Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 3, 2020

8کانپور۔آٹھ ‏پولیس ‏اہلکار ‏کا ‏قاتل ‏” ‏وکاس ‏دوبے ‏“ ‏۔۔جس ‏پر ‏60 ‏سنگین ‏مقدمات ‏درج ‏ہیں ‏۔

اترپردیش کے شہر کانپور میں  گگزشتہ دیر رات اشتہاری مجرم وکاس دوبے کو پکڑنے کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر اندھا دھند فائرنگ سے ایک ڈی ایس پی سمیت آٹھ پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔
لکھنٶ ۔۔اتر پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع /٣ جولاٸی ٢٠٢٠۔
==============================
ریاست کے پولیس حکام کے مطابق اس حادثے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جائے وقوعہ پر پولیس کی ایک بڑی تعداد تعینات کر دی گئی ہے۔
ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ہتیش چندر اوستی نے بتایا کہ ’کانپور کے ایک بدنام زمانہ مجرم وکاس دوبے کو پکڑنے پولیس بِکرو گاؤں گئی تھی۔ پولیس کو روکنے کے لیے انھوں نے پہلے ہی جے سی بی یا بلڈوزر لگا کر راستہ روک رکھا تھا۔‘
مرنے والوں میں ضلع بلہور پولیس آفیسر دیویندر مشرا اور ایس او شِیوراج پور مہیش یادو بھی شامل ہیں۔
وکاس دوبے پر نہ صرف متعدد الزامات عائد ہیں بلکہ درجنوں مقدمات بھی درج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی ہے
وکاس دوبے کا تعلق اترپردیش سے ہے اور وہ ایک بار مقامی انتخاب بھی جیت چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اقتدار میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو ان کے سب سے قریبی تعلق ہیں۔
کانپور کے چوبے پور پولیس سٹیشن میں وکاس دوبے کے خلاف کل ساٹھ مقدمات درج ہیں۔ ان میں قتل اور قتل کی کوشش جیسے بہت سے سنگین مقدمات شامل ہیں۔
کانپور انسپکٹر جنرل آف پولیس موہت اگروال نے میڈیا کو بتایا کہ جس کیس میں پولیس وکاس دوبے کو پکڑنے گئی تھی وہ بھی قتل سے متعلق ایک معاملہ ہے اور اس میں وکاس دوبے نامزد ہیں۔
کانپور کے مقامی صحافی پروین موہتا کا کہنا ہے کہ ’وکس دوبے پر سنہ 2001 میں تھانے کے اندر بی جے پی کے ایک ریاستی وزیر سنتوش شکلا کے قتل کا الزام لگا۔‘
’سنتوش شکلا کا قتل ایک ہائی پروفائل کیس تھا۔ اتنے بڑی واردات کے باوجود وکاس کے خلاف کسی پولیس والے نے گواہی نہیں دی۔ وکاس دوبے کے خلاف عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے ان کو رہا کردیا گيا تھا۔‘
اس کے علاوہ سنہ 2000 میں کانپور کے شولی تھانہ علاقہ میں واقع تاراچند انٹر کالج کے اسسٹنٹ مینیجر سدھیشور پانڈے کے قتل کے معاملے میں وکاس دوبے کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔
پولیس سٹیشن میں درج رپورٹ کے مطابق وکاس دوبے پر سال 2000 میں ایک اہم شخص رام بابو یادو کے قتل کی سازش کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر اس قتل کی سازش وکاس نے جیل میں تیار کی تھی۔
وکاس دوبے کی گرفتار پر سرکار نے 25000 روپے کا انعام رکھا ہوا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’وہ ضلع پنچایت کا سابق ممبر ہے اور اس کے خلاف کم از کم 60 قتل اور ڈکیتی کے مقدمات ہیں۔‘
سال 2004 میں ایک تاجر کے قتل کے معاملے میں بھی وکاس دوبے کا نام سامنے آیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے بہت سے معاملات میں وکاس دوبے جیل جا چکے ہیں لیکن وہ ہمیشہ ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ سنہ 2013 میں بھی وکاس کا نام قتل کے ایک مقدمے میں سامنے آیا تھا۔
صرف یہی نہیں 2018 میں وکاس دوبے پر اپنے چچیرے بھائی انوراگ پر قاتلانہ حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس میں انوراگ کی اہلیہ نے وکاس سمیت چار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
پروین موہتا کا کہنا ہے کہ ’وکاس دوبے کا ہر سیاسی جماعت میں اٹھنا بیٹھنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں آج تک پکڑا نہیں گیا۔ اگر پکڑا بھی گیا تو وہ کچھ ہی دنوں میں جیل سے باہر آگئے۔‘
پولیس اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وکاس دوبے نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی دولت غیر قانونی ذرائع سے بنائی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق وکاس کے والد کسان ہیں۔ وکاس سمیت وہ تین بھائی ہیں جس میں سے ایک بھائی کا آٹھ سال قبل قتل ہوگیا تھا۔ بھائیوں میں وکاس سب سے بڑے ہیں۔ وکاس کی اہلیہ ریچا دوبے اس وقت ضلع پنچایت کی ممبر ہیں۔
