Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 18, 2020

ملک کی 72معزز شخصیات کا صدر جمہوریہ کو خط ، دہلی فسادات کی جانچ کیلئے انکوائری کمیشن کی تقرری کا مطالبہ.

نٸی دہلی /صداٸے وقت / ذراٸع۔/١٨ جولاٸی ٢٠٢٠۔
==============================
دہلی فسادات کی جانچ کررہی دہلی پولیس کی تحقیقات اور تفتیش کے طریقہ کار پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ دو روز قبل دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی جانچ رپورٹ پیش کرتے ہوئے دہلی پولیس کی تحقیقات اور پیش کی گئی چارج شیٹوں کو ناکافی بتایا تھا تو اب ملک کی الگ الگ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے 72سابق نوکرشاہوں ، آئی اے ایس افسروں ، آئی پی ایس افسروں ، سماجی کارکنوں اور حقوق انسانی کارکنان نے انکوائری کمیشن تشکیل کا مطالبہ کر ڈالا ہے ۔ 
ان نوکرشاہوں کے ذریعہ براہ راست صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کو خط لکھا گیا ہے ۔ اس انکوائری کمیشن کی تشکیل کو ضروری بتایا گیا ہے ۔
ان نوکرشاہوں میں اے سلویراج ، پرشانت بھوشن ، ادیتی مہتا ، انجلی بھاردواج ، ابھیجیت سین گپتا ، اشوک واجپئی ، ارونا رائے ، وجاہت حبیب اللہ ، برجیش کمار اور عارف غوری وغیرہ شامل ہیں ۔ صدر جمہوریہ ہند کو خط میں لکھا گیا کہ ہمیں مجبورا یہ خط آپ کو لکھنا پڑرہا ہے ، کیونکہ یہ انصاف کے لئے ضروری ہے ۔ جس طرح سے دہلی فسادات کی تحقیقات چل رہی ہیں ، جس میں 53 عام لوگوں جانیں چلی گئی تھیں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ تحقیقات آزادانہ اور شفاف ہونی چاہئے ۔
خط میں لکھا گیا کہ دہلی پولیس کی تین ایس آئی ٹی ٹیمیں فساد کی تحقیقات کررہی ہیں جبکہ خود دہلی اسپیشل سیل فساد کی سازش کو لے کر تحقیقات کررہی ہے ۔ تاہم دہلی پولیس کے فساد کے دوران تشدد کے وقت رول کو لے کر سوالات اور الزامات ہیں کہ دہلی پولیس نے جان بوجھ کر تشدد اور فساد کو رروکنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا 
انکوائری کمیشن کی تقرری کو لے کر خط میں بہت ساری دلیلیں دی گئیں ہیں ۔ تاہم پہلی دلیل یہ دی گئی کہ پولیس نے خود تشدد کیا ، جس کی وجہ سے کردم پوری کے فیضان نامی نوجوان کی موت ہوگئی ۔ فیضان کو پولیس کے مارپیٹ کانشانہ بنایا گیا اور بعد میں 36 گھنٹوں تک غیر قانونی طورپر زیر حراست رکھا گیا ، جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی ۔ موج پور پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی ۔ تاہم اس کے باوجود پولیس کی رپورٹ میں کسی بھی پولیس اہلکار کا نام نہیں ۔
دہلی پولیس کے خلاف ایسے ویڈیو شواہد ملے ہیں ، جن میں پولیس خود پتھر بازی کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور سی سی ٹی وی کیمرے پولیس کے ذریعہ توڑے جارہے ہیں ۔ یہاں تک کہ پولیس پتھر بازی کرنے والوں کی رہنمائی کررہی ہے اور اپنے سامنے کھڑا کرکے پتھر بازی کرا رہی ہے ۔ خوریجی پیٹرول پمپ پر شہریت قانو ن کے خلاف احتجاج کے مقام پر سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے ۔
ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ جن میں پولیس افسروں کے فساد میں ملوث ہونے کی بات ہے ۔ تاہم پولیس افسروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ خط میں کہا گیا کہ شکایت درج کرائی گئی کہ کم از کم ایک ڈپٹی پولیس کمشنر ، دو اڈیشنل پولیس کمشنر ، اور دو ایس ایچ او فساد میں شامل تھے ۔ زیر حراست تشدد اور ٹارچرپولیس کے خلاف فساد متاثرین کے ایسے بہت سے بیانات سامنے آئے ہیں ، جن میں کہا گیا کہ پولیس کے ذریعہ ان کے ساتھ حراست کے دوران تشدد کیا گیا ۔ 26 فروری کو خالد سیفی کو خوریجی کے علاقہ سے گرفتار کیا اور حراست میں لیا گیا ۔ ایسا ویڈیو موجود ہے جس میں خالد اپنے پیروں میں چل کر جارہا ہے ۔ تاہم کچھ ہی دن بعد جب خالد کو عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا ، تو اس کے پیروں میں فریکچر تھے اوروہ چل نہیں سکتا تھا ۔
کپل مشرا ، ستپال سنگھ ، نند کشور گجر ، جگدیش پردھان اور موہن سنگھ بشٹ جیسے بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ ان لیڈروں کے خلاف شکایات کی گئیں کہ یہ بی جے پی رہنما تشدد میں شامل تھے یا پھر لوگوں کو اکسا رہے تھے ۔
شہریت قانون کے خلاف احتجاج کو پولیس کے ذریعہ مجرمانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ایف آئی آر نمبر 59 جو 6 مارچ کو درج کی گئی تھی ، اس کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو فساد کی سازش بتایا گیا اور احتجاج کرنے والے نوجوانوں طلبہ کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ جو احتجاج میں شامل تھے ، ان کو بلاکر کہا گیا کہ اگروہ احتجاج میں شامل رہے اور گرفتار لوگوں کے خلاف بیان دیں ، تو ان کیخلاف کارروائی نہیں کی جائے گی ۔