Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 4, 2020

خوف!!!خوف ‏کے ‏ذراٸع ‏اور ‏خوف ‏سے ‏نکلنے ‏کے ‏راستے ‏۔

از/ ڈاکٹر محمد اسلم علیگ۔/صداٸے وقت 
==============================
خوف کی تین اقسام ایسی ہیں جو ہر انسان کو پیدائشی طور پر اسکی فطرت میں دی گئی ہیں.
1) : بلند آواز کا خوف
2) : بلندی سے گرنے کا خواف
3) سانس بند ہونے کا خوف.
بلند آواز کے خوف کا تجربہ ہر انسان کو ہوگا. خاص طور سے موسم برسات میں اس کا تجربہ ضرور ہوتا ہے. جب بجلی کی کڑک اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان خوف سے دبلا ہوجاتا ہے. 
بلندی سے گرنے کا خوف بھی بچپن سے محسوس ہوا ہوگا. بچے کو اوپر اچھالتے ہیں تو ہنستا ہے، نیچے کی طرف آتا ہے تو اسکی چیخیں نکل جاتی ہیں. آسمانی جھولوں اور فلائت کے لینڈنگ کے وقت ہم سب نے اس خوف کو محسوس کیا ہے.
        ڈاکٹر محمد اسلم علیگ

