Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 29, 2020

بلریا ‏گنج ‏مظاہرہ۔۔۔کیا ‏کھویا ‏کیا ‏پایا؟



از/ عبید الله طاہر فلاحی/ صداٸے وقت/اعظم گڑھ/عبد الرحیم صدیقی۔
==============================
٧
مرکزی حکومت نے جب CAA کا سیاہ قانون پاس کیا اور NRC کے تعلق سے اپنے ارادے ظاہر کیے اُسی وقت سے ملک بھر میں اِس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 فروری 2020ء کو بلریاگنج کے جوہر پارک میں خواتین نے مظاہرہ شروع کر دیا۔ لیکن بلریاگنج میں ہونے والے اور ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں اور مظاہرین میں کئی نمایاں فرق تھے۔
دہلی، لکھنؤ اور دیگر جگہوں پر ہونے والے مظاہرے بہت منظّم اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہے تھے، انہیں نیشنل میڈیا کی بھرپور کوریج مل رہی تھی جس کی وجہ سے حکومت ان کے خلاف کوئی پُرتشدد کاروائی کرنے سے ڈر رہی تھی، وکلاء اور قانونی ماہرین کی ٹیم موقع پر موجود رہتی تھی جو قانونی پہلوؤں پر نظر رکھتی تھی، علاج معالجے کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم موجود رہتی تھی۔ اس کے بالمقابل بلریاگنج کا مظاہرہ ان سب چیزوں سے خالی تھا۔
دراصل شاہین باغ کو جس طرح سے ملک بھر میں شہرت ملی اور اس کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اس سے دوسری جگہوں پر بھی خواتین کو یہ بہت خوشنما سی چیز لگی، انہیں لگا کہ اس طرح مظاہرہ کرنا تو بہت آسان ہے۔ لیکن ان کی نگاہوں سے دیگر پہلو اوجھل رہے، شاہین باغ میں مظاہرہ کس قدر منظّم اور منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے اور کسی ناگفتہ بہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے وہ خواتین وحضرات کس طرح ذہنی طور پر تیار ہیں انہیں ان حقیقتوں کا ادراک نہیں تھا۔  بلریاگنج کی صورتحال ایسی تھی کہ بیشتر خواتین کو CAA, NRC, NPR کے بارے میں صحیح طور سے کچھ معلوم ہی نہیں تھا، وہ بس اس لیے مظاہرے کے لیے آگئی تھیں کہ شاہین باغ میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ دراصل یہ پورا مظاہرہ غیر منظّم اور غیر منصوبہ بند طریقے سے محض جوش وخروش کی وجہ سے ہوا، لوگوں نے کسی ناگفتہ بہ صورتحال کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا تھا، اس کے لیے نہ ذہنی طور پر تیار تھے اور نہ ہی اس سے نپٹنے کے لیے دوسری تیاریاں کی گئی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد میدان خالی ہوگیا، بلریاگنج کی سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو گئیں اور لوگ اپنے گھروں میں دبک گئے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ شاہین باغ اور دیگر جگہوں کی طرح پولیس کی جارحیت کے خلاف خواتین وحضرات ڈٹ جاتے، لیکن خواتین کو چونکہ یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے اور مردوں نے بھی اس کا تصور نہیں کیا تھا اس لیے اس کی کوئی منصوبہ بندی ہوئی ہی نہیں تھی اور پولیس ایکشن کے بعد لوگوں نے فوراً راہِ فرار اختیار کی۔
پوری صورتحال کا صحیح اندازہ ہمارے والدِ محترم کو بہ خوبی تھا۔ آج ان کو CAA, NRC, NPR کے خلاف ہونے والے مظاہرے کو ختم کرانے میں پولیس کا ساتھ دینے کا طعنہ دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بلریاگنج کے مظاہرے سے چند روز قبل وہ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے مظاہرے میں شریک ہوئے تھے اور حاضرین کو خطاب کیا تھا۔ لیکن بلریاگنج کی صورتحال، عوام کی تیاری، انتظامیہ اور پرشاسن کا رُخ، ان سب کا انہیں بہ خوبی ادراک تھا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ لوگوں کے اندر جوش اور جذباتیت زیادہ ہے، انہیں شاہین باغ کی طرح مظاہرہ ایک ”سبز باغ“ نظر آرہا ہے، لیکن منصوبہ بندی اور آنے والے حالات سے بالکل غافل ہیں۔ 
