہ تھیں،حدیبیہ کے بعد مدینہ آئیں پیغمبر اعظم نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا،
    ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترغیب دی، ان کی ضروریات کے خیال رکھنے کی تاکید کی (معارف الحدیث جلد 6ص54)

ماں کی عظمت،اس کے احترام وتقدیس،اور اس کی عزت و حرمت کے متعلق اسلام کی تعلیمات کا یہ ایک ہلکا سا عکس ہے،ورنہ اسلامی لٹریچر ماں کی عظمتوں سے بھرا ہو ہے ا، اسلامی تاریخ کے اوراق میں ماں جس قدر بلند رتبہ نظر آتی ہے، اس کے تقدس کا ستارہ جس قدر روشن ہے، اس کی حیثیت  واہمت کا تصور  اتنا  وسیع ، اس  قدر رفیع اور فلک رسا ہے کہ انسان کی پوری زندگی اس کی جوتیاں سیدھی کرنے میں ختم ہو جائے تب بھی وہ اس کی ایک تکلیف کا متبادل نہیں بن سکتی۔ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے اپنی والدہ کو اپنے کاندھوں پر اٹھاکر حج کرایا ہے'کیا اس کا حق ادا ہوگیا ارشاد ہوا تمہاری یہ پوری خدمت ماں کے ایک رات کے دودھ کا بھی بدل نہیں ہے'۔
ماں کی محبت کو دنیا میں انسانوں نے ہر رنگ میں دیکھا،اور مختلف جلوؤں میں دیکھا، انھوں نے بھی مشاہدہ کیا جو خدا کے قا ئل ہیں،ان لوگوں نے بھی اس بے غرض شفقت کا شعوری تجربہ کیا،ان کے شعور نے پکارا، ضمیر نے آواز دی،دل نے اس محبت کو تسلیم کیا، اور اس لازوال محبت کےاعتراف پر مجبور ہوئے۔چنانچہ مغربی مفکرجان ملٹن  کی یہ سچی دریافت  ہے ،،آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ اگر کوئی چیز ہے'تو ماں کی متاع ہے'،، مغرب کے ہی دانشور شیلے کے بقول،،
دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ماں سے عظیم نہیں،،بوعلی
سینا کا قول ہے'،،اپنی زندگی میں حقیقی محبت اور سچی الفت کی اعلیٰ مثال میں نے اگر کہیں دیکھی ہے'تو ماں کے پاس دیکھی ہے کہ ایک مرتبہ ہم پانچ تھے اور سیب چار،میری ماں نے کہا کہ سیب تو مجھے پسند ہی نہیں ہے'،، 

یہ چند مثالیں ان لوگوں کی ہیں جو روحانیت سے بہت دور مادیت اور الحاد کی فضا میں پیدا ہوئے ،اسلامی اقوال وفرامین کا کیا شمار کہ یہاں تو دفتر کا دفتر ماں  کے تقدس کی انسانیت ساز اور روح پرور داستانوں سے معمور ہے'جس کا ذکر یقیناً طوالت کا باعث ہے،باوجود اس کے اگر مخصوص افراد کی طرف سے اسلامی تعلیمات،اس کے نظام ہائے زندگی،اس کے دستورالعمل پر انگشت نمائی  پانی کے بلبلوں کی طرح ابھرتی رہے، اس کے جامع اصولوں پر بے جا الزام عائد کرکے ، اس کی تعلیمات میں ترمیم و تبدیلی کرکے،
اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے، اس کے قوانین پر جاہلانہ حرف گیری کر کے اس کی صورت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے  متعصبانہ کردار،جاہلانہ  طرز عمل اور فرقہ وارانہ حرکت کےسوا دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا، ملک کے سلگتے حالات کے تناظر میں جہاں اہل ہند کی یہ ذمہ داری ہے کہ مذاہبِ ملک سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر سماجی خدمات میں صحت مند کردار ادا کریں، رواداری کی فضا بنائیں، وہیں اہل ایمان کی بھی یہ ذمہ داری ہے'کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق  معاشرے میں ضرورت مندوں کی خبر گیری،محتاجوں کی اعانت اور بے کسوں ومزدوروں کی خدمات کا نقش قائم کریں تاکہ  منظم طور پر ملک میں نفرتوں کے شعلے ان اخلاقیات اور سماجی خدمات کی بارشوں سے بے جان ہوجائیں،اور رواداری کی خوشگوار فضا میں والدین کے حقوق کے تحفظ اور اس کی طرف نوع انسان کی توجہ زندگی کے ہر مرحلے میں تمام اہداف سے زیادہ اور اہتمام سے مرکوز ہو سکے، تاکہ کوئی پلیٹ فارم، کوئی فٹ پاتھ، کسی بے بس خاتون کی دلدوز داستان سنانے پر مجبور نہ ہو۔۔۔

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی
8767438283