Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 19, 2020

نیر ‏سلطان ‏پوری۔۔۔۔۔۔فکر ‏و ‏فن ‏

گہر بن جائے دامن پر نہ ایسے اشک غم نکلے
ہماری طرح بد قسمت زمانے بھر میں کم نکلے۔
(نیر سلطانپوری فکر و فن)
          نیر سلطانپوری ( 14 اکتوبر 1908 ....15 اگست 1985 ).

از/ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)/صداٸےوقت۔
         ڈاکٹر فیاض احمد علیگ۔

مذکورہ شعر میں نیرؔ سلطانپوری کی پوری زندگی اور شاعری کی داستان موجود ہے جس میں قسمت کی ستم ظریفی اور زمانے کی نا قدری کادرد بھی نمایاں ہے۔قسمت کی ستم ظریفی اپنی جگہ جس کی بظاہر وجوہات تلاش کرنا سعی لا حاصل ہے لیکن زمانے کی ناقدری کی وجوہات ہر دور میں یکساں رہی ہیں جس میں سماجی ،معاشی، اخلاقی ،فکری و فنی عناصرکے ساتھ دیگر بہت سے عوامل بھی شامل ہوتے ہیں
کسی ادیب ،شاعر یا فنکار کی تخلیق کا تجزیہ اور اس پر تبصرہ سے قبل اس کے ادبی وتخلیقی عناصر کا تجزیہ ناگزیر ہو تا ہے ۔کسی بھی ادبی تخلیق میں، شاعر و ادیب کاادبی و سماجی ماحول، اس کی علمی لیاقت اور اسکی زبان و بیان پر دسترس، اس کے بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ ان عناصر کے ساتھ ہی چند بنیادی عوامل بھی شاعر یا ادیب کی شہرت و مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیق و تخلیقی صلاحیت پر اثر انداز ہوتے ہیں مثلاً اس کے معاشی حالات، پیشہ ورانہ تعلقات، گلو کاری و اداکاری، پروپیگنڈے میں مہارت، گاڈفادر کی سرپرستی اور ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کا مزاج،جیسا کہ عام طور سے سیمینار، کانفرنس اور مشاعروں میں ہوتا ہے۔

شاعر یا فنکار کی تخلیقات اور اس کی تخلیقی صلاحیت میںتخلیقی عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جبکہ عوامل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی شاعر یا فنکارکو دونوں بیک و قت میسر ہوجائیں تو وہ نابغہ روزگار بن جاتا ہے۔ لیکن شہرت و مقبولیت کے لئے اکثر و بیشتر بنیادی عناصر کے بجائے بنیادی عوامل زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیںجن کے سہارے بے صلاحیت انسان بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے اور تمام بنیادی عناصر کے حامل اصل شاعر و فنکار بے موت مر جاتے ہیں یا بعض اوقات انہیں میں سے کچھ بے چارے قوت لا یموت کے لئے اپنی تخلیقات کچھ گویوں، متشاعروں اور خواتین کو کبھی قیمتاً تو کبھی مفت میں دینے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کی بدولت متشاعر، گویے اور نوٹنکی باز شاعری کی الف ب سے واقفیت کے بغیر، ملکی و بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ شہرت دیر پا نہیں ہوتی اور اصل شاعرکے مرتے ہی یہ متشاعر بھی بے موت مر جاتے ہیں۔
نیرؔ سلطانپوری کا المیہ یہ رہا کہ ان کے اندر تمام بنیادی تخلیقی عناصر تو موجود تھے لیکن شہرت کے بنیادی عوامل سے وہ تمام عمر نابلد رہے۔ یہی وجہ رہی کہ وہ تمام عمر اشعار کے موتی تو رولتے رہے لیکن ان موتیوں کے طلبگار و خریدار ان کو نہ مل سکے۔ فن کے قدردان ان کو میسر نہ ہو سکے، جو ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کے فکر و فن کی بھی پذیرائی کرتے۔
نیرؔ سلطانپوری نے شاعری کا آغاز ہائی اسکول کے دوران ہی کر دیا تھالیکن ان کی شاعری کو صحیح سمت و رفتار اس وقت ملی جب وہ لکھنو میں قیام پذیر تھے۔ اس دوران وہ صفیؔ لکھنوی سے متاثر ضرور تھے لیکن پتہ نہیں یہ ان کی انانیت تھی یا خود اعتمادی کہ انہوں نے صفیؔ لکھنوی تو کیا، کسی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے نہیں کیا۔ کسی کو باقاعدہ اپنا استاد نہیں بنایا۔ کسی کو گاڈ فادر تسلیم نہیں کیا۔ کسی گاڈ فادر کے بغیر ترقی اور شہرت کی بلندی تک پہنچنا اور کسی استاد کی رہنمائی کے بغیر فن پر عبور حاصل کرنا سب کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتاہے۔ حالانکہ مجروح ؔسلطانپوری سے ان کے دوستانہ مراسم تھے اور مجروحؔ بھی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ مجروح ؔجب بھی سلطانپور آتے ان کا قیام نیر ؔسلطانپوری کے یہاں ہی ہوتا
مجروحؔ نے بارہا نیرؔ کو بمبئی بھی بلانے کی کوشس کی لیکن نہ جانے کیوں وہ کبھی جانے کو تیار نہ ہوئے۔ مجروح ؔسے تعلقات اور اپنی ادبی شاعری کی بدولت نیرؔ کو بحیثیت شاعر بارہا مشاعروں میں بھی شرکت کا موقع ملا لیکن ان کا المیہ یہ رہاکہ پتہ نہیں وہ سوشل فوبیا کے شکار تھے یا خود اعتمادی کی کمی تھی؟ وہ اپنے اشعار اسٹیج پر خود نہیں پڑھتے تھے بلکہ اپنے ساتھ ترنم سے پڑھنے والے کسی بچے کو لے جاتے تھے جو ان کی غزل کو ترنم سے اسٹیج پر پڑھتا تھا۔حالانکہ اچھی شاعری تحت اللفظ بھی پڑھی اورسنی جاتی ہے اور اکثرباذوق سامعین اسے پسند بھی کرتے ہیں۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ عوامی مشاعروں کی جاہل بھیڑ جو عموماً مشاعرہ دیکھنے آتی ہے وہ یا تو خواتین (چاہے جیسی بھی ہوں)کو دیکھتی و سنتی ہے یا پھر ترنم او ر نوٹنکی پسند کرتی ہے۔شاید اسی کمی کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی مترنم لڑکے کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے مگر جس طرح بیساکھی کے سہارے کوئی طویل مسافت طے نہیں کی جاسکتی بالکل اسی طرح نیرؔ سلطانپوری کا بھی وہی حشر ہوا اور معقول شاعری کے باوجود وہ شہرت و مقبولیت کے بجائے گمنامی کے اندھیروں میں کہیں گم ہو گئے۔
شاعری در حقیقت فطری،الہامی اور وجدانی کیفیت کا نام ہے لیکن وہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس الہام اور وجدان کو تخلیقی پیکر عطا کرنے اورشعر میں ڈھالنے کے لئے علمی لیاقت، فنی مہارت اور مستقل مشق سخن کے ساتھ ہی کسی استاد کی سر پرستی و رہنمائی بھی اکثر نا گزیر ہوتی ہے تاکہ اس کی تخلیقی رو کو صحیح سمت و رفتا رمل سکے۔ بقول شاعر