ایک سچا قائد وہ ہوتا ہے جو حالات کے لحاظ سے قدم اٹھائے۔ اُن حالات میں سب سے اہم اور پہلا کام جو کرنا چاہیے تھا وہ عوام میں بیداری لانے کا تھا، انہیں صورتحال اور CAA, NRC, NPR اور ان کے ہولناک عواقب کے بارے میں باخبر اور آگاہ کرنے کا تھا۔ ہمارے والد صاحب اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے رہے تھے۔ جامعة الفلاح کی مسجد میں جمعہ پڑھنے والے شہادت دیں گے کہ CAA, NRC کا مسئلہ شروع ہونے کے بعد سے ہر جمعہ کو ان کا خطبہ اسی موضوع پر ہوتا تھا۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ گاؤں گاؤں جاکر عوام کو اس مسئلے کے بارے میں بتانے اور ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کا بھی منصوبہ بنایا اور کئی گاؤں میں گئے بھی، لوگوں کو بتایا کہ دھرم اور مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان تفریق کرنا ہندوستانی جمہوریت  اور ہندوستانی عوام سب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، اس سے سبھی لوگ متأثر ہوں گے اور ملک کی ترقی کی راہ میں بھی یہ چیز روکاوٹ بنے گی۔ اس لیے CAA کے سیاہ قانون کو فوراً واپس لیا جانا چاہیے اور NRC کا منصوبہ ترک کردینا چاہیے۔ یہ وہ عوامی بیداری کا کام تھا جسے اُن حالات میں بلریاگنج اور مضافات کی دیہی، پسماندہ اور ناخواندہ بستیوں میں کرنے کی ضرورت تھی اور والد صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے رہے تھے۔ لیکن اسی دوران کچھ جوشیلے نوجوانوں نے 4 فروری 2020ء کو خواتین کو مظاہرے پر بیٹھا دیا، والد صاحب شام کو موقع پر پہنچے، انتظامیہ اور پرشاسن کا رخ اور ارادہ دیکھا تو انہوں نے صورتحال کو بھانپ لیا، خواتین سے اپیل کی کہ ضلع میں دھارا 144 نافذ ہے، ایسے میں بغیر اجازت اکٹھا ہونا ممنوع ہے۔ چونکہ بلریاگنج کی بستی ملک کی مین اسٹریم سے دور ہے، یہاں میڈیا کی وہ کوریج نہیں ہے جو دہلی اور لکھنؤ جیسی مرکزی جگہوں پر پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے حکومت پُرتشدد کاروائی سے ڈرتی ہے، وکلاء اور قانونی داؤ پیچ کے ماہرین کی بھی کوئی ٹیم نہیں ہے، اور پرشاسن کا رخ اور ارادہ بھی اچھا نہیں ہے، وہ لوگ مظاہرے کو ختم کرانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس پوری صورتحال کا والد صاحب کو پورا اندازہ تھا، اس لیے انہوں نے انتہائی دور اندیشی پر مبنی فیصلہ لیتے ہوئے خواتین سے اپیل کی کہ آپ کی بات پرشاسن تک پہنچ چکی ہے، اس لیے اب اس مظاہرے کو ختم کر دیں، لیکن خواتین مظاہرہ ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئیں۔ والد صاحب نے انہیں کئی بار سمجھایا، لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایک بیچ کی راہ بھی نکالی اور یہ تجویز پیش کی کہ اِس وقت مظاہرہ ختم کر دیا جائے اور پرشاسن چند دنوں بعد کسی روز پورا دن خواتین کو احتجاجی پروگرام کرنے کی اجازت دے دے۔ پرشاسن اس بات پر تیار بھی ہو گیا تھا، لیکن خواتین نہیں مانیں۔
یوں تو جنگ کے دوران میدان سے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کو الله کے رسول ﷺ نے گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے [صحیح بخاری 2766، 6857، صحیح مسلم 89]، لیکن اگر کسی حکمتِ عملی کے تحت ایسا کیا جائے تو یہ مستحسن قدم قرار پاتا ہے، خود قرآنِ مجید میں ہے : ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝۱۵ۚ وَمَنْ يُّوَلِّہِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَۃٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰىہُ جَہَنَّمُ۝۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝۱۶ ﴾ [سورۃ الأنفال] ”اے ایمان لانے والو! جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری تو وہ الله کے غضب میں گھر جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ البتہ اگر جنگی چال کے طور پر پیٹھ پھیرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے ایسا کرے (تو یہ قابلِ ملامت نہیں ہے)۔“ اُن حالات میں والد صاحب کا قدم انتہائی دور اندیشی اور بالغ نظری پر مبنی بالکل درست تھا۔ آپ کو بزدلی اور مظاہرہ ختم کرانے میں پرشاسن کا ساتھ دینے کا طعنہ دینے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر آپ قوم اور قوم کی ماؤں اور بہنوں کے ہمدرد اور ان کے تحفظ کے خواہاں نہ ہوتے تو شروع میں ہی جب خواتین نے آپ کی بات ماننے اور دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا اُسی وقت اپنے گھر واپس چلے جاتے اور دوسرے ہمدردانِ قوم کی طرح چادر تان کر سو جاتے۔ لیکن قربان جائیے اپنے قائد پر جس نے اُس مشکل گھڑی میں اپنی ماؤں اور بہنوں کو بے سہارا چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ مؤمن کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے مؤمن بھائی کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا [صحیح بخاری 2442، 6951، صحیح مسلم 2580]۔ والد صاحب نے یہ گوارا نہیں کیا کہ اس مشکل گھڑی میں خود کو صفائی کے ساتھ نکال کر خواتین کو بے سہارا اور بے یارومددگار چھوڑ دیں، بلکہ آخر تک انہیں سمجھاتے رہے کہ میں تمہاری خیرخواہی چاہتا ہوں، اِس وقت اِس دھرنے کو ختم کر دینا اور اپنے قدم پیچھے ہٹا لینا بزدلی نہیں بلکہ حکمت ودانش مندی کا تقاضا ہے۔ بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ آپ کا موقف بالکل درست تھا۔ کاش کہ اُس وقت مظاہرین نے آپ کی بات مانی ہوتی تو یہ ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آیا ہوتا اور ملت کا قیمتی وقت اور سرمایہ مقدمات کی پیروی میں صرف نہ ہوتا۔
بہادری یہ نہیں ہے کہ آپ جا کر اوکھلی میں اپنا سر رکھ دیں، یا یوں کہیں کہ سر کٹا دینا ہی بہادری نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری قربانیوں کا کیا نتیجہ سامنے آرہا ہے، ہم نے اپنے مقصد کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے، اس کے عواقب اور انجام پر ہماری کتنی نظر ہے اور ہماری عوام اس کے لیے کتنی تیار ہے۔ بلریاگنج کے مظاہرے میں یہ ساری چیزیں مفقود تھیں۔ نری جذباتیت کے ساتھ مظاہرہ شروع ہوا تھا، نہ کوئی منصوبہ بندی، نہ انجام پر نظر، نہ اس کے لیے ذہنی اور قانونی طور پر تیاری۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس ایکشن کے بعد میدان خالی، سڑکوں اور گلیوں میں ہو کا عالم، دلوں میں ڈر اور خوف اور 19 معصوم حوالۂ زنداں۔
ان سب کے ساتھ ایک بہت اہم چیز جو ہم نے گنوا دی وہ یہ کہ پولیس اور پرشاسن کے اندر سے ہماری دھاک ختم ہو گئی، پرشاسن کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ ان لوگوں کو گھروں میں گھس کر بھی مارا جائے تو کوئی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ گاؤں کی گلیوں میں داخل ہوتے ہوئے ڈرنے والی پولیس اب لوگوں کے دروازوں کو توڑ کر گھروں میں گھس جا رہی ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ انہیں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں جو پولیس ایکشن سے ڈر کر گھروں میں دبک گئے تھے، اپنے مظلوم بھائیوں کی ظالمانہ گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئے، ان کی مدد کے لیے اکٹھا نہیں ہوئے، ان کے اندر آپسی چپقلش اور دوری پائی جاتی ہے، ان کے ساتھ جیسا سلوک بھی کیا جائے یہ اُف تک نہیں کہیں گے، مظلوم کی مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ ایک ایسا دھرنا جو کُل جماعتی تھا اسے یک جماعتی کا رخ دے دیا گیا اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے مخبری، الزام تراشی اور کذب بیانی کی گئی۔ اس طرح ہم نے خود اپنے آپ کو کمزور کیا، اپنی صفوں میں انتشار پیدا کیا اور پولیس اور پرشاسن کے دلوں میں ہماری جو دھاک بیٹھی تھی وہ ہم نے گنوا دی ہے اور یہ ہماری سب سے بڑی محرومی اور بدنصیبی ہے۔ ہمیں ایک بار پھر آپس میں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لیے اپنے سارے آپسی اختلافات کو بھلا کر ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ مستقبل اور بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں حالات کے صحیح ادراک اور صحیح فیصلہ لینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