مقامی افراد نے بتایا کہ وکاس دوبے کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک انگلینڈ میں ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہا ہے جبکہ دوسرا بیٹا کانپور میں ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
وکاس نے گاؤں میں ایک قلعہ نما گھر بنا رکھا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وکاس کی اجازت کے بغیر کوئی گھر کے اندر داخل نہیں ہوسکتا ہے۔
چوبے پور تھانے میں ان کے خلاف جو مقدمات درج ہیں ان میں سے بعض غیر قانونی طور پر زمین کی خرید و فروخت کے بھی ہیں۔
پولیس اور دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وکاس نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی دولت غیر قانونی ذرائع سے بنائی ہے۔ بٹھور علاقے میں ان کے بعض سکول اور کالج بھی چلتے ہیں۔
بِکرو گاؤں کے لوگ بتاتے ہیں کہ نہ صرف ان کے گاؤں میں بلکہ آس پاس کے دیہاتوں میں بھی وکاس دوبے کا دبدبہ تھا۔ گاؤں کی پنچایت اور گاؤں سربراہ کے انتخاب میں وکاس دوبے کی پسند اور ناپسند کافی اہمیت رکھتی تھی۔
وکاس کے گاؤں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ پندرہ برسوں سے بلامقابلہ ایک ہی پارٹی مقامی انتخابات جیت رہی ہے۔ وکاس دوبے کے کنبے کے لوگ ہی پچھلے پندرہ برسوں سے ضلعی پنچایت ممبر کے انتخاب جیت رہے ہیں۔‘
بِکرو گاؤں کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وکاس دوبے کے خلاف تھانے میں جتنے بھی مقدمات درج کیے گئے ہوں اس گاؤں میں کوئی بھی اس کی برائی کرنے والا نہیں ملے گا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی گواہی دے گا۔‘
مقامی افراد نے بتایا کہ سنہ 2000 کے آس پاس شیولی میں اس دور کے پنچاییت کے صدر للن واجپائی سے جھگڑِ کے بعد وکاس دوبے نے جرم کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
وکاس دوبے کا تعلق اترپردیش سے ہے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بے جے پی) کے یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔
ماضی میں ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چند معاملات میں سخت گیر حکمران کے طور پر سامن آئے ہیں ایسے میں سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یوگی آدتیہ ناتھ وکاس دوبے کے ساتھ بھی اتنا ہی سخت رویہ اختیار کریں گے۔
ٹوئٹر پر صحافی روہنی سنگھ نے لکھا ہے کہ ’اگر وکاس دوبے کا نام وکاس دوبے نہیں بلکہ ڈاکٹر کفیل خان ہوتا تو شاید وہ قومی سلامتی کے قانون این ایس اے کے تحت جیل میں ہوتے اور آٹھ پولیس اہلکار ہلاک نہ ہوتے۔ لیکن ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب قابل ڈاکٹر جیل کاٹ رہے ہیں اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔‘
اخبار 'دا پرنٹ' کی سیاسی مدیر رینو اگال نے بی بی سی اردو کی خدیجہ عارف سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ’وکاس دوبے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد یہ صاف لگتا ہے کہ پولیس کے اندر ہی کوئی ایسا اہلکار تھا جس نے پولیس کی اس کارروائی کے بارے میں اسے بتایا جس کی وجہ سے اس نے اتنی بڑی تعداد میں پولیس والوں کو ہلاک کردیا۔
’اترپردیش کی حکومت مجرموں کے خلاف سختی سے پیش آتی ہے لیکن اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظام بعض مجرموں کے سامنے مجبور ہے۔‘
میڈیا سوراج کے ایڈیٹر اور اترپردیش میں ایک لمبے وقت سے صحافت کرنے والے رام دت ترپاٹھی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’وکاس دوبے ایک مقامی سیاست دان تھا اور اس کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کو اس جیسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس نہ صرف ووٹ ہوتے ہیں بلکہ مقامی سطحے پر اس کی بات بھی سنی جاتی ہے۔ اس معاملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود پولیس کے محکمے میں کتنی بدعنوانی ہے۔‘
وہیں ریاست کی حزب اختلاف کی جماعتیں اور بعض لوگ سوشل میڈیا پر اس بات کی وجہ سے حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنا بڑا مجرم آزاد گھوم رہا تھا۔
کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اترپردیش میں مجرموں کا اتنا حاوی ہوجانا ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس جنگل کے راج کو دیکھتے ہوئے جوابدہ ہونا پڑے گا۔‘