Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 14, 2020

بہتر ‏یہی ‏ہے ‏وقت ‏کی ‏رفتار ‏تھام ‏لے۔۔۔!!!!




از / سرفرازاحمدقاسمی(حیدرآباد )
برائے رابطہ  8099695186

                صداٸے وقت 
==============================

              سرزمین بھارت کا چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ  اس بات پر شاہد عدل ہے کہ  مکرو فریب ،عیاری ومکاری کےذریعے  انگریزوں  نےجب ا س ملک پر قبضہ کرلیا،اس  سرزمین  پر جب انکا ناپاک سایہ پڑا اور وہ یہاں  کےسیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے تو  سب سےپہلے فرنگی اقتدار  کےخلاف  علم بغاوت  بلند کرنےوالے کوئی  اور نہیں  وہ ہم ہی ہیں،بھارت کے مسلمانوں  نے ہی سب سے پہلے آزادی کی تحریک  چلائی ،راستے کی قربت ودوری سے بےفکر ،ذہنی وفکری پریشانیوں  سےلاپرواہ اور ہرقسم کےخطرات وساوس سے بےخبر ہوکر ملک کی آزادی کو تلاش کرنے میں  ہم نےپھانسی کے پھندوں  تک کو چومااور پھر ہرطرح کی قربانی دی ، کسی قسم کی قربانیوں  سے کوئی  دریغ نہیں کیا،اس ایک طویل عرصے تک ہمیں  جدوجہد کرنی پڑی  اور صدیوں  کی غلامی کےبعد  ہماری قربانیوں  کے نتیجے میں  15اگسٹ 1947 کو ہمارا یہ ملک بھارت    انگریزی  اقتدار  سےآزاد ہوا،اور ہمیں آزادی کی فضاء  میں سانس لینے کاموقع نصیب ہوا،پھر ہمارے بڑوں  نے یہ سوچ  سمجھ  اور غوروفکر  کے بعد طے کیاکہ   اس ملک میں بسنے والے مختلف ادیان  ومذاہب  اور نظریات  وعقائد کے حامل  کروڑوں  ہندوستانی  ،خود مختار وآزاد ملک کا فائدہ اٹھاسکیں گے،ہرمذہب کے لوگوں  کومکمل حقوق  دیے جائیں گے،اور مذہبی  شناخت  کےساتھ  اس ملک کاہرباشندہ  آزاد ملک کی آزاد فضاء  میں  چین و سکون  کی زندگی گزارسکےگا،لیکن افسوس  کہ  ہمار ے بڑوں  کو اس بات کا کیاعلم تھا کہ جس آزادی  کےلئے ہم  نے ہرطر ح کی قربانیاں  پیش کی ،کچھ برس گذرنے کے بعد یہ ملک یہاں  کے مسلمانوں  کےلئےایک دوسری غلامی ثابت ہوگی،انھیں اگر یہ خبر ہوتی تو شایدپھر وہ کبھی اسکے کئے تیار نہ ہوتے اور بھارت کو آزاد نہ کراتے،ملک عزیز کو آزاد ہو ئے 73 سال کا عرصہ ہوچکاہے اس  درمیان  اگرمختلف پارٹیوں  اور حکومتوں  کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا اور لکھنا پڑے گاکہ  آزاد بھارت میں بھی مسلمان  غلامی ہی کی زندگی بسر کررہے ہیں، جس  طرح ہم آزادی سے پہلے غلامی کی زندگی  بسرکررہےتھے ٹھیک  آزادی کے بعد بھی ہمیں  غلام سمجھا گیا،آزادی سے پہلے جسطر ح  انگریز حکومت   نے لاکھوں  میں مسلمانوں  کو جیل میں ڈالاتھا اب بھی لاکھوں  مسلم نوجوان   قید ہیں،1919 میں  جلیاں  والا باغ  کادلخراش منظر  اگر انگریزوں  کے سر ہے تو  47 کے بعد ملک بھر کے ہزاروں  فسادات  میں    گجرات  اور دہلی بھی شامل ہے جسکا سہرا آزاد بھارت کی   مختلف  فرقہ پرست پارٹیوں  اور حکومتوں  کےسربھی ہے،اس سے بڑھکر یہ اب تو مسلم پرسنل لاء میں  بھی  دخل اندازی کردی گئی ،طلاق بل لایاگیا ،مسجدیں چھینی جارہی ہیں،مسلمانوں  کوملک بدر کرنےکےلئے سی اے اے اوراین آرسی جیسا سیاہ قانون  پاس کیاجارہاہے،نفرت  کی فضاء   پوری شدت کے ساتھ پیدا کی جارہی ہے،ہمارے مذہبی شناخت کو مکمل طور ختم کرنے کی  پوری منصوبہ  بندی کرلی گئی ہے،گویا کہ  چاروں  جانب سے مسلمانوں  کےلئے اس ملک کی سرزمین  کوتنگ کیاجارہاہے،اسی بھارت میں  مسلمانوں  نے تقریباً  ایک ہزار سال تک حکومت  کی ہے لیکن  کبھی ایسی صورتحال  پیش نہیں آئی، بھارتی مسلمانوں  کےلئے اتنابراوقت کبھی نہیں آیا،جتناآج ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اپنے دوراقتدار میں ،مسلمانوں  نے اس  ملک کو کچھ نہیں دیا بلکہ بہت کچھ  دیاہے،جسکی گواہی آج بھی اس سرزمین کا چپہ چپہ دےرہاہے،ابھی بھی اس بھارت میں جو کچھ باقی ہے یہ سب مسلمانوں ہی  کادیا ہوا ہے،73 سال  کو چھوڑ کر اگر ہم صرف 6 سال کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ محسوس  کرناپڑےگا کہ ملک کی فضاء  بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہی ہے،کل تک جو لوگ  مسلمانوں  کے دوست سمجھے جاتےتھے آج  کہیں نہ کہیں   انکے دلوں میں نفرت پیداکردی گئی ہے،حالات کتنے نازک ہوچکے ہیں کہ بعض علاقوں  میں مسلمانوں  کو غیر مسلم ہاسپٹل میں علاج کی سہولت  سےمحروم کیاجارہاہے،ماب لنچنگ کے ذریعے اب تک  تقریبا 250 ڈھائی  سو لوگوں   کو نشانہ   بناکر انھیں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،جس  میں اکثر مسلمان  ہیں،دادری کے اخلاق سےشروع ہونےوالا لنچنگ کا یہ سلسلہ  ابھی ختم نہیں ہواہے،آج جس وقت  یہ تحریر  لکھی جارہی ہے،دوتازہ واقعات  24 گھنٹے کے اندر پیش آئے اور دونوں  کاتعلق بہار سےہے،ایک کا سہر سہ سے اوردوسرے کا ضلع گیاسےہے،یہ  دونوں  واقعات کتنے افسوسناک  ہیں اس سے آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ  لگائیں،پہلا واقعہ  بہارکے سہرسہ ،گاؤں  میں ایک عالم دین ،مولاناجسیم الدین رحمانی   کےساتھ جمعہ یعنی 12 جون کو صبح 9بجے پیش آیا،انکو ایک بھیڑ نے گھیرلیا،اورکروناوایرس  پھیلانے کاالزام لگاکر  شورمچایا گیا پھر جب  25/30 ہندو شدت پسند جمع ہوگئے تو ان پر حملہ کیاگیا اور بری طرح سے پیٹاگیا،وہ اس وقت شدید زخمی ہیں اور ہاسپٹل  میں زیرعلاج ہیں،یہ خبر جیسے ہی سوشل  میڈیا پر وائرل ہوئی،میں نے حقیقت جاننے کےلئے  متاثرین   سےرابطہ کیا تواس  افسوسناک  سانحہ کی تفصیل کچھ اسطرح بتائی گئی کہ" ہمارے گاؤں میں  اکثریت غیرمسلم کی ہے،صرف چارپانچ گھر ہی مسلمانوں  کے ہیں ،وقتاً  فوقتاً  یہ لوگ  اکثر ہونےکی وجہ  سے جھگڑا  کرنےکاکوئی نہ کوئی  بہانہ تلاش کرتے رہتےہیں،جسکی اطلاع  یہاں کے پی ایس کو بھی ہے،کبھی ہم لوگوں  کاراستہ بند کردیاجاتاہے اور کبھی  کچھ،کبھی کچھ ،تازہ واقعہ یہ ہواکہ  ہمارے گھرکے بچوں  اور غیرمسلموں  کے بچوں  میں لڑائی  ہوگئی،ہم سمجھا بجھاکر معاملہ ختم کردیا،لیکن مولاناجسیم  صاحب جو  گاؤں سے کچھ دور دوسرے