ذرا سا ٹیک جو دیتے تو سخت ہو جاتا
کچھ ہی دنوں میں یہ پودا درخت ہو جاتا

شاعری میں نیرؔ سلطانپوری کی حیثیت بھی ایک خود رو پودے کی رہی جو درخت تو ہوئے لیکن تناور درخت نہ بن سکے۔ ان کی شعری تربیت، ان کی تراش خراش اور ان کی پرورش و پرداخت اس انداز سے نہ ہو سکی جس طرح ایک لان کے پودے کی ہوتی ہے۔ کسی استاد کی رہنمائی اور گاڈ فادر کی سر پرستی کے بغیر انہوں نے اپنی راہیں خود نکالیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ’’ایک آنچ کی کمی ‘‘واضح طور سے محسوس ہوتی ہے۔
نیرؔ سلطانپوری ضلع سلطانپور کی تحصیل مسافر خانہ کے ایک قصبہ ایسولی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید احمد علی تھا جبکہ نیر ؔکا پورا نام سید توکل حسین نیرؔ سلطانپوری تھا۔ نیرؔ کی ابتدائی تعلیم ایسولی میں ہوئی جبکہ انٹر میڈیٹ فیض آباد سے کیا۔ اس کے بعد بی اے لکھنو یونیورسٹی جبکہ ایم اے (اردو)آگرہ یونیورسٹی سے کیا۔

