Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 10, 2020

بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگاہ کا معاملہ: عدالت عظمیٰ میں 4 ہفتوں کے لئے سماعت ملتوی

سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پرسپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی، جس کے دوران عرضی گزار کے وکیل وشنو شنکر جین نے عدالت سے 4 ہفتوں کی مہلت طلب کی کیونکہ سینئر وکیل بحث کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔

نئی دہلی: /صداٸے وقت /ذراٸع / ١٠ جولاٸی ٢٠٢٠۔
==============================
مذہبی مقامات کو لےکر بنائے گئے 1991 کےخصوصی قانون کو چیلنج کئے جانے کا معاملہ 4 ہفتوں کےلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اب 4 ہفتوں کے بعد اس معاملہ میں سپریم کورٹ میں بحث اورسماعت ہوگی۔ آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پرسپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی، جس کے دوران عرضی گزارکے وکیل وشنو شنکر جین نے عدالت سے 4 ہفتوں کی مہلت طلب کی کیونکہ سینئر وکیل بحث کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ دراصل چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا نے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ ودیگر کی جانب سے داخل پٹیشن جس میں انہوں نے 1991 کے یہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ کی قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کئے جانے کے موضوع پر سماعت سننے کےلئے تیار تھے، لیکن عرضی گزار کے وکیل نے بحث کرنے سے معذرت کرلی اور عدالت سے وقت طلب کیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی 4 ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔ حالانکہ جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ) کی جانب سے معروف وکیل راجیو دھون اور چار دیگر وکیلوں کو بھی ایکٹ کے دفاع کے لئےکھڑا کیا گیا تھا۔
دراصل سادھووں کی ایک تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہاسنگھ کے ذریعہ یہ کہتے ہوئے ایکٹ کو چیلنج کیا گیا ہے کہ یہ قانون ہندﺅوں کے خلاف ہے کیونکہ اس قانون کی وجہ سے ہندو - متھرا کی عید گاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد پر دعویٰ نہیں کرسکتے جبکہ وہاں پر مندر توڑ کرمسجد بنائی گئی ہے۔ حالانکہ دوسری جانب جمعیۃ علماء ہند بھی مداخلت کارکی حیثیت سے عدالت میں ہے اور اس عرضی کی مخالفت کر رہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کا کہنا ہے کہ اگراس عرضی کو قبول کرلیا گیا تو ملک میں مسجدوں اورمندروں کو لےکر معاملوں کا سیلاب آجائے گا اور ملک کے امن وامان کو خطرہ ہوگا۔ غور طلب ہے کہ ہندو تنظیمیں متھرا کی عیدگاہ سے لے کرگیان واپی مسجد سمیت بڑی تعداد میں مساجد کے مندر توڑ کر بنائے جانے کا دعوی کرتی رہی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہےکہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے، جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیاد مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے، دوسرے اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی حیثیت کی تبدیلی کو روکتا ہے اور شاید اسی لئے اب اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنچ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ مذہبی عبادت گاہ تحفظ قانون لاکر حکومت نے یہ آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے گی، اس قانون سازی کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ اس کے ذریعہ سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے، لیکن اس کے باوجود عدالت میں سادھوں سنتوں کی ایک تنظیم کے ذریعہ اس قانون کی آئینی حیثیت پر سوال کھڑاکرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ اب اس قانون کی حفاظت کی آئینی ذمہ داری عدالت اور حکومت کی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آئین کی بالادستی کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا حکومت اور عدالت کا کام ہے، ہمیں امید ہےکہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔
یہ خصوصی قانون 18 ستمبر 1991 کو پاس کیا گیا تھا، جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔ اگر اس قانو ن کو غیر دستوری قرار دیا جاتا ہے تو ملک میں بڑی تعداد میں مساجد پر ہندو تنظیمیں ایک بارپھر سے دعوے کر سکیں گی اور ملک کی عدالتوں میں مسجد مندر کے کیس لڑے جائیں گے۔