گاؤں میں  پڑھاتے ہیں اور امامت بھی کرتے ہیں، وہ  اسوقت  گھر پر نہیں تھے جب بچوں  کی لڑائی  ہوئی،انکو معلوم  بھی  نہیں تھاکہ گھر میں کیاہواہےکیانہیں ، وہ اپنی مسجد سے گھرآرہےتھے کہ راستے میں  لوگوں  نےانھیں  گھیر لیا اور ان پرحملہ کردیا جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئے،انکی حالت ابھی نازک ہے اور علاج چل رہاہے"یہ ہے اس واقعے کی حقیقت  جو متاثرین  کے ذریعے  مجھے فون  پربتلایاگیا،کیا آپ  اسکی سنگینی کاتصور کرسکتے ہیں؟بچوں  کی لڑائی  بڑوں   تک پہونچ  جائےگی اور  پھر اسطر ح انتقام کی   لہر پیداہوجائےگی،اسکانتیجہ کیا ہوگاآپ جانتے ہیں؟ان لوگوں  نے مجھے یہ بھی بتایا کہ  یہاں   پولس اسٹیشن میں  ہماری ایف آئی آر بھی  درج نہیں کی جارہی ہے الٹے ہم لوگوں  کوہی دھمکایاجارہاہے،اورمزید کارروائی  کی دھمکی دی جارہی ہے،یہ تو ہے سہرسہ کاواقعہ ایک دوسرا واقعہ  بہار کے ضلع گیاکاہے،11جون  بروزجمعرات ،گاؤں گھریانواں،بھریتی  تھانہ وزیر گنج میں  ،شام کے وقت  یادو برادری کے ظالم وجابر متشدد لوگوں نے  ایک  غریب کمزور   خاندان  سےتعلق رکھنےوالے  مسلم فیملی پر چاقو سے حملہ کردیا،ان درندوں  نے پوری فیملی کو نشانہ  بنایا ،یہاں  کہ ضعیف   عورتوں   اوربچوں  کوبھی نہیں بخشا،بڑی سنگدلی سے زدوکوب  کیا،جسکی وجہ سے ممتاز انصاری  کو بہت گہرازخم لگاہے،انکی حالت تشویشناک  ہے،محمددلشاد اور محمدشمشیر کاسرپھاڑکر،ہاتھ توڑ دئے ہیں،مریم نامی خاتون  کے سرمیں  گہری چوٹ آئی ہےگھرکاکوئی فرد محفوظ  نہیں،آخر اس حادثے کی وجہ کیاہے ؟ہم نے جب اسکی تحقیق کی تو یہ معلوم  ہواکہ ایک ہفتہ قبل گھر کےکنارے سےجانےوالے  راستہ کے تعلق سے دونوں  فریق میں بحث ہوگئی،مسلمانوں  نےپولس میں شکایت بھی درج کرائی،لیکن اس گاؤں میں بھی مسلم گھرانوں  کی تعداد  انتہائی  کم ہونےکی وجہ سےیادوبرادری نے کمزوری  کافائدہ اٹھاکر یہ کہہ کر حملہ کردیاکہ تم لوگ  پولس اسٹیشن کیوں گئے؟پورے گھرکےلوگ لہولہان  ہیں جسکی ویڈیو  سوشل میڈیاپرگشت کررہی ہے
یہ دو تازہ واقعہ میں  نے یہاں  ذکر کردیاہے آپ اس واقعے سےاندازہ لگائیں  کہ ماحول  میں کس قدر نفرت  وتعصب کازہرگھول دیاگیاہے،کیاآپ کو لگتاہے کہ یہ نفرت  وعداوت آسانی کے ساتھ ختم  ہوجائےگا بلکہ آنے والے دنوں میں حالات اس سے بھی نازک اور سنگین ہوں گے،اب سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول  میں ہم کیاکریں ؟ مسلمانوں  اس وقت کیاکرناچاہئے؟،تواسکا جواب یہ ہےکہ اب ہمیں خاموشی  تماشائی رہنے کے بجائے   اپنی ترجیحات  متعین  کرنےہونگے حکمت عملی  مرتب  کرنی ہوگی، غفلت ولاپرواہی سےاوپراٹھ کر  ہمیں بیدار  اور چوکنارہنا ہوگا،ورنہ پھر "آج وہ کل ہماری باری ہے"کاانتظار  کرناہوگا،یہ  بات تو طے  ہے کہ تقسیم کے موقع پر جن لوگوں  کو جاناتھا وہ چلے گئے، اب ہمیں ہرحال میں اپنے اسی ملک میں رہناہے،لیکن اسکےلئے اپنی ترجیحات  طےکرنےہونگے ،خواب  غفلت سے بیدار  ہوکرآنکھیں کھولناہوگا،ملک