نیرؔ کی اہلیہ کا نام طاہرہ خاتون تھا جو کبھی ماں نہ بن سکیں۔ اولاد کی خواہش میں انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے پوتے سید عاصم رضا کو گود لے لیا تھا۔ اس وقت عاصم رضا ہی نیر ؔسلطانپوری کے تمام اثاثوں کے وارث اور ان کی علمی و ادبی وراثت کے امین ہیں۔
نیر ؔسلطانپوری نے لکھنو کے دوران قیام (۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۸ء تک) حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ سرفراز پریس میں ملازمت بھی کی اور۱۹۳۵ء سے کئی برسوں تک ایک ادبی رسالہ ’’فردوس‘‘ (لکھنو) کی ادارت بھی کرتے رہے۔۱۹۳۹ء میں جب وہ ایم ایس وی کالج سلطانپورمیں اردو، فارسی و انگریزی کے لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے تو فردوس کی ادارت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
۱۹۵۹ء میںانہوں نے ایک ادبی ماہنامہ ’’شمع ادب‘‘ سلطانپور سے جاری کیا جو پا بندی سے ان کی ادارت میں۱۹۷۰ء تک شائع ہوتا رہا۔ مذکورہ دونوںرسالوں کی نوعیت، ان کی ادبی حیثیت اور ان کا معیار کیا تھا؟ اس کا تو مجھے علم نہیں۔ ان رسائل کی علمی و ادبی حیثیت سے قطع نظر، اس دور میںکوئی اردو رسالہ نکالنا اور اس کی اشاعت کو سالہا سال تک تسلسل کے ساتھ برقرا رکھنا ہی بہت بڑا کارنامہ ہے جس کا کریڈت صرف نیرؔ سلطانپوری کو جاتا ہے کہ انہوںنے مالی مشکلات کے باوجود سالہا سال تک اس چراغ کو روشن رکھا۔
ملازمت سے سبکدوشی کے بعد نیرؔ کے مالی حالات کچھ زیادہ ہی ناگفتہ بہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی اس تنگدستی کو دیکھتے ہوئے، ڈاکٹر شارب ؔردولوی اور ڈاکٹر شمیم ؔحنفی نے ان کی مالی معاونت کے لئے اردو اکیڈمی اتر پردیش کی جانب سے پہلے ۱۵۰ روپئے ماہانہ اور پھر بعد میں ۵۰۰ روپئے ماہانہ پنشن جاری کرائی۔ اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو نے بھی وقتاً فوقتاً بحیثیت مترجم ان کی خدمات حاصل کیں۔ اس طرح ان کے مالی حالات کافی بہتر ہوگئے۔
نیرؔ سلطانپوری کے اندر درس و تدریس اور شعر وادب سے دلچسپی کے ساتھ ہی، خدمت خلق، انسانیت و رواداری، اخوت و محبت اور ہمدردی کا جذبہ بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا اور مالی تنگدستی کے باوجود اپنے گھر پر بچوں کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ہی نو آموز شعراء کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ خدمت خلق اور انسانیت و ہمدردی کے تحت ہی انہوں نے اپنا آبائی مکان اپنی حیات میں ہی ’’ابتدائی حفظان صحت مرکز‘‘کے لئے وقف کر دیا تھا جہاں آج بھی وہ قائم ہے۔
نیر ؔسلطانپوری کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ پہلا مجموعہ ’’انوار عرفاں‘‘ ۱۹۷۵ء میںفخر الدین علی احمد کمیٹی لکھنو کے تعاون سے شائع ہوا۔ اس میں حمد،نعت اور منقبت شامل ہیں۔دوسرا مجموعہ ’’ریزہ مینا‘‘بھی فخر الدین علی احمدکمیٹی کے تعاون سے ما رچ ۱۹۸۵ء میںشائع ہوا جو دراصل ان کی غزلوں اور کچھ نظموں کا مجموعہ ہے۔ ہندوستان کی قدیم مردہ پرستی کی روایت کے مطابق اس مجموعہ پر اردو اکیڈمی لکھنئو کی جانب سے پس از مرگ اعزاز سے نوازا گیا۔
اول الذکر مجموعہ یعنی ’’انوار عرفاں‘‘ جو اب نایاب ہو چکا ہے اور میرے پاس بھی موجود نہیں ہے اس لئے ان کی مذہبی شاعری پر کوئی رائے قائم کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ہاں! موخرالذکر یعنی غزلوں کا مجموعہ ’’ریزہ مینا‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے اور زیر نظر مضمون میں صرف اسی کے حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔
نیر ؔنے جس دور میں شاعری کا آغاز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی اور ترقی پسندیت کے بعد انہوں نے جدیدیت و ما بعد جدیدیت کو بھی بہت قریب سے دیکھا لیکن وہ کسی سے بھی متاثر نہ ہوئے اور کوئی بھی تحریک یا کوئی بھی ازم ان کا کچھ بگاڑ نہ سکا۔ وہ تمام عمر اسی قدیم روایتی غزل کے اسیر رہے۔ زبان و بیان میںسلاست و روانی،سادگی و شگفتگی اور اشارات و کنایات کے ساتھ موضوعات کے لحاظ سے ان کی شاعری میں امید و بیم، یاس و حرماں نصیبی،عزم و حوصلہ کے ساتھ ساتھ خمریات کا موضوع بھی نمایاں ہے۔ زندگی کے اتارچڑھاوُ، ذاتی تجربات و مشاہدات،قلبی جذبات و احساسات اورزمانے کے تغیرات کو بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے شاعری کا پیکر عطا کیا ہے۔
کوئی بھی شاعر یا فنکار کسی ایک زمانے کے حصار میں محدود نہیں رہ سکتا بلکہ اس کا تعلق بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل سے ہوتا ہے۔ وہ ماضی کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں حال کو تابناک اور مستقبل کو خوشگوار بنانے کی کوشس کرتا ہے اور اس کا یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے۔ 
۔ نیرؔ کی شاعری میں ماضی کی تابناکی، حال کی بدحالی اور مستقبل کی امیدیں اشارات و کنایات کی صورت میں موجود ہیں جیسا کہ نیر ؔسلطانپوری ’’ریزہ مینا‘‘ کے پیش لفظ میں خود رقمطراز ہیں:۔
’’ریزہ مینا ہمارے قارئین کو یقیناًپسند آئے گا اس لئے کہ اس میں ماضی سے ربط بھی ہے حال سے وابستگی بھی ہے اور مستقبل کی آئینہ داری بھی ہے۔اقتصادی اور سماجی حالات پر تبصرہ بھی ہے اور سیاسیات عالم کی بے راہ روی پر تنقید بھی۔ کنایات و اشارات کے اندر وہ روح بھی ملے گی جو معاشرے کو زندگی عطا کرتی ہے۔ ہر مقام پر کشاکش حیات کے وہ نقوش بھی ملیں گے جنہوں نے مجھے پایان عمر تک پہنچا دیا ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیرؔ کی شاعری بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کی آئینہ دار ہے۔ اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے ہو ئے وہ حال کو تابنا ک بنانے کی تمنا کرتے ہیں مگر حالات اسقدر دگر گوں ہو چکے ہیں کہ صرف ماضی کی یاد ہی ممکن ہے اس کو واپس لانا تو دور کی بات اس کے دھندلے نقوش کو ذہن نشیں رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔دنیا کی تاریخ لکھنے والے خوداپنی ہی تاریخ بھول گئے۔

جو دور میںتھا کل وہی ساغر اٹھایئےماضی کو بھی شریک تمنا بنایئے
ماضی کی وہ دلکش رات نہیں وہ صبح نہیں وہ شام نہیں
یا ہم کو زمانہ بھول گیا یا ہم ہی زمانے بھول گئے
اب ہوش میں بھی بیہوشی ہے اب کیف میں بھی بے کیفی ہے
دنیا کا فسانہ کون کہے اپنا ہی فسانہ بھول گئے
تو جہاں چاہے وہیں گردش دوراں رک جائے
تیرے ہاتھوں میں زمانے کی عناں ہے ساقی
ذرا ماضی سے کہیے یاد رفتہ لے کے آ جائے
حقیقت بنتی جاتی ہے کہانی دیکھیے کیا ہو

درحقیقت شاعر و ادیب اسی سماج کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی جڑیںاسی سماج میں پیوست ہوتی ہیںاس لئے سماج کی عکاسی اور اس کے مسائل و معاملات کی ترجمانی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قلبی واردات اور ذاتی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی اور سماج کی اچھائیاں اور برائیاں بھی اس کی تخلیقات میں شعوری و لاشعوری طور پر در آتی ہیں۔ نیر ؔسلطانپوری بھی اپنے عہد کے جیتے جاگتے حساس اور بیدار مغز انسان تھے جو زندگی کے تمام مسائل سے جوجھتے ہوئے اپنی شعری کائنات تخلیق کرتے رہے۔

ان کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو ان کی حرماں نصیبی ہے جس کے باعث ان کی شاعری میں حزن و یاس کی کیفیت نمایاں طور سے محسوس ہوتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کادکھوں سے رشتہ رہا ہے۔ نیر کی زندگی میں تمام عمر دکھوں کا ایک اژدہام رہا ہے،ان دکھوں کا جو انہیں قسمت نے دئے، ان دکھوں کا جو انہیں حالات نے دئے، ان دکھوں کا جو انہیں اپنوں نے دئے، ان دکھوں کا جو انہیں غیروں نے دئے ان دکھوں کا جو انہیں سماج اور معاشرے نے دئے، ان دکھوں کا جو انہیں ہم عصروں سے ملے۔ ان تمام ذاتی دکھوںکے ساتھ ساتھ نیر غیروں کے دکھ بھی خود اوڑھتے رہے اور درد کی ٹیسوں کو انگیز کرتے ہوئے دل کی کسک کو غزل کے رنگ میں ڈھالتے رہے۔ قسمت کی ستم ظریفی اور زندگی کی تلخیوں کااثر ان کی شاعری میںواضح طور سے محسوس ہوتا ہے۔

