Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 6, 2020

سمندر ‏کی ‏گہراٸی ‏میں ‏جہاں ‏اور ‏بھی ‏ہیں ‏۔۔۔ایک .دلچسپ .معلوماتی .تحریر۔

 
از/ محمد اشعر /صداٸے وقت ۔
============================
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ زمین کا 75 فی صد حصہ پانی اور 25 فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔دنیا کا پچھتر فی صی حصہ سمندر یقیناً بہت زیادہ گہرا ہے، در حقیقت ہماری سوچ سے بھی زیادہ۔ اگر ہم تمام جزیروں اور براعظموں کو اکھٹا کرکے سمندر کے گہرے ترین حصوں میں ڈال دیں تو بھی زمین اور اس کے تمام مال و اسباب سمندر میں دو میل کی گہرائی تک ڈوب جائینگے ۔
سمندر کی گہرائی سمجھنے کے لیے ہم شروعات کرتے ہیں سمندر کی سطح سے 40 میٹر کی گہرائی میں جو کہ تفنن طبع یعنی ریکریشنل غوطہ خوری کی حد ہے۔ اس سے زیادہ مزید گہرائی میں کوئی عام انسان غوطہ خوری نہیں کر سکتا۔
93 میٹر کی گہرائی میں ہمیں لوسیٹانیا  نامی جہاز کا ملبہ دریافت ہوا تھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ لوسیٹانیا کی لمبائی 240 میٹر تھی اور یہ اپنی لمبائی سے بھی کم گہرائی میں ڈوب گیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ لوسیٹانیا جہاز کا کچھ حصہ سمندر کے اندر اور باقی حصہ سمندر سے باہر پایا گیا۔
100 میٹر کی گہرائی میں بغیر ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کہ غوطہ خوری جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ یہاں پانی کا دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے اندرونی اعضاء کو باآسانی نقصان پہنچا سکتا ہے جس کی وجہ سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ غوطہ خوری کی تعین یہ حد جرمنی سے تعلق رکھنے والے ہیبرٹ نٹچ کو نہ روک سکی اور انہوں  نے ایک ہی سانس میں سمندر کی 214 میٹر گہرائی میں جاکر عالمی رکارڈقائم کیا۔
اس سے مزید نیچے یعنی 332 میٹر کی گہرائی وہ حد ہے جہاں مصری غوطہ خور احمد جبر نے پہنچ کر گینس عالمی رکارڈ بنایا۔ اگر احمد جبر 1111 میٹر مزید گہرائی میں چلے جاتے تو یہ امپائر اسٹیٹ عمارت کی اُنچائی 4433 میٹر جتنی گہرائی ہوتی۔
500 میٹر کی گہرائی میں ہم سمندری نیلی وہیل کی غوطہ خوری کی حد  تک پہنچ سکتے ہیں جس کا شمار دنیا کی دیو ہیکل مخلوق میں ہوتا ہے اور جس کا وزن 190ٹن اور لمبائی 33 میٹر تک ہو سکتی ہے۔
35 میٹر مزید گہرائی میں جائیں تو ہم پینگوئن کی غوطہ خوری کی حد تک جا پہنچتے ہیں۔ 535 میٹر سمندر کی اس گہرائی میں پانی کا دباؤ ایک انسان اور پینگوئن دونوں کے لیے ایسے ہے جیسے ایک قطبی ریچھ کو سکہ پر کھڑا کر دیا جائے۔
سمندرمیں 830 میٹر کی گہرائی یعنی دوبئی میں موجود دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج الخلیفہ تک سمندر میں سمو سکتی ہے۔ جب ہم سطح سمندر سے 1000 میٹر کی گہرائی یعنی اکلومیٹر نیچے پہنچتے ہیں تو یہ سمندر کا وہ حصہ ہے جسے اسکیری زون یعنی سمندر کا خطرناک ترین حصہ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک روشنی نہیں پہنچ سکتی لہٰذا یہ جگہ مکمل طور پر تاریک ہے۔
اس گہرائی میں پانی کا دباؤ اتنا ہوتا ہے گویا انسان سیارہ زوہرہ پر کھڑا ہو، یعنی فوری طور پر موت۔ اگر پانی کے دباؤ سے جان بچ بھی جائے تو یہاں جینٹ اسکویڈ زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہے
1280 میٹر کی گہرائی میں ہم لیدربیک سمندری کچھوے کی غوطہ خوری کی حد تک جا پہنچے ہیں۔ 1828 میٹر گہرائی تک پہنچنا مطلب دنیا کی گہری ترین وادی گرینڈ کینین تک پہنچنے کے برابر ہے۔ اس سے نیچے 20000 میٹر گہرائی میں سمندر کی خوفناک اور خطرناک مخلوقات پائی جاتی ہے جس میں سے ایک بلیک ڈریگن فش یہ ایک گوشت خور  مخلوق ہے اس گہرائی میں اس کو فلیش لائٹ کے ذریعے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
