Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 13, 2020

کفایت ‏شعاری ‏بہت ‏ساری ‏پریشانیوں ‏کا ‏علاج ‏ہے۔۔(قسط ‏4)

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی۔/صداٸے وقت 
============================
شادی بیاہ و نکاح سے پہلے اور بعد کی بے شمار رسم ورواج اور ہندو سماج کی بہت ساری خرافات جن کو ہم نے اب تک باقی رکھا ہے یا اپنا لیا ہے 'جب کہ ان کا دین یا اسلامی ثقافت سے کوٸی تعلق نہیں ہے اور ان پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔ جیسے رشتہ طے کرتے وقت ' نکاح کی تاریخ متعین کرنے کے وقت ' مہندی کی رسم ۔اسی طرح آج لڑکے کی پھوپھی لڑکی کو دیکھنے آرہی ہیں ' کل لڑکے کی بڑی بہن جو ممبٸی رہتی ہیں اور پہلی بار جب لوگ لڑکی کو دیکھنے آۓ تھے ' وہ نہیں آسکی تھیں ' اب وہ دیکھنے آرہی ہیں ۔اس کے بعد دولہے کے بڑے بہنوٸی رہ گیے تھے اب وہ آرہے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ساری خرافات پر ہزاروں روپیے خرچ کیے جارہے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ گھر کے سارے لوگوں کو لڑکی اور رشتہ تو پسند ہے مگر " لڑکے کے پھوپھا کو شکایت ہے کہ لڑکی کے چھوٹے بھاٸی نے ان کو سلام نہیں کیا اس لیے ان کی راۓ نہیں کہ یہ رشتہ ہو ۔اب داٸیں سے باٸیں سے اس طرح پریشر بنایا کہ بالآخر رشتہ کی بات ختم ہوگٸی "  ۔ ذرا سوچیے کیا اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے ہیں ? ہر بار لڑکی کو ماڈل بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔( اس عمل سے بہت ساری لڑکیاں ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں اور بار بار پیش ہونے کی بنا پر رشتہ کرنے سے انکار کردیتی ہیں ) روپیے خرچ کیے جاتے ہیں اور  جب رشتہ ہو جاتا ہے تو داماد یا بہنوٸی کے سامنے پورا گھر خادم بنا رہتا ہے ' ان کے تمام ناز نخروں کو برداشت کرتا ہے ' ان کی" اوقات " سے بڑھ کر خاطر مدارات کرتا ہے اور ساس تو ساس سالیاں بھی آگے پیچھے ہر طرح سے پلکیں بچھاٸی رہتی ہیں اس کے باوجود گھر میں سکون نہیں رہ پاتا ہے ۔یہاں تک کہ لاکھوں روپیے لٹانے کے بعد بھی یا تو رشتہ ٹوٹ جاتا ہے یا تلخیاں باقی رہتی ہیں ۔ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم شریعت اسلامی کے احکام کو پامال کرکے ناجاٸز رسم ورواج اور اپنی انا کی تسکین کی خاطر  غلط طرز عمل اختیار کرتے رہتے ہیں اور معاشرتی و معاشی طور پر برباد ہورہے ہوتے ہیں۔ ہماری معاشی و معاشرتی تباہی و بربادی میں بڑی حد تک ساس سسر داماد یا بہنوٸی اور سالے کے رشتے کے درمیان کی خرافات ہیں ۔ کبھی غور کیجیے اور ایک ایک نکتے پر سوچیے ۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ عموماً جن باتوں کو لے کر مجھے اپنے داماد یا بہنوٸی سے شکایت ہوتی ہے وہی رویہ ہم اپنی سسرال والوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کفایت شعاری کی بات ہورہی ہے اور داماد اور بہنوٸی کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ مگر آپ جب جاٸزہ لیں گے تو بہت سارے واقعات ملیں گے کہ کتنے خاندان اسی بنیاد پر مسلسل پریشان ہیں ۔ یہ ہندو سماج کے اثرات ہیں ۔ یہ صورت حال عمومی نہیں ہے لیکن  اچھی خاصی تعداد میں ہے ۔ ورنہ جہاں اسلامی شریعت کا پاس ولحاظ رکھا جاتا ہے وہاں یہ رشتے باعث راحت و سکون و سہارا ہوتے ہیں ۔ ( جاری)
ڈاکٹر سکندرعلی اصلاحی 9839538225