اپنوں کے لئے جیتا ہے کبھی غیروں کے لئے مرتا ہے کبھی
دل اپنا بڑا غم پرور ہے، غمگین بھی ہے غم خوار بھی ہے۔
درد تھا پہلو نشیں اپنا تھا یا بیگانہ تھا
خود ہی کی پردہ دری خود محرم افسانہ تھا

آلام روزگار سے نیر ؔہے بے نیاز
غم آشنا سرشت ہے صبر آزما مزاج

حادثات دہر ہیں نیرؔ بڑے ہمت شکن
زندگی دشوار سی ہے راہ پر خم کی طرح

نیرؔ سلطانپوری کی شاعر ی میں ان کی ذاتی زندگی کی اتھل پتھل کے ساتھ قوم و ملک کے حالات، سماجی، معاشی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی کشمکش کابیانیہ ہے۔ زندگی کے مسائل اور حادثات زمانہ نے ان کی شاعری کو سنجیدگی عطا کی ہے۔ان کے مزاج میں متانت و بردباری پیدا کی ہے، ان کے فکر و فن کو گہرائی و گیرائی بخشی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبدالباری

’’نیرؔ صاحب اردو شعراء کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک رچی ہوئی تہذیب،ایک بالیدہ ثقافت اور اقدار و روایات کے ایک مستحکم نظام کی آغوش میں پروان چڑھی تھی۔ ان کے یہاں ایک کلاسیکی مزاج موجود ہے۔وہ اپنے تغزل کو زمانے کے لئے تفریح طبع کا سامان نہیں بنانا چاہتے وہ فکر انگیز شاعری کے قائل ہیں۔اعلی ادب کی تخلیق کے لئے اعلی درجہ کی متانت اور خلوص درکار ہوتا ہے۔‘‘

بلا شبہ نیرؔ کی متانت اور ان کا خلوص ’’ریزہ مینا‘‘ میں شامل ہے۔ ان کی شاعری دل کے درد، غزل کے رنگ، اودھ کی تہذیب اور انسانی اقدار وروایات کی ترجمان ہے۔انہوں نے محض تفریح طبع کے لئے لب و رخسار اور عارض و گیسو کو غزل کا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ اخلاقی اقدار وروایات کو ترجیح دی ہے۔ زندگی کے حادثات اور دشواریوں سے وہ گھبراتے نہیں بلکہ عزم اور حوصلہ کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں اور عشق کو راہنما بناتے ہیں۔ انہوں نے زندگی اور شاعری دونوں کو با مقصد بنایا ہے۔

لغزشیں منزل رسا تھیںہر قدم مستانہ تھا
دامن مقصد نہ چھوٹا لاکھ میں دیوانہ تھا

عشق نے کر دی عطا جراٗت فرزانگی
مجھ سا دیوانہ سمجھ لیتا ہے دیوانے کی بات

شاعر یا فنکار کا اپنے ماحول اور گرد و پیش کے حالات سے گہرا رشتہ ہوتا ہے اور جب وہ اپنے گرد و پیش کا سنجیدگی سے جائزہ لیتا اور ایمانداری سے ان حالات کا تجزیہ کرتا ہے تواس پر خود احتسابی کی کیفیت طاری ہوتی ہے جو اسے عرفان ذات سے آشنا کراتی ہے لیکن عرفان ذات کا یہ سفر اتنا آسان بھی نہیں ہوتا اس کے لئے بڑے حوصلے اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر عرفان ذات تو دور کی بات ادنی شعور بھی بیدار نہیں ہوسکتا۔کچھ لوگوں کے اندر حوصلہ تو ہوتا ہے لیکن سلیقہ نہیں ہوتا جبکہ کچھ لوگوں میں سلیقہ ہوتا ہے لیکن حوصلہ بالکل نہیںہوتا۔ جس کے اندر حوصلہ اور سلیقہ دونوںہو تا ہے اسی کے سر میں سودا اور دل میں تمنا بیدار ہوتی ہے، وہی عرفان ذات و عرفان کائنات کی دولت سے مالامال ہوتا ہے اور وہی فنکار اچھے فن پارے تخلیق کر سکتا ہے۔ عالم دیوانگی میں جراُت فرزانگی بھی درکار ہوتی ہے۔ نیرؔ سلطانپوری عشق کی نیرنگیوں، امید ویاس کی کشمکش، جیب و گریباں کی فکر، تسکین جنوں کے وسائل اور زندگی کے مسائل سے جوجھتے ہوئے عرفان و آگہی سے ہمکنار ہوئے۔
چیرہ دستئی خرد نے کبھی موقع نہ دیا
مدتوں میرا جنوں فکر گریباں میںرہا

تسکین جنوں کے ہیںابھی اور مراحل
اک چاک گریباں ہی بڑا کام نہیں ہے

عشق کا سوز دروں ہے علم و عرفاں کی دلیل
جو خودی سے ہو گریزاں اس جہانبانی سے ڈر

نیرؔ کی شاعری میں حسن و عشق کے جذبات کے ساتھ ساتھ راہ عشق کی مشکلات بھی ہیں،حسن کی بے نیازی بھی ہے اور عاشق کا جذبہ مستانہ بھی ہے، داخلی کیفیات کے ساتھ خارجی امکانات بھی رمز و کنائے کی صورت میں موجود ہیں۔بقول ڈاکٹر سید محمد عقیل

’’نیرؔ سلطانپوری دراصل فطری شاعر ہیں۔وہ جذبات کی باز آفرینی ہی کو اصل شاعری سمجھتے ہیں جو ان کے تجربات عشق کے بیخ و بن میں سرائت کئے ہوئے ہے۔عشقیہ شاعری، منطقی تعمیر اور تعبیر کی تلاش احساسات کی ان روُوں کو اسیر نہیں کر سکتی جس سے شاعر گذرتا ہے۔اس لئے شاعر کے محسوسات ہی کو عشقیہ شاعری میں اہمیت ہوتی ہے۔نیر صاحب کے محسوسات قاری کے ساتھ متحرک رہتے ہیں اور ان کی شاعری کا کلاسیکی انداز قاری کو اپنی گرفت میں لئے رہتا ہے۔‘‘