کی حساسیت  اور ماحول  کی زہر ناکی  پر توجہ رکھنی ہوگی ،تب کہیں جاکر ہم اس ملک میں رہ پائیں گےورنہ تو پھرگاجرمولی کی کاٹے جائیں گے پھر ہمیں کوئی  بچانےوالا اورہماری آوازسننےوالاکوئی نہ ہوگا،مجھے یہ کہنے میں کوئی  جھجھک نہیں کہ آزادی کے بعد اب مسلمانوں  نے انتہائی غفلت ولاپرواہی  کامظاہرہ  کیاہےجسکی وجہ سے آج ہمیں  یہ دن دیکھنے پڑرہے ہیں،ہمیں جوکام اور جوخدمات آزادی  کےبعد  انجام  دینی چاہئے ہم  نے اس سےپہلوتہی اختیار کیاہے،میرے خیال میں کچھ  چیزیں  وہ ہیں  جنکوہمیں  اپنا مشن بنانے کی ضرورت ہے،چندچیزوں  کاذکر یہاں کیاجارہاہے
1 اپنی صفوں  میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت  ہے،اور ایسے لوگ  جوانتشار پیداکرناچاہتےہیں انکا سماجی بائیکاٹ  کیاجائے،اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی  طرح  متحد ومتفق ہونے کی ضرورت ہے،
2خدمت خلق کو  اپنامشن منانے کی ضرورت  ہے،اسلام نےمخلوق کی خدمت  کو اہم عبادت قرار  دیاہےلہذا اس پر ہمیں توجہ دینی چاہئے،خدمت خلق کے جذبے سے اپنے اسکول  وکالج کے علاوہ بڑی تعداد  میں ہاسپٹل   کےقیام کی شدید  ضرورت  ہے اور ہرضلع میں ایک ایسا  مسلم ہاسپٹل  ضروری ہے جو عصری سہولیات سے آراستہ ہو،مسلمانوں  میں ایسے لوگوں  کی کمی نہیں ہے جنھیں اللہ تعالی نے خوب نوازاہے،اوروہ اکیلے کئی کئی ہاسپٹل  بہترین طریقے سےچلاسکتے ہیں،اگر ایسا نہ  ہوسکے تو کچھ  لوگ مل کر اسطر ح کاکام کریں،تاکہ اسطر ح  کی جو خبریں  ملک کے مختلف  حصوں  سےآتی رہتی ہیں کہ مسلمان  ہونے کی وجہ سے  ہاسپٹل  میں ایڈمٹ  نہیں کیاگیا یامسلمان ہونے کی  وجہ سے انکے  ساتھ تعصب سے کام لیاجاتاہے،
اس پربہت حد روک لگےگی۔
3غیر مسلموں  میں اسلام کی دعوت  عام کرنے کی اسوقت  شدید ضرورت  ہے تاکہ جو لوگ  ہمارے دشمن بن گئے ہیں  انکو دوست بنایاجاسکے اور حالات کوتبدیل کیاجاسکے،اس طرف  خصوصی  توجہ  اور اس میں   کثیرسرمایہ لگانےکی ضرورت ہے۔
4ملک میں آج جو حالات ہیں  اور جس تیزی کے ساتھ اسے مسلم مخالف بنایاگیاہے اس میں   میڈیا نے انتہائی  اہم کرداراداکیاہے ،اس  خلیج کو پاٹنے کےلئے   مسلمانوں  کا میڈیاہاؤس  بہت  ضروری ہے،افسوسناک  بات  یہ ہےکہ  مسلمانوں  کی اتنی بڑی  تعداد  ہونےکےباوجود ہمارے پاس قومی سطح کا کوئی اخبار تک نہیں ہے،ہمیں اس پر بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت  ہےکہ میڈیاہاؤس کاخواب شرمندۂ  تعبیر کیسے ہو؟ اوراسکو عملی جامہ  کیسے پہنایاجائے؟
اسکے بغیر حالات کوموافق نہیں بنایاجاسکتا،
5 جب تک ہمارے پاس میڈیا ہاؤس  نہیں ہے تب تک ہم کم ازکم سوشل میڈیا کوہی اپنا ہتھیار  بنالیں  اور اسکو اپنے مشن کےطور پراستعمال کریں  بجائے اسکے کہ آج ہماری اکثریت  سوشل میڈیا  کامنفی استعمال  کررہی ہے اور بہت سے لوگوں  کوتوسوشل میڈیاکی اہمیت کااندازہ  ہی نہیں، حالانکہ یہ اللہ تعالی کی جانب سے بہت بڑی  نعمت ہے،اگرہم اسکادرست اور مثبت استعمال  کرنےلگیں تو کافی حدتک  میڈیاہاؤس کی کمی پوری کی جاسکتی ہے،
