Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 22, 2020

متحدہ ‏عرب ‏امارات ‏کا ‏ ‏تاریخی ‏اقدام ‏، ‏مریخ ‏پر ‏مشن ‏” ‏امید ‏“بھیجنے ‏والا ‏پہلا ‏مسلم ‏ملک ‏بن ‏گیا۔



از / ایم ودود ساجد/صداٸے وقت۔
============================

موضوع ذرا خشک ہے۔۔۔ لیکن شاید پیش کش آپ کو اچھی لگے۔۔۔ متحدہ عرب امارات یعنی UAE نے اسپیس سائنس کے میدان میں  ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ جاپان کے تانیگا شیما اسپیس سینٹر سے اس نے اپنا ایک تحقیقاتی مشن' مارس یعنی مریخ پر بھیجا ہے. یہ مشن اسے لے جانے والے راکٹ سے الگ بھی ہوگیا ہے اور اب وہ مریخ کی طرف رواں دواں ہے۔ NASA کے مطابق یو اے ای کا یہ مشن اکتوبر 2020  میں زمین سے 3 کروڑ 80 لاکھ 60 ہزار میل کی دوری پر ہوگا۔اس مشن کا نام "الامل" یعنی امید  ( hope ) رکھا گیا ہے۔
یو اے ای حکومت کہنا ہے کہ یہ مشن عرب خطہ کیلئے امن‘امید اور فخرومباہات کا ایک پیغام ہے۔ اس سے نوجوانوں کے جذبہ کو فروغ حاصل ہوگا اور عربوں کے درمیان پائے جانے والے مختلف قسم کے اختلافات اور تنازعات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔۔۔ 
یہ مشن فروری2021 میں مریخ کے مدار میں داخل ہوجائے گا۔۔۔یہ تاریخ اس لئے اہم ہے کہ فروری 2021 میں سات عرب ریاستوں کے اتحاد (انضمام) کو پچاس سال پورے ہوجائیں گے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے کس زبردست منصوبہ بندی کے ساتھ مشن مارس پر کام کیا ہے اور یہ مشن اس کے لئے کتنا اہم ہے۔ واضح رہے کہ خلیج کے ان سات ملکوں نے متحد ہونے کے بعد ہی زبردست ترقی حاصل کی ہے۔۔۔
اس مشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا کو مریخ کے تعلق سے بہت سی ماحولیاتی معلومات اور اطلاعات فراہم ہوں گی۔۔۔پوری دنیا میں جہاں جہاں مریخ پر ریسرچ ہورہی ہے وہاں ان اطلاعات سے ریسرچ کرنے والوں کو مدد ملے گی۔۔۔اس کے علاوہ اس مشن کے ذریعہ عرب نوجوانوں کو مواقع میسر آئیں گے۔۔۔اس وقت پوری عرب دنیا میں نوجوانوں میں ایک طرف جہاں تعلیم کا فروغ ہوا ہے وہیں ان کی توقعات ( یا Ambitions) بڑھ گئی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بڑا دلچسپ ہے کہ اس وقت عرب دنیا میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔  100ملین کی عرب آبادی میں 32 فیصد نوجوان ہیں۔ وہ امریکہ‘برطانیہ اور یوروپ کے دوسرے ملکوں سے سائنسی علوم پڑھ کر آرہے ہیں۔۔۔ایک ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ عرب نوجوانوں میں اسلامی حمیت بھی فروغ پا رہی ہے اور وہ مسلمانوں کے ایجادات و دریافت کی تاریخ کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں۔ایسے میں یو اے ای نے اسپیس سائنس کے میدان میں قدم بڑھاکر نوجوانوں کی توقعات اور جذبہ کو مہمیز لگادی ہے۔۔ 
عرب نوجوانوں میں کام کرنے اور محنت کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوا ہے۔۔۔لہذا اب ان کی جگہ بنانے کے لئے وہاں مختلف میدانوں میں برسر کار غیر ممالک کے لوگوں کی نوکریاں کم کی جارہی ہیں۔۔۔کویت نے تو اس کی ابتداء کربھی دی ہے۔گو کہ اس کے اور بھی کئی اسباب ہیں لیکن سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور انہیں کام دینا ہے۔۔۔عالمی سطح پر اقتصادیات میں جو بحران آیا ہے اس کی روشنی میں اب عربوں کو محنت کرنی ہوگی۔ آرام پسندی سے اب کام نہیں چلے گا۔۔۔