کیا کیا نہ ہوا ابروئے خمدار کے پیچھے
مرتا ہے زمانہ اسی تلوار کے پیچھے
عقل و خرد، صبر و سکوں، ہوش وتمنا
برباد ہوئے سب لب و رخسار کے پیچھے
کس کس کو خرد ہوش کی زنجیر پنہائے
دیوانی ہے دنیا نگہ یار کے پیچھے
عشق کو پہنایئے رمز و کنایہ کے لباس
کھل کے ان سے نامہ و پیغام ہے زحمت طلب
برملا اظہار عشق سے اگر ایک طرف عاشق کی خودی مجروح ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف برملا نامہ و پیام سے محبوب کی آبرو پر بھی حرف آنے کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے برملا اظہار عشق کے بجائے رمز و کنایہ کی صورت میںہی حسن و عشق دونوںکی بھلائی ہے۔ عشق کا سوزدروں اور دل کی تڑپ ایک دن حسن کو اپنا گرویدہ بنا ہی لے گا۔

سر بلند عشق ہوا کتنی تگ و تاز کے بعد
چرخ قدموں پہ گرا ہے مری پرواز کے بعد

پی جاوُں گا میں شوق سے زہراب غم عشق
ہاں ! تم کو مرے سر کی قسم لاوُ ادھر لاوُ
یہ بار گراں جن و ملک سے نہ اٹھے گا
کونین میں ہوں جتنے بھی غم لاوُ ادھر لاوُ
دیکھیں نیاز عشق کی جب بے نیازیاں
تب جا کے حسن یار نے سمجھا مرا مزاج

بالآخر ان کے سوز دروں اور جذبہ عشق نے حسن کو سرنگوں کر ہی لیا۔ ان کی خودی و خود اعتمادی ان کے کام آ ہی گئی۔ان کی شاعری میں حسن و عشق کی کشمکش کا بھی بڑا خوبصورت بیانیہ موجود ہے۔

ہے حسن سراپا خود بینی اور عشق ہمہ تن خودداری
وہ میری طرف آنے سے رہے میں ان کی طرف جانے سے رہا

مطمئن دونوں کہ ہم نے جیت لی بازیُ عشق
ان کا حسن اپنی جگہ میری نظر اپنی جگہ

مضطرب ہوں دیکھیئے کیا ہو مآل کار عشق
میرا دل اپنی جگہ، شام و سحر اپنی جگہ
عشق کی بے تابیوں،حسن کی رنگینیوں اور حسن و عشق کی اسی کشمکش نے ان کی غزلوں کو تغزل عطا کیا ہے اور لا شعوری طور پر ان کی غزلوں میں حسن تغزل در آیا ہے۔

وہ گھنی پلکیں جو بوجھل تھیں وقار حسن سے
مری چشم شوق سے مل کر جھکیں پہلے پہل
معلوم ہے سب زلف پریشاں کی حقیقت
زلفوں کو تری تا بہ کمر دیکھ چکا ہوں
ساقی ترے ساغر کو کہوں کفر کہ ایماں
گرنا بھی ستم اور اٹھانا بھی قیامت
تم جا کے کہاںمحفل اغیار میں بیٹھے
چاہوں جو بلا لوں تو بلانا بھی قیامت
دل میں اتار لیتا ہوں عکس جمال یار
اک بار دیکھ لیتا ہوں پھر دیکھتا نہیں
پیش نظر تم ہی ہو تمہارا ہی عکس ہے
اس دل کے آئینہ میں کوئی دوسرا نہیں

عشق کی تڑپ، دل کا سوز، محبوب کا تصوراور عکس جمال یار کی روشنی انہیں حوصلہ دیتی رہی اور اسی کے سہارے وہ زندگی کے سفر کو خوشگوار کرتے رہے۔ انہوں نے خرد کے بجائے جنوں سے کام لیا۔

مری خاکستر دل سے بنا لو آفتاب نو
نہ ظلمت کاٹ پائے گی سحر کی روشنی تنہا
نہ جب تک ہم سفر ہوں گے خلوص و عزم مستحکم
تمنا طے نہ کر پائے گی راہ عاشقی تنہا
جہاں میں دار و رسن کا جو اہتمام نہ ہو
وفا کے رنگ میں پیدا کبھی دوام نہ ہو
رنگ لائی اضطراب شوق کی یکسانیت
رفتہ رفتہ جھک رہا ہے آسماں میری طرف

اضطراب شوق اور عزم مستحکم کے سہارے وہ زندگی کی کشمکش اور غم روزگار سے جوجھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔آلام روزگار اور کشاکش حیات کی عکاسی ان کی شاعری میں جابجا موجود ہے۔

کبھی تو کارواں کے ساتھ رہ کر اور کبھی تنہا
میں ہر منزل پہ کھاتا ہوں فریب زندگی تنہا

نیرؔ سکون موت ہے طوفاں ہے زندگی
وہ موج ہی نہیں جو آشفتہ سر نہ ہو

خندہُ گل بھی غلط گریہ شبنم بھی فریب
راس آیا ہے کسے سیر گلستاں کرنا

اے زخم جگر آخر اصرار مداوا کیوں ہے
تو خود ہی دوا بن جا تڑپانے سے کیا حاصل

’’ سکون موت ہے اور طوفاں ہے زندگی ‘‘کے اصول پر نیرؔ تمام عمر طوفانوں سے ہی نبرد آزما رہے۔ ان کی خودی و خودداری نے کسی کا احسان لینا گوارا نہ کیا۔ کسی اور کا منت کش احساں ہونے کے بجائے خود ہی اپنے درد کو دوا کرتے رہے۔

