Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 3, 2020

یہ ‏دینی ‏ادارے ‏بھکت ‏کیوں ‏پیدا ‏کرتے ‏ہیں ‏؟؟؟



از:/- محمد علم اللہ/صداٸے وقت ۔
==============================
برصغیر کے بہت سے مشہور مدارس میں ایک بات یکساں ہے اور وہ یہ کہ ان میں کسی مخصوص بزرگ پر اتنا زیادہ فوکس کیا جاتا ہے جیسے پیغمبر اسلام کے بعد صرف ایک یہی شخص گزرا ہے جس کی وجہ سے دین ہم تک پہنچا ہے۔ ان افراد کے بارے میں اتنا غلو سنتے سنتے جب طالب علم فارغ ہوتا ہے تو اس کی ہر چوتھی پانچویں بات میں اس بزرگ کا حوالہ ضرور ہوتا ہے۔ علمی سفر کی پہلی شرط یہ ہے کہ یہاں شخصیات اہمیت نہیں رکھتی بلکہ دلائل وزن رکھتے ہیں۔ بڑے سے بڑے عالم کی بات اگر دلیل یا عقل کے پیمانے پر رد ہو رہی ہے تو اس کی بلا وجہ تاویل کرنا اس کے سوائے کچھ اور ظاہر نہیں کرتا کہ یہ شخص فلاں کا بھکت ہے۔ ایک بھکت کبھی بھی سچا طالب علم نہیں بن سکتا۔ اس جلیل القدر شخصیت کو یاد کیجئے جس نے قبر رسول کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا کہ اس قبر والے کے علاوہ روئے زمین پر کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس سے اختلاف نہ کیا جا سکے۔ آج عالم یہ ہے کہ اگر مولانا علی میاں ندوی کے بارے میں دو چار القاب کم کر کے بات کرو تو ندوہ کے کچھ فرزند طیش میں آ جاتے ہیں۔ اگر آپ اصلاح کے کسی طالب علم یا فارغ کے سامنے صرف مولانا حمید الدین فراہی کہہ دیں تو عین ممکن ہے وہ اس لئے نالاں ہو جائے کہ اس نے امام کیوں نہیں کہا۔ فلاح کے فارغین مولانا مودودی پر ہونے والی تنقید کی کیسی تاویلیں کرتے ہیں اس کی آپ کو خوب خبر ہے۔ دیوبند میں تو خیر ایک مخصوص خانوادے کے علماء موروثی طور پر مرجع عقیدت قرار پائے ہیں۔ یہی حال دیگر اداروں کا بھی ہے۔ ناظمیہ کے کسی طالب علم کے سامنے کیسی ہی مضبوط دلیل مولانا حمید الحسن کے موقف کی رد میں رکھیے وہ بندہ جب تک آپ کو چپ نہ کرا دے بولتا ہی جائے گا۔ غرض یہ کہ بھکتی کا یہ انداز علمی اقدار سے میل نہیں کھاتا لیکن افسوس کہ یہ اپنے یہاں خوب خوب رائج ہے۔ حصول علم کی پہلی شرط اپنے ذہن کو تعصبات سے پاک کرکے حق کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ اگر ذہنوں میں بت ہوں گے تو مدرسہ میں لاکھ ریاضتیں کر لی جائے آخرکار وہاں سے بھکت ہی نکلیں گے-