یہ چندباتیں ابھی ذہن میں آئی اسکو عرض کیاگیاہےاس امیدکےساتھ کہ قوم کے دردمند حضرات  اور دانشوران ملت اس پر غور فکرکریں گے اورمیری یہ صدابصحرا ثابت نہ ہوگی۔مسلمانوں  میں ابھی ایسے بہت سے لوگ  ہیں  جنھیں اللہ تعالی نے بےپناہ دولت سے نو از ررکھاہے،حکومتی فنڈ کے لئے بڑی  بڑی رقم دیدیتے ہیں،مگرجب ان سے یہ معلوم  کیاجائے کہ آپ نے اپنی قوم کےلئے کیاکیااور کون سی یادگار چھوڑ ی ہے جس سےقوم  کےلوگ فائدہ اٹھاسکیں؟توشاید وہ کوئی ایساجواب نہ  دےسکیں جواطمینان بخش ہو،بہت سے ایسے لوگ  اب  بھی  ہیں اور تاریخ کی کی کتابوں  میں بھی محفوظ  ہیں  جنکی خدمات اورکارنامے یقیناً  قابل رشک ہیں،پنجاب کاایک شہر جالندھر ہےوہاں ایک  "لولی" نام کی یونیورسٹی  ہے،بہت بڑے رقبےمیں وہ یونیورسٹی  پھیلی ہوئی ہے،یہ یونیورسٹی  "لولی"نام کے ایک شخص نےقائم کی ہے جو کسی زمانے میں ٹھیلے پرپانی پوری اور چاٹ بیچتاتھا،
وہ ترقی کرتاگیا یہاں تک  کہ اب پورے شہر میں مٹھائی  سے لیکر موٹر پارٹس  تک کے بڑے بڑے شوروم  انھیں کے ہیں اورسب لولی کے نام سے ہیں،انکواپنی قوم کی فکر تھی  انھوں  نے اپناسرمایہ  انسانی  فریضہ  سمجھتے ہوئے  قوم کے مستقبل کی تعمیر پرلگادیا،جسکی وجہ آج ہزاروں  بچے اس   سےفائدہ اٹھارہے ہیں اورتعلیم حاصل کررہےہیں ،ہمارے یہاں بھی مسلم سرمایہ  داروں  کی ایک لمبی فہرست ہےان میں کئی ایک ایسے ہیں  جوخود میڈیکل اوردواسازی سے جڑے ہوئے ہیں  مگرکتنے لوگوں  نے آج تک کتنی یونیورسٹیاں  بنائیں ؟آئی ٹی آئی اور دوسرے تعلیمی ادارے تودور کی بات  کتنے لوگوں   اورکتنی مسلم تنظیموں  نے ملٹی اسپیشلیٹی ہاسپٹل  قائم کئے؟کیاقوم کو اسکی ضرورت  نہیں ہے؟
حکیم عبدالحمید  صاحبؒ ان میں سےہیں  جنھوں  نے ہمدرد  وقف کاصحیح استعمال  کرتے ہوئےجامعہ ہمدرد ،مجیدیہ ہاسپٹل  جیسا قیمتی ادارہ قوم کودیا،ایسے ہی شہر حیدرآباد میں  سالارملت  صلاح الدین اویسی  نے"اویسی ہاسپٹل"قائم کیا،ایسےہی بنگلور ،حیدرآباد ،کیرلہ اورجنوبی  ہندکے دوسرے شہروں  میں کچھ ہاسپٹل   اورتعلیمی ادارے قائم ہیں  لیکن کیا یہ کافی ہیں؟
آج جب اخبارات  اور سوشل میڈیا  پریہ خبریں  آتی ہیں  کہ  مسلم مریضوں کو  یہ کہہ کر ہاسپٹل  سے واپس کردیاجاتاہےکہ تم مسلمان  ہواسلئے تمہارا  علاج یہاں نہیں  ہوگاتو دل  صدمے سے دوچارہوجاتاہے،ملک میں آج بھی بڑے بڑےہاسپٹل ،اپولو،یشودھا،میکس فورٹیز،وغیرہ  سب غیرمسلموں کےہیں آخرمسلمانوں کےپاس بھی تو سرمایہ  ہے مسلمان ان چیزوں میں اپناسرمایہ کیوں خرچ نہیں کرتے؟
بہرحال یہ وقت  انتہائی  نازک ہے اوراس میں ہمیں اپنی  ترجیحات  کاتعیین کرناہوگاجسکی جانب کسی شاعر نے بھی رہنمائی  کی ہےکہ 
بہتر یہی  ہے  وقت کی  رفتار تھام لے
کس کس کو اپنے غم کی کہانی  سنائےگا

(مضمون  نگار کل ہند معاشرہ  بچاؤ تحریک  ،حیدرآباد  کےجنرل سکریٹری  ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com