آپ رکھے رہیں پاس اپنے ہی احساں اپنا
درد وہ کیا کہ جو کر پائے نہ درماں اپنا

رفتہ رفتہ ضبط غم کر دے 
فرط غم اور زندگی کے نا مساعد حالات سے گھبرا کر عموماً لوگ شراب کا سہارا لیتے ہیں یا کسی اور لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تاکہ تھوڑی دیر کے لئے سہی کچھ غم غلط کر لیںلیکن نیرؔ سلطانپوری نے کبھی کسی چیز کا سہارا نہیں لیا اس کے باجود ان کی شاعری میں خمریات کا رنگ موجود ہے۔او ر انہوں نے اس موضوع پر بے شمار اشعار کہے ہیں۔ اس موضوع پر ان کے اشعار کو پڑھتے ہوئے ماہر خمریات ریاضؔ خیرآبادی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں

اپنی توبہ نہ توڑ اے نیرؔ
ٹوٹ جائیں گے و رنہ جام بہت

ہے مرے پیش نظر حسن طلب کی آبرو
ہم نہ کچھ کہتے جو ہوتی صرف پیمانے کی بات

یہ تو کہیئے چشم ساقی تھی بہت موقع شناس
پھیلتی ساغر بہ ساغر ورنہ میخانے کی بات

اک ذرا موقع اگر دیں صاحبان میکدہ
ہم لب ساقی سے پوچھیں چل کے پیمانے کی بات

واعظ ناداں کے کہنے سے میں توبہ کر تو لوں
ہاں ! مگر ساقی سے بھی ہے عہد و پیماں کوئی چیز

ساغر کے ساتھ اٹھتی ہے ساقی پہ بھی نگاہ
ایماں نے کچھ تو پایا ہے تر دامنی سے فیض

کھلتے ہیں لغزشوں سے ہی اسرار میکدہ
پاتی ہے آگہی بھی مری بے خودی سے فیض

نیرؔ کی شاعری میں اخلاقی پہلو بھی موجود ہے خاص طور سے صنف نازک کی بے راہ روی اور گھر کی زینت بننے کے بجائے بازار کی رونق بن کر اپنی آبرو کو خطرے میں ڈالنا ہر دور میںانتہائی اہم اور نازک مسئلہ رہا ہے جس سے ہر سنجیدہ اور باشعور انسان کڑھتا ضرور ہے لیکن ان کو روکنا اور ان کو اس روش سے باز رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور رہاہے۔ نیرؔ نے اپنی شاعری میں اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوسکا اور ان کی صدا بھی صدائے باز گشت بن کر رہ گئی۔ اس موضوع پر نیرؔ کے چنداشعار ملاحظہ ہوں۔

بیٹھے بٹھائے نکہت گل کو کیا ہوا
آوارگان دشت کا اپنا لیا مزاج

تزئین حسن کو ہے نئے پیچ و خم کی فکر
زلفیں تلاش کرتی ہیں شانے نئے نئے

جنوں شاید خرد کے ہاتھ سے دامن چھڑائے گا
زمانہ کچھ کہے لیکن ہوا کچھ اور کہتی ہے

گلوں کی چاکدامانی سے ہمدردی مسلم ہے
عنادل کی مگر طرز ادا کچھ اور کہتی ہے

شکووں کا محل تو جب ہو گا کچھ ابر چھٹے کچھ دھوپ کھلے
برہم ہے مزاج حسن ابھی،ایسے میں نہ کوئی بات کرو

نیرؔ کو بھی اندازہ تھا کہ موجودہ حالات اور ماحول میں ان کی باتوں کا کچھ اثر ہونے سے رہا اس لئے خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے اور شاید اسی وجہ سے انہوں اس موضوع پر زیادہ کچھ نہیں کہا۔

نیرؔ نے جس دور شاعری کا آغاز کیا اس وقت ملک غلامی کی زنجیروں میں قید تھا اور آزادی کے متوالے مکمل آزادی کے لئے سر گرم عمل تھے۔ ملک میں ہر طرف جنگ آزادی کے نعرے لگ رہے تھے لوگ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ نیرؔ نے اس دور کو بھی بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے بعد جب ملک آزاد ہوا تب بھی نیرؔ با حیات تھے یعنی انہوں نے آزادی سے ما قبل و ما بعد دونوں حالات کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا۔ سیاسی کشمکش، قوم و ملت کی بدحالی اور ملک آزاد ہونے کے بعد بھی غلامی جیسے حالات کی ترجمانی نیرؔ نے بڑی خوش اسلوبی سے ’’ریزہ مینا‘‘ میں کی ہے۔ آزادی سے قبل کی صورت حال چند اشعار میں ملاحظہ ہو۔

کیا کہیئے جہاں لب کا ہلانا بھی قیامت
حال دل مجبور سنانا بھی قیامت

یہ کیسی ہوائیں ہیں تری راہگذر میں
امید کی اک شمع جلانا بھی قیامت

جو چپ رہوںنیرؔ تو خموشی ہو مصیبت
آواز خلاف ان کے اٹھانا بھی مصیبت

نشیمن کو قفس سمجھے قفس کو آشیاں سمجھے
بڑی مشکل سے جا کر ہم مزاج باغباں سمجھے

جو نہ دور ہوںقفس سے نہ قریب آشیاں سے
وہ ڈریںگے کیا عنادل کبھی جور آسماں سے

آزادی کے متوالوں نے طویل جد و جہد کے بعد بالآخر ملک کو آزاد کرا ہی لیا لیکن یہ آزادی بھی کھوکھلی ثابت ہوئی جس آزادی کا خواب مجاہدین آزادی نے دیکھا تھا، جس کے لئے جان و مال کی قربانیاں دی تھیں وہ آزادی توخواب ہو کر رہ گئی جس کا اظہار کم وبیش تمام شعراء نے اپنے اپنے انداز واسلوب میں کیا ہے۔ نیرؔ سلطانپوری بھی اسی ملک اور سماج میں رہتے تھے انہوں نے بھی قربانیاں دی تھیں انہوں نے بھی خاک اور خون کے مناظر دیکھے تھے انہوں نے بھی تقسیم کا درد جھیلا تھا اس لئے ان کی شاعری میں بھی وہ درد و کرب لاشعوری پر در آیا جو ہر حساس اور بیدار دل کو مضطرب کرتا ہے۔

