Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 3, 2020

ہاں! ‏میں ‏گودی ‏میڈیا ‏ہوں۔۔۔۔



از/ نازش ہما قاسمی/صداٸے وقت 
==============================
جی! گودی میڈیا، اپنے سیاسی آقائوں کے ایماء پر ان کی خوشنودی کے لیے سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنے والی، دن دہاڑے ، اور رات کی تاریکی میں ڈنکے کی چوٹ پر تال ٹھونک کر صریح و سفید جھوٹ کو پیش کرکے فخر کرنے والی ، بے مروت ، بے غیرت ، حکومت کی ناکامیوں کو اچھائی بتا کر عوام الناس کے ذہنوں سے کھیلنے والی، نفرت کی کھیتی کرنے والی، فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے والی، ہندو مسلم کے درمیان خلیج پیدا کرنے والی، اخوت و بھائی چارگی کا گلا گھونٹنے والی، گنگا جمنی تہذیب کو شرمندہ کرنے والی، فسادات کی جڑ، گاؤں گاؤں، شہر شہر، قریہ قریہ اپنی تعصب پر مبنی جعلی ، فیک ، جھوٹی خبروں کو چلانے والی، متشدد ، جارح ، متعصب ، سازشی ، بلیک میلر ، اور نفرت کے سوداگروں اور ضمیر فروش گروہوں کا مرکز ، ملزم کا عدالت سے جرم ثابت ہونے سے قبل ہی اپنا فیصلہ سناکر اسے تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنے والی، ایک کمیونٹی کے معصوموں کو دہشت گرد کہنے والی، دوسری کمیونٹی کے غنڈوں کو معصوم گرداننے والی، ماب لنچنگ کے شکار مسلمانوں کا مذاق اڑانے والی، اور لنچ کرنے والے دہشت گردوں کا حوصلہ بڑھانے والی، برقعہ وطلاق کو رسوا کرنے والی ، گھونگٹ اور جہیز کے نام پر قتل کی گئی دوشیزائوں کی موت پر خاموش رہنے والی، ایک کمیونٹی کے تاجر کو گئو کشی کرنے والا بتانے والی، اور دوسری کمیونٹی کے گئو کش اور گوشت ایکسپورٹ کرنے والوں کو گئو ماتا کا بھکت کہنے والی، ایک کمیونٹی کے گھر میں سبزی کاٹنے والی چھری کو دھار دار اسلحہ بتانے والی اور دوسری کمیونٹی کے گھروں سے بڑی تعداد میں پائے جانے والے تلوار و ترشول کو معمولی چھڑی ثابت کرنے والی، رنگوں کو ہندو مسلم قرار دینے والی، ہرا کو مسلمان کہنے والی اور گیروے کو ہندو بتانی والی، جانوروں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والی، زانی کو رہبر ، متاثرہ کو ظالم قرار دینے والی، کسی خاص کمیونٹی کے شرعی اور انسانیت پر مبنی حکم کو ظلم سے تعبیر کرنے والی اور کسی کمیونٹی کے ظلم پر مبنی قانون اور رسم و رواج کو ہمدردی گرداننے والی ، صحافتی اصولوں کا قتل کرنے والی، صحافتی اخلاق کا بیڑہ غرق کرنے والی، قاتل ، آمر ، اور راہ زن کو مسیحا ثابت کرنے والی اور مسیحا کو ظالم ، لٹیرا کہنے والی، سرحدو ں کی حفاظت پر مامور فوجیوں کی شہادت پر ان کا مذاق اڑانے والی، سیاسی آقائوں کی خوشنودی کے لیے کسی بھی حد تک گرجانے والی، وطن کے لیے سب کچھ قربان کردینے والے محب وطن کی اولادوں کو دہشت گرد بتا کر جیلوں کی کال کوٹھریوں میں ڈلوانے والی، اور انگریز ظالم سے معافی نامہ حاصل کرنے والے بزدل کو ویر کا لقب دے کر اس کی نسل کو محب وطن ثابت کرنے والی، دہشت گردی کے شکار مسلمانوں کو ہی دہشت گردی میں گرفتار کرانے والی، اور جنہوں نے دہشت مچائی، معصوموں کے لہو سے ہولی کھیلی ان کو بچانے کےلیے تحریک چھیڑنے والی ، نظام الدین مرکز میں موجود افراد کو ’چھپے‘ اور کسی مندر میں موجود شردھالوئوں کو ’پھنسے‘ ہوئے بتانے والی، نظام الدین کو کرونا کا مرکز بتانے والی، نمستے ٹرمپ ریلی ، پوری رتھ یاترا کی بھیڑ کو نظر انداز کرنے والی، مسلم لیڈران کی تقریر کو اشتعال انگیز اور کمیونٹی مخالف بتانے والی، وہیں بولی کا جواب گولی سے اور دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو جیسے اشتعال انگیز نعرہ لگانے والوں کی اشتعال انگیزی کو شیریں تصور کرتے ہوئے ان کے تلوے چاٹنے والی، بے شرم ، ڈھیٹ ، آبروباختہ، بے ضمیر، بے حیاء ، اخلاق و کردار سے عاری ، سرکش گودی میڈیا ہوں۔ 
گودی میڈیا مجھے ویسے ہی نہیں کہا گیا ہے بلکہ ہر دور اور ہر زمانے میں صحافت میں کچھ افراد ایسے تھے جو بادشاہوں، وزراء اور امراء کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے، ان کے غلط کو صحیح ، جھوٹ کو سچ ، ظلم کو ہمدردی بنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے تھے، اس وقت میڈیا نہیں تھا وہ چمچوں کا دور تھا زمانے نے ترقی کی، ڈیجیٹل دور آیا ، چمچے بھی ڈیجیٹل ہوگئے، جب جس پارٹی کی حکومت بنی، حالات کے اعتبار سے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا، کبھی بڑی تعداد میں گودی میڈیا میں افراد شامل رہے، کبھی بعض ضمیر کی آواز پر تائب ہوئے، یہ سلسلہ چلتا رہا؛ لیکن مجموعی طور پر حکومت کی غلط پالیسیوں پر نقد کے بجائے اسے عوام کی سہولیات بناکر پیش کرنے کا رجحان ہندوستان میں ۲۰۱۳ کے بعد سے زور پکڑا، گودی میڈیا کے ٹرائل کی وجہ سے ہی ۲۰۱۴ میں حکومت تبدیل ہوئی ، عوام کو بڑھتی مہنگائی، روزی وروزگار کا وعدہ کراکر لبھایا گیا، ہندو مسلم کرکے ماحول سلگایا گیا، پاکستان میں جشن منانے کی بات کہہ کر اکثریتوں کے ذہنوں سے کھیلا گیا، لیکن انتخاب جیتنے کے بعد کے احوال سے سبھی واقف ہیں کہ آج مہنگائی کا کیا عالم اور روزی روزگار کو کیسے عوام ترس رہے ہیں؛ لیکن ہم گودی میڈیا والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں، ہم دن رات پاکستان مردہ باد، مسلمان پاکستانی، پاکستان دہشت گرد، کشمیری دہشت گرد، جامعہ دہشت گرد، جے این یو دہشت