Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 22, 2020

ہندوٶں ‏کے ‏تیوہار ‏کو ‏کورونا ‏نہیں ‏لگتا ‏؟؟؟رام ‏مندر ‏کے ‏لٸے ‏بھومی ‏پوجن ‏لیکن ‏عید ‏الاضحیٰ ‏پر ‏پابندی ‏۔

از/سمیع اللہ خان /صداٸے وقت 
==============================
 ایکطرف، کرونا وائرس کے نام پر رمضان اور عیدالفطر کے بعد اب  عیدالاضحیٰ بھی حکومت کی سوتیلی پالیسیوں کے نشانے پر ہے لیکن دوسری جانب مندروں کے تہواروں کے لیے گنجائشیں کبھی سپریم کورٹ سے تو کبھی حکومت ہند کے خصوصی اختیارات کے ذریعے نکال لی جاتی ہیں_
 تازہ ترین متعصبانہ فیصلہ ہے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے باضابطہ آغاز کا،  ۵ اگست کو مرکزی حکومت رام مندر میں بھومی پوجن منعقد کررہی ہے، اس پروگرام کے لیے اجودھیا میں وزیراعظم نریندرمودی بھی موجود ہوں گے
 قانونی اعتبارسے ۵ اگست جوکہ کرونا وائرس لاکڈاون کے Unlock 2.0 کے مرحلے میں آتا ہے اس دوران کسی بھی قسم کے مذہبی پروگرام، اجتماع یا رسم کے لیے اکٹھا ہونا سختی سے ممنوع ہے، اور Ministry Of Home Affairs کی ہدایات میں یہ بالکل واضح ضابطہ ہے، لیکن اسی دورانیے میں رام مندر کا بھومی پوجن ہوگا، جس میں کرونا لاکڈاؤن کی ضابطہ شکنی وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت اور برہمن پروہتوں اور پجاریوں کی موجودگی میں ہوگی… دلچسپ بات یہ بھی ہیکہ بابری مسجد کو شہید کروانے میں سرگرم کردار ادا کرنے والا مجرم لال کرشن ایڈوانی جس کے دامن پر سینکڑوں معصوموں کا خون لگا ہوا ہے اور جسے اپنے خونی سیاست کے جرم میں ایک دن کی بھی جیل نہیں ہوئی وہ ایڈوانی رام مندر کے بھومی پوجن میں شریک رہے گا_
 *اب ذرا یاد کیجیے عیدالفطر کے موقع کو:*
 عیدالفطر سے قبل کئی مسلم نمائندوں نے صرف عیدگاہ میں نماز ادا کرنے کی اجازت مانگی تھی لیکن حکومت اور عدالت دونوں نے اسے خاطرخواہ توجہ تک کے قابل نہیں سمجھا تھا 
 لیکن عیدالفطر کے چند ہی دنوں کےبعد سپریم کورٹ نے اڑیسہ میں نہایت بھیڑبھاڑ والی جگنّاتھ یاترا کو منظوری دے دی تھی جس یاترا کو ہرحال میں منعقد کرانے کے لیے شدت پسند ہندو تنظیموں کے سادھو، سنتوں اور مہاراجوں نے دباؤ بنایا تھا 
*اور اب جبکہ مسلمانوں کی عیدالاضحیٰ نزدیک ہے اور حکومت یا عدالت عیدالاضحی منانے کے لیے ہمیں گنجائش دینے کے موڈ میں  نہیں ہیں لیکن یہی حکومت رام مندر کا بھومی پوجن اسی دورانیے میں منعقد کر رہی ہے، یہ بھی یاد رہے کہ شاہجہاں پور مندر میں  گنگا جل چڑھانے کا مذہبی پروگرام ابھی دو روز قبل اس طرح منعقد ہوا کہ لاکڈاؤن کے ضوابط، ماسک اور سوشل ڈسٹینس کو روند کر رکھ دیاگیا* یہ درحقیقت ہندوستان میں سیکولرزم اور جمہوریت کی بالکل حقیقی اور ہندوتوا نواز عملی مثالیں ہیں جنہیں بصیرت کی نگاہوں سے آپ نے ماضی میں پرکھا نہیں اور آج ہمت کے ساتھ اعتراف بھی نہیں کر پارہے، یا پھر ہندو پروہتوں کی طرح کہا جائے کہ ہندو تہواروں کو کرونا نہیں لگتا؟ اگر آنکھیں کھلی اور کان تیز ہوں تو یاد بھی ہوگاکہ جس وقت کرونا کا ابتدائی دور اور سخت لاکڈاون کا عالَم تھا تب یوگی آدتیہ ناتھ جی لاک ڈاؤن کے ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایودھیا میں  رام مندر کا پروگرام کررہےتھے _
 ہمیں ہندؤوں کے تہواروں سے بالکل کوئی شکایت نہیں نہ ہی ان کی آستھا پر ہم بندش لگاتے ہیں لیکن ایک ہی ملک میں، ایک ہی حالت، ايک ہی ماحول میں انسانوں کی آبادی کے لیے دو الگ الگ قانون کیوں؟ جبکہ آپکا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علمبردار ہے ! 
*یہ کیسی بے شرم پالیسیاں ہیں کہ نظام الدین مرکز میں کچھ لوگ پھنس گئے تو تبلیغی جماعت کرونا بم بن گئی، مساجد آزادانہ کھل نہیں سکتیں لیکن مندروں میں بےتحاشا بھیڑ لگ سکتی ہے، عیدالاضحیٰ کی اجازت نہیں لیکن رام مندر کا بھومی پوجن ہوگا*
یہ صورتحال جہاں ہندوستان کے اندرونی سسٹم میں گھسے ہوئے اسلامو فوبیا اور کٹّر ہندوتوا کی عکاس ہے وہیں یہ پیغام دیتاہے کہ بھارتی جمہوریت میں ہندؤوں کی برہمن آستھا کا سوال ہوگا تو مسجد کی جگہ پر مندر بھی بنےگا اور کرونا کے خطرات سے ماوراء ہندو دیوتاؤں کے تہوار بھی منعقد ہوں گے اور اگر مسئلہ مسلمانوں کے تہواروں یا جذبات کا ہو تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی 
 اور اہمیت اسی کی نہیں ہوتی جو خود کو کمزور ثابت کرتاہے، اب ذرا سوچیے کہ آپ کمزور کیوں ہیں؟ 

*سمیع اللّٰہ خان*
۲۱ جولائی ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com