مریخ پر جانے والا مذکورہ مشن کئی اعتبار سے منفرد ہے۔مثال کے طورپر اس پر نسبتاً بہت کم خرچ آیا ہے۔ اس پر محض 200 ملین ڈالر صرف ہوا ہے۔اسی طرح اس مشن پر خود یو اے ای کے اپنے انجینئرس نے کام کیا ہے۔۔اس مشن کی کمان بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔۔اس مشن کے پروجیکٹ مینجر عمران الشرف کی عمر محض 36 سال ہے۔وہ 1984میں پیدا ہوئے تھے۔۔ان کی سائنسی تقریریں سننے اور ان کی وضع قطع دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مریخ پر انسانی بستی بسانے کا خواب دیکھنے کے باوجود اپنی شناخت' تشخص اور اپنی جڑوں سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔
یہ مشن اب تک کے دوسرے مشنز کی طرح سرخ سیارہ  (Red Planet) پر اترے گا نہیں بلکہ 687 دنوں تک اس کے مدار کے اردگرد گھومتا رہے گا۔واضح رہے کہ مریخ کا ایک سال 687 دن کا ہوتا ہے۔یعنی وہ سورج کا ایک چکر 687 دنوں میں پورا کرتا ہے۔دوسرے سیاروں کے مقابلہ میں مریخ اس کرہ ارض کے سب سے قریب  ہے۔ یو اے ای کا ایک بڑا خواب اگلے 100سال کے اندر مریخ پر انسانی بستی بسانے کا ہے۔۔۔اب سو سال تو کس نے دیکھے لیکن یو اے ای نے کئی درجن آرکٹیکٹس کی خدمات حاصل کی ہیں جو دوبئی میں ایک ایسا شہر تعمیر کرکے دیں گے کہ اگر آج مریخ پر کوئی شہر  بسایا جائے تو ویسا ہی لگے۔۔۔اس پر 135ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ اتنے بڑے پروجیکٹ میں ہزاروں نوجوانوں کو کام ملے گا۔۔۔یقیناً اس میں ہندوستانی ہنرمندوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ 1960 سے اب تک ایسے کئی درجن مشن لانچ کئے گئے‘جن میں امریکہ نے سب سے زیادہ مشن بھیجے لیکن کوئی بھی مشن اتنی دور تک نہ پہنچ سکا۔۔۔عمران الشرف کہتے ہیں کہ اس مشن سے پوری دنیا کی سائنسی برادری کو مریخ کے تعلق سے مجموعی منظرنامہ ملے گا۔۔۔یہ مشن ستمبر 2021 میں اطلاعات بھیجنا شروع کردے گا۔۔یہ یو اے ای کا پہلا کارنامہ نہیں ہے۔۔۔زمین کے مدار میں اس کے 9 سٹیلائٹ پہلے سے کام کر رہے ہیں اور 8 مزید بھیجنے کی تیاری ہے۔
اس وقت 50 سے زیادہ اسلامی یا مسلم ملکوں میں 22 عرب ممالک ہیں۔ان میں سات ملک'خلیجی ممالک کہلاتے ہیں جن میں بحرین‘کویت‘اومان‘قطر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سب سے متمول ہیں۔۔۔۔عراق بھی خلیجی ملک ہے لیکن وہ اس وقت سخت بحران کا شکار ہے۔۔۔اس وقت تو ویسے بھی کورونا کی وجہ سے پوری دنیا سخت اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔۔۔ایسے میں اگر یواے ای اسپیس سائنس کے میدا ن میں آگے بڑھ رہا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔۔ یہ کہنا ابھی درست نہیں ہوگا کہ سائنسی میدان میں  مسلم دنیا کی ایجادات و دریافت کی نشاۃ ثانیہ ہورہی ہے لیکن یواے ای کے اقدام کو اس کی سمت بڑھنے والا ایک قدم ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔
یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ یو اے ای کے علاوہ کئی عرب ملک وسائل سے مالا مال ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک سائنس کے میدان میں کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا ہے۔ سعودی عرب' کویت اور قطر اس سلسلے میں کئی بڑے منصوبے بناسکتے ہیں ۔ اس سے خود ان کے نوجوانوں کو کام اور ایک نئی سمت ملے گی۔۔۔ نوجوانوں کو ان کے علم' تجربہ اور ان کے Vision کے اعتبار سے کام پر لگانا ضروری ہے۔۔۔