Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 9, 2020

گیان واپی مسجد کاشی اور متھرا عید گاہ معاملہ: عبادت گاہوں سے متعلق 1991کے خصوصی قانون کے دفاع کےلئے اتریں گے راجیودھون.

ورشپ پلیس اسپیشل ایکٹ 1991کو ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہاسنگھ کے ذریعہ چیلنج کرنے کے معاملہ میں ایک بارپھر معروف وکیل راجیو دھون میدان میں ہوں گے۔ راجیو دھون جمعیۃ علماءہند کی جانب سے پیروی کریں گے۔

نئی دہلی:/صداٸے وقت /ذراٸع /١٠ جولاٸی ٢٠٢٠۔
=========================
 ملک بھر میں عبادت گاہوں کی حیثیت کو لے کر بنائے گئے ورشپ پلیس اسپیشل ایکٹ 1991کو ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ کے ذریعہ چیلنج کرنے کے معاملہ میں ایک بارپھر معرو ف وکیل راجیو دھون میدان میں ہوں گے۔ راجیو دھون جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیروی کریں گے۔ کل گیان واپی مسجد کاشی اور متھرا عید گاہ کو لےکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پر سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئے گی۔ سماعت کرنے والی تین رکنی بینچ کی سربراہی بابری مسجد تنازعہ کی طرح ایک بارپھر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ایس اے بوبڈے کریں گے جبکہ جمعیۃ کی جانب سے راجیودھون پانچ رکنی وکلاء کے پینل کی سربراہی کی جائے گی۔ راجیو دھون کے علاوہ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ آکرتی چوبے اور ایڈوکیٹ ایشوریہ سرکار پیش ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق جمعیۃ علماءہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کی جانب سے جاری کی گئی کاز لسٹ (سماعت کے لئے پیش ہونے والے مقدمات کی فہرست) کے مطابق اس معاملہ کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا کریں گے.
عبادت گاہ خصوصی ایکٹ 1991کو وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ کے ذریعہ قانو ن کی دستوری حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اس سے ایک طبقہ کی حقوق سلبی ہوتی ہے۔ تاہم جمعیۃ علماءہند نے ایکٹ کے دفاع میں عرضی داخل کی ہے۔ حالانکہ اس معاملہ میں اول طورپر مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنا ہے، لیکن پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے جمعیۃ علماءہند نے بھی مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے، جس میں جمعیت علماء ( ارشدمدنی گروپ) کی جانب سے گلزار اعظمی قانونی امدادی کمیٹی کو مدعی بنایا گیا ہے۔ جس کا ڈائری نمبر 12395/2020ہے، جمعیۃ علماء ہند کی مداخلت کار کی درخواست کو بھی ہندوسادھووں کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن کے ساتھ سماعت کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔ عدالت اس پر بھی فیصلہ کرسکتی ہے آیا جمعیۃ علماء کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔

عبادت گاہ خصوصی ایکٹ 1991کو وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ کے ذریعہ قانو ن کی دستوری حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اس سے ایک طبقہ کی حقوق سلبی ہوتی ہے۔ تاہم جمعیۃ علماءہند نے ایکٹ کے دفاع میں عرضی داخل کی ہے۔
یہ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا، جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔ تاہم الگ الگ معاملوں میں کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کا حق کسی بھی شہری کو حاصل ہے۔ طلاق سے لے کر شہریت قانون تک بہت سے قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جن پر سماعت ہو رہی ہے۔
جمعیۃ علماءکی عرضی ایکٹ کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھووں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لئے قبول کرلیتی ہے تو ہندوستان کے انصاف وامن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں تشویش پیدا ہوجائے گی۔ کیونکہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمان ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو لے کر فکر مند ہیں۔ نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جمعیۃ علماءکی عرضی ایکٹ کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھووں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول ہی نہ کرے۔
عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہنداہم فریق تھی، جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے، لہٰذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیز اگر ہندو سادھووں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کو عدالت نے سماعت کے لئے قبول کرلیا تو مقدمہ دائر کرنےکا ایک سیلاب آجائےگا، جس کی وجہ سے ملک میں مزید بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