تیسری قسم کے خوف کا بھی ہم سب کو تجربہ ہوگا، بند کمرے میں جاتے وقت، لحاف وغیرہ کے اندر، پانی میں ڈبکی لگاتے وقت سانس گھٹنے لگتی ہے اور  یہ خوف شدت سے ستاتا ہے کہ کہیں سانس بند نہ ہوجائے. 
یہ وہ خوف ہیں جو اللہ نے ہر انسان کے اندر فطری طور پہ رکھا ہے. ان کے علاوہ جتنے بھی خوف ہیں وہ سب انسانوں کے اپنے پیدا کئے ہوئے ہیں.
کچھ تو وہ خود پیدا کرلیتا ہے اور کچھ والدین، احباب خانہ، دوست، اساتذہ، میڈیا، معاشرہ اور سماج پیدا کرتے ہیں. یہ تمام خوف کی ایسی رسیاں باندھتے ہیں کہ انسان اسی میں قید ہوکے رہ جاتا ہے.
مائیں بچپن میں ہی بچے کے دل میں خوف پیدا کرتی ہیں کہ باہر بھوت ہے، چڑیل ہے، سوجاؤ، خاموش ہوجاؤ نہیں تو وہ اندرآجائے گا. وغیرہ وغیرہ... 
تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ہوتا ہے. یہ خوف ایسا پیدا ہوتا ہے کہ بڑی عمر تک انسانی دماغ سے نہیں نکلتا ہے. ہمارے گاؤں میں پیپل کا ایک درخت ہے. بچپن میں دماغ میں بٹھا دیا گیا کہ اس پہ شیطان رہتا ہے. اس کس نتیجہ یہ ہوا کہ جب کبھی ہم لوگ سورج غروب ہونے کے بعد وہاں سے گزرتے تو دعائیں پڑھتے ہوئے تیزی سے دوڑکر گزرتے. 
اسی طرح سے مار کا خوف اساتذہ پیدا کرتے ہیں اور کبھی مائیں بھی. کہتی ہیں آنے دو آپ کے ابو کو شام میں پٹائی کرواتی ہوں. معلم کلاس میں ڈنڈہ دکھاتے ہیں.
میڈیا رات و دن انسانی دماغ میں خوف پیدا کرتا ہے. جس کا تجربہ ہم سب کو بخوبی ہے.
معاشرہ اور سماج بھی لوگوں میں خوف پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے. 
اسکول میں فیل ہونے کا خوف ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے. پڑھائی پوری ہوگئی نوکری کے انٹرویو دینے گئے تو یہ خوف ستاتا ہے کہ سیلیکشن نہیں ہوا تو لوگ کیا کہیں گے. بعض دفعہ والدین کا خوف نہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں بیٹا آپ کوشش کریں باقی کامیابی اور ناکامی اللہ نے جو مقدر میں لکھا ہوگا وہ ملے گی لیکن بعض دفعہ والدین بھی یہ کہتے ہیں کہ پڑوسی کیا کہیں گے. فلاں اور فلاں ہنسیں گے اور ہمارا مزاق بنائیں گے. 
ہر انسان کو موت کا خوف ہوتا ہے جبکہ موت برحق ہے، وہ اپنے وقت پہ آکے رہیگی، اس سے خوف کھانے کے بجائے ہمیں یہ کرنا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں پاس ہو جائیں.
غریب ہونے کا بھی خوف ستاتا ہے. کچھ تو ایسے بھی ہیں جنکی غربت ختم ہوجاتی ہے پھر بھی یہ خوف ستائے رکھتا ہے کہ کہیں پھر نہ غریب ہو جائیں. ایک ایک روپیہ بہت سنبھال کے استعمال کریں گے. بیوی ایک روپیہ خرچ کردے تو اسکو پورا لکچر سننا پڑتا ہے. صدقہ خیرات دینے میں بھی انتہائی کنجوسی سے کام لیں گے. جب کہ معلوم ہے کہ رازق اللہ ہے جس کو جتنا چاہے عطا کرے گا، شرط ہے کہ انسان روزی حاصل کرنے کی تلاش میں رہے.
یاد رکھیں خوف زدہ انسان اور خوفزدہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے ہیں. اس لئے ضروری ہے کہ خوف کو کچلیں اور قدم آگے بڑھائیں. کامیابی کے لیے ناکام ہونا ضروری ہے اس لیے ناکامی سے خوف نہ کھائیں. سماج کیا کہے گا، لوگ کیا کہیں گے اس سے اوپر اٹھیں جس میں آپ کو خوشی ملے وہ کام کریں اور اللہ کی رضامندی سامنے رکھیں. 
خوف ہر انسان کے اندر ہوتا ہے. ضروری ہے کہ ہم اس کا پتہ لگائیں، اپنے اندر جھانکیں اور معلوم کریں کہ کس طرح کے خوف نے آپ کے پیروں میں بیڑیاں لگا رکھی ہیں. خوف کو قابو کریں اور اسکو مینیج کریں. اگر ایسا نہیں کریں گے تو خوف کارکردگی کو محدود کردیگا اور ترقی میں بڑی رکاوٹ کا سبب بنے گا. 
اب سوال یہ کہ خوف سے کیسے بچیں اسکا ازالہ کیسے کریں...؟ 
سب سے پہلی بات تو یہ کہ خوف کا ہر کسی سے تذکرہ نہ کریں، اس کا اعلان نہ کریں، ہر کسی کو نہ بتائیں.
دوسری بات خوف کا تذکرہ صرف نفسیاتی ماہرین سے کریں جو خوف کو انسانی دماغ سے باہر نکالنے کا ہنر جانتے ہیں.
جسمانی گھاؤ سے بہت زیادہ خطرناک ہوتا ہے دماغ اور نفسیاتی گھاؤ. سانپ اور مینڈھک کا مکالمہ آپ نے سنا ہوگا کہ سانپ کہتا ہے لوگ میرے زہر سے مرتے ہیں، مینڈھک کہتا ہے نہیں لوگ تمہارے زہر سے نہیں بلکہ خوف سے مرتے ہیں. پھر تجربہ کیا جاتا ہے. سانپ کاٹنا ہے لیکن میڈھک کودکے سامنے آتا ہے. زخمی سوچتا ہے کہ مینڈھک نے کاٹا ہے. وہ بے خوف آگے بڑھتا ہے.  اس کو کچھ نہیں ہوتا ہے. 
پھر میڈھک کاٹتا ہے اور سانپ رینگتے ہوئے نکلتا ہے اور زخمی مرجاتا ہے. ظاہر سی بات ہے کہ خوف ہی ہے جس نے جان لی ہے. 
تیسری بات خوف کے باوجود قدم اٹھائیں. تبھی ترقی ممکن ہے. خوف کے ساتھ ترقی نہیں کرسکتے ہیں. خوف کی حالت میں صلاحیتوں کا استعمال بہت محدود ہوجاتا ہے. 
چوتھی بات جو بھی خوف آپ کے اندر ہیں انکو ایک پیپر پہ لکھیں، پھر اس کو جلا دیں یا پھاڑ دیں. 
پانچویں بات. خوف پہ سوال اٹھائیں. اس سے خوف کھوکھلا ہوتا ہے.
چھٹی بات. لالچی نہ بنیں بلکہ سخاوت کا مظاہرہ کریں، لالچ انسان کو خوفزدہ کرتا ہے اور سخاوت خوف کا ازالہ کرتی ہے. 
ساتویں بات خوفزدہ ہونے کے نقصانات پہ غور کریں. 
آٹویں بات خوف کو ختم کرنے کے فوائد سوچیں.
آخری بات صرف خدا سے خوف کھائیں اور باقی ہر طرح کے خوف سے آزاد ہوجائیں.
"الا ان اولياء الله لاخوف عليهم و لا هم يحزنون" ...
الله کے دوست بنیں اور خوف کو دور بھگائیں۔۔۔۔