شک مجھے ہوتا ہے آئین چمن بندی پر
باغباں جس کو سمجھتا ہوں وہ صیاد نہ ہو

قائم ہے ابھی تک ربط کہن،یہ فرض شناسی خوب رہی
آزاد پسندوں کے دل پر یہ مہر غلامی خوب رہی

غیروں کو تکلف ہے تو اپنوں کو تامل
در اصل ترے در پہ نگہباں ہی غلط ہے

ملک آزاد تو ضرور ہو گیا لیکن آزادی کے بعد ملک کے جو حالات ہوئے۔ جس انداز سے لوگ اقتدار پر قابض ہوئے۔ مذہبی تعصبات کو جس طرح ہوا دی گئی وہ واقعی قابل مذمت و قابل افسوس کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ نیر ؔکی شاعری میں سیاسی ادھیڑ بن،رہنماوی بے راہ روی اور منافقت،ایوان اقتدار کی بے حسی، عوام کی بے بسی اور ملک کی بد حالی کے تمام مناظر بیک وقت موجود ہیں۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

بدلی تھی گلستاں کی ہوا کوئی نہ بولا
ہر گل نے سنی میری صدا کوئی نہ بولا

کی چرخ نے ہم پہ جفا کوئی نہ بولا
تاروں نے سنی میری نوا کوئی نہ بولا

تقدیر گل و لالہ پہ روتی رہی شبنم
دامان سحر چاک ہوا کوئی نہ بولا

گل کے بھی زباں تھی پہ خموشی کا یہ عالم
کیا کچھ نہ گلستاں میں ہوا کوئی نہ بولا

جس وقت فغاں میری صنم خانوں میں پہنچی
کہنے کو ہر اک بت تھا خدا کوئی نہ بولا

جب دل کی گرہ کھلنے کی بات آگئی نیر
بنتے تھے سبھی عقدہ کشا کوئی نہ بولا

اس طرح کے بہت سے اشعار نیر ؔکے مجموعہ کلام میں موجود ہیںجو ملکی، ملی اور قومی سیاست کو بڑی خوبصورتی سے کہیںاشاروں کنایوں میں تو کہیں برملا، کبھی غزلوں میں تو کبھی نظم کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔

نیرؔ نے قطعات اور نظمیںبھی لکھی ہیں۔ زبان اور موضوع کے لحاظ سے ان کی نظمیں سادہ لیکن دلوں کو جھنجھوڑنے والی ہیں۔زندگی کے مسائل، قوم و ملک کی بدحالی، اخوت و محبت، ہمدردی و رواداری وغیرہ ان کی نظموں کے اہم موضوعات ہیں۔ــــ’’شہر نگاراں ‘‘ ’’رقاصہ‘‘ ’’اتحاد نظر‘‘ ’’چلنے سے پہلے‘‘ ’’زلزلہ عظیم ‘‘ ’’چندرما‘‘ ’’زندگی کے ساتھ چل ‘‘ ’’صفر اورشاعر‘‘ ’’ زندگی اور موت ‘‘ ’’نیا موڑ‘‘ ’’نور و ظلمت‘‘ وغیرہ ان کی ایسی ہی نظمیں ہیں، جن میں زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ جذبات و احساسات کی حرارت بھی موجود ہے۔ غزل نما نظم ’’چلنے سے پہلے‘‘ میں ماضی کی عظمت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

عظمت قوم کا احساس جگا لیں تو چلیں
آج روٹھے ہوئے ماضی کو منا لیں تو چلیں

ہے محبت پہ ہی مستقبل بھارت کا مدار
خار نفرت کے جو بکھرے ہیں ہٹا لیں تو چلیں

نیر ؔسلطانپوری کے صاحبزادے (متبنی)سید عاصم رضا کے مطابق نیرسلطانپوریؔ نے جنگ آزادی کے دوران اپنی پر جوش شاعری کے ذریعہ آزادی کے دیوانوں میں جوش بھرنے کا کام کیا تھا۔ان کے مطابق ان کی نظم ’’آزادی کی ریل ‘‘اس وقت نوجوانوں میں بہت مقبول تھی لیکن افسوس کہ ان کی اتنی مشہور نظم ان کے مجموعہ کلام ’’ریزہ مینا‘‘ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی کہیں اور مجھے مل سکی جبکہ اس نظم کو نمایاں طور پر اس مجموعہ میں شامل ہونا چاہیئے تھا۔مجھے امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اگلی اشاعت میںسید عاصم رضا اس نظم کوضرور شامل اشاعت کریں گے۔ بہر کیف۔۔۔۔۔۔ نیر ؔ سلطانپوری نے آزادی اور آزادی کے بعد ملک میں ہونے والے تغیرات و تعصبات کو اپنی نظموں میں بڑی خوبصورتی و خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ نظم کے وسیلے سے محبت کو عام کرنے اور نفرت کو سمیٹنے کی کوشس کی ہے۔ چنانچہ ان کی نظمیں’’ کل اور آج ‘‘ ’’ وقت کی پکار‘‘ ’’عید جمہور‘‘ ’’عالمی ایکتا‘‘ ’’سنہرا ساحل‘‘ ’’صلح تاشقند‘‘ ’’ ناخدائے قوم سے خطاب‘‘ وغیرہ اسی طرح کی نظمیں ہیں۔صلح تاشقند کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

عشق نے پائی فتح جنوں پر مل بیٹھے دیوانے دو
اپنی حد میں لوٹ رہے ہیں عالم کے فرزانے دو

ہند و پاک کا جھگڑا کیا مخمور تمنا کی شورش
پہلے دونوں ایک ہی تھے اب ایک سے ہیں پیمانے دو

اصلاً نسلاً دونوں ہندی ایک تصور ایک مزاج
ایک زباں ہے ایک ہے عنواں کہنے کو افسانے دو