مزید 250 میٹر یعنی 2250میٹر نیچے جانے پر ہم اسپرم وہیل اور نہایت ہی خوفناک مخلوق کلوسل اسکویڈ کی غوطہ خوری کی حد تک پہنچ  جاتے ہیں۔ اسپرم وہیل کے جسم پر اکثر سفید نشانات پائے جاتے ہیں جیسے اس کی کھال کھرچی گئی ہو۔ یہ نشان کلوسل اسکویڈ سے لڑائی کے دوران لگتے ہیں۔ کلوسل اسکویڈ 14 میٹر لمبے اور انکا وزن 750 کلوگرام تک جا پہنچتا ہے۔ اس کی آنکھ کھانے کی پلیٹ کے برابر اور دانت ریزر جتنے تیز ہوتے ہیں۔
 میٹر کی گہرائی پر پہنچ کر ہمیں مشورِ زمانہ ٹائٹینک کاملبہ ملتا ہے۔ اس سے بھی مزید نیچے جائیں تو 4000 میٹر کی گہرائی میں ہم سمندر کے اس حصہ میں جا پہنچتے ہیں جیسے ابیل زون کہتے ہیں اور یہاں پانی کا دباؤ 1100 پر اسکوائر انچ تک جا پہنچتا ہے۔
سمندر کے اس حصے کے بارے میں یہ افواہیں موجود ہیں کہ یہاں ایلین جیسی مخلوق موجود ہے مثلاً فن ٹوتھ، اینگلر فش اور ویپر فش ۔
سمندر کی زمین کی گہرائی اوسطاً 4267 میٹر ہوتی ہے لیکن سمندر کے ایسے مخصوص حصے بھی موجود ہیں جو اس سے بھی کئی زیادہ گہرے ہیں۔ 4791 میٹر کی گہرائی میں بسمارک نامی بحری جنگی جہاز کا ملبہ موجود ہے جو دوسری جنگ ِ عظیم میں ڈوبا تھا۔
اس سے کہیں زیادہ نیچے 6000 میٹر کی گہرائی میں ایک ایسے سمندری علاقہ بھی موجود ہے جسے ہڈل زون کہا جاتا ہے۔سمندر کا یہ حصہ غالباً کائنات کا تاریک ترین حصہ ہے۔ اور یہاں پانی کا دباؤ 11000 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس دباؤ کی پیمائش کی مثال ایسے ہے جیسے ایک انسان نے 50 بوئنگ 747 جمبو جہاز کو اٹھا رکھا ہو۔حیرت انگیز طور پر یہاں بھی زندگی کا وجود مختلف اور عجیب و غریب اشکال میں موجو ہے۔
6500 میٹر سمندر کی گہرائی، وہ حد ہےجہاں ڈی ایس وی آلوین نامی مشہور تحقیقی آبدوز پہنچی تھی اور اس آبدوز نے ہی ٹائٹینک جہاز کو کھوجنے میں مدد کی تھی۔
جب ہم 8848 میٹر کی گہرائی تک پہنچتے ہیں تو یہ وہ حد ہے جہاں دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ تک ڈوب جائے۔ اس کے باوجود سمندر کی گہرائی یہاں ختم نہیں ہوتی 10898 میٹر کی گہرائی میں ہم وہاں جاپہنچتے ہیں جہاں سنھ 2012ء میں جیمز کمیرون بحری آبدوز پہنچی تھی جس کا مقصد سمندر کے گہرے ترین حصہ کو دریافت کرنا تھا۔ انسان نے سمندر کا سب سے گہرا حصہ 1960 میں دریافت کیا۔ جب ڈان والش اور جیکویس پکارڈ 10916 میٹر سمندر کے اندر اپنی آبدوز کی مدد سے پہنچے تھے۔ انہیں سطح سمندر سے یہاں تک پہنچنے میں 5 گھنٹے کا وقت لگا اور وہ صرف 20منٹ ہی یہاں رک سکے۔ کیونکہ ان کی آبدوز کا شیشہ ٹو ٹ گیا تھا لہٰذا انہیں فورً واپس لوٹنا پڑا۔
10972 میٹر سمندر کی گہرائی کایہ مقام کتنا گہرا ہے اس کا اندازہ آپ اس طرح لگا یا جا سکتا ہے کہ 10972 میٹر کی اوسط بلندی پر ہوائی جہاز پرواز کرتے ہیں ۔ جب آپ ہوائی سفر کریں تو اتنی بلندی سے زمین کی طرف دیکھ کر سمندر کے اس مقام کی گہرائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
اس کے بعد ہم پہنچتے ہیں 10994 میٹر گہرے سمندر میں جو کہ اب تک کی دریافت کردہ سمندر کی گہری ترین جگہ ہے۔اس کو ماریانا ٹرینچ کہا جاتا ہے اور یہ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنا بے حد ضروری ہے کہ یہ اب تک کا دریافت کیا جانے والا سمندر کا گہرا ترین حصہ ہے اور ابھی تک انسان نے سمندر کا صرف 5 فی صد حصہ ہی دریافت کیا ہے۔ جبکہ 95 فی صد حصہ دریافت کرنا ابھی باقی ہے۔ شاید آنے والے دور میں ہم اس سے بھی کہیں زیادہ سمندر کے گہرے حصے دریافت کریں اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہاں ہمیں کون کون سی مخلوقات ملیں گی۔