صلح اسے حل کرتی ہے جو جنگ نہیں کر پاتی
قل وخرد کی راہ یہی ہے دشمن کو بہکانے دو

نیرؔ سلطانپوری نے اپنی کچھ نظموں میںانگریزی الفاظ و اصطلاحات اور ہندی لفظیات کابھی استعمال کر کے ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے شاعری کو نیا رنگ دینے کی کوشس کی ہے۔ چنانچہ ’’زندگی اور موت‘‘ میں انہوں نے بہت سے انگریزی الفاظ جیسے پاسپورٹ، ڈائری، بارڈر، چیک، فورٹ، رپورٹ، کورٹ، سپورٹ وغیرہ۔اسی طرح نظم’’ ہندی اردو ‘‘ اور’’ہائی اسکول اینڈ انٹر بورڈ‘‘ میںانگریزی الفاظ و ہندی لفظیات کی بھر مار ہے مثلاً بورڈ، سائنس، کلرک، فیل، نیشنلائز، ایگریکلچرل، ٹیکنیکل، کمپلسری، جیون، گھٹنا، ساہتیہ، درپن، چھاتی، کلیان، بھاشا،اپمان، گیان، انیوارئے، پریم نگر، مان، ہان، پریمی، شاشن، گن گان، کیول، بھارتی، پریکچھا، نیم، شکچھا، جنتا، وشئے، سمئے، بیوپار، لکھت، بھجاوُں، آشا وغیرہ۔
مذکورہ الفاظ واصطلاحات کے استعمال سے ان کی شاعری کا رنگ مزیدچوکھا ہونے کے بجائے اور پھیکا ہو گیا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن پر فی الوقت بحث ممکن نہیں۔ علم و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی ہر میدان میں روز نئے نئے تجربات ہوتے رہتے ہیںاور انہیں تجربات کے نتیجہ میں نئی دریافتیں بھی وجود میں آتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیںکہ ہر تجربہ کامیاب ہو یا ہر تحقیق کا نتیجہ مثبت ہو،اس کے باوجود علم و فن کی ترقی کے لئے تجربات کا مسلسل ہوتے رہنا ضروری ہے ورنہ علم و فن جمود و تعطل کا شکار ہو جائیں اور کوئی نئی صنف اور کوئی نئی ایجاد ممکن نہ ہو سکے۔ تجربہ کامیاب ہو یا ناکام دونوں ہی صورتوں میں تجربہ کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔نیر سلطانپوری کے مذکورہ تجربہ کی بھی ان کی حیات میں حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے تھی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا ورنہ عین ممکن تھا کہ وہ مزید اورمسلسل تجربے کے بعد کسی مثبت نتیجہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو کر اردو ادب میں قابل قدر اضافہ کر سکتے جیسا کہ بیکلؔ اتساہی، ند ا ؔ فاضلی اور دیگر شعراء نے ہندی اردو کے آمیزے سے شاندار ادب تخلیق کیا۔

نیر سلطانپوری فکر و فن نیر سلطانپوری فکر و فن نیر سلطانپوری فکر و فن نیر سلطانپوری فکر و فن

نیرؔ سلطانپوری کے دیوان ’’ریزہ مینا ‘‘ میں کچھ کمزور اشعار بھی شامل ہیں جن پر شاید وہ نظر ثانی نہ کر سکے تھے اور رواروی میں وہ تمام اشعار بھی شامل اشاعت ہو گئے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو اس لئے کہ کسی بھی فنکار کی نظر میں اس کی تخلیقات اپنی اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہیں خواہ وہ اچھی ہو ںیا بری۔ اس موقع پر مجھے جاہلی دور کے مشہور و معروف شاعر ابو تمام کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جسے اس دور کے تمام تذکرہ نگاروں نے نقل کیا ہے کہ۔

’’ ایک مرتبہ ابو تمام ؔنے کسی شاعر کو اپنا ایک قصیدہ سنایا جو عمدہ ترین اشعار پر مشتمل تھا بجز ایک شعر کے کہ وہ کچھ گرا ہوا تھا۔ قصیدہ سن کر وہ ابو تمام ؔسے بولا، اے ابو تمامؔ ! اگر آپ قصیدہ سے یہ شعر نکال دیتے تو آپ کا قصیدہ عیب سے پا ک ہو جاتااور اس کا حسن دوبالا ہو جاتا۔ تو ابو تمام ؔنے کہا کہ یہ تو میں بھی جانتا ہوں مگر عزیز من ! شاعر کے نزدیک اس کے اشعار کی مثال اولاد کی سی ہے کہ اس میں خوبصورت و بد صورت، ذہین و غبی سبھی قسم کے ہوتے ہیں مگر باپ کو جہاں فاضل بیٹے سے محبت ہوتی ہے وہیں ناقص سے بھی قلبی تعلق اور گہرا لگاوء ہو تا ہے‘‘۔

ہو سکتا ہے یہی سوچ کر نیرؔ سلطانپوری نے بھی اپنے تمام اشعار ’’ریزہ مینا ‘‘ میں جمع کر دئے ہوں۔یا ایسا بھی ممکن ہے کہ جب انہوں نے کسی کو اپنا استاد تسلیم ہی نہیں کیا تو ہو سکتا ہے کسی کی اصلاح اور تنقید بھی ان کے لئے قابل قبول نہ رہی ہو۔۔ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو لیکن اس حقیقیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ ناقص اشعار کی موجودگی سے نیر سلطانپوری کی شاعری کا حسن اور معیار دونوں متاثر ہوا ہے۔ان خامیوں کو اشاعت سے قبل دور کیا جا سکتا تھالیکن اپنی تعریف انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔ شاید نیرؔ صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کے مجموعہ کلام کو بغیر پڑھے اس پر معتبر ناقدین فن و اہل قلم حضرات نے حسب معمول چند تعریفی کلمات لکھ کر نہ صرف ان کو گمراہ کیابلکہ ان کی خامیوں پر بھی پردہ ڈال دیا، ورنہ شاید وہ اس پر نظر ثانی کر تے ہوئے اپنی اصلاح خود کر لیتے۔ سید عاصم رضا سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اگر اس کی دوسری اشاعت کا منصوبہ رکھتے ہوں تو اس پر نظر ثانی ضرور کریں گے۔ میری یہ باتیں ہو سکتا ہے کہ سید عاصم رضا کے ساتھ ہی نیرؔ سلطانپوری کے دیگر اعزہ و اقرباء کو بھی بار خاطر ہو۔ ان کے لئے معذرت۔ بقول جون ؔایلیا کہ


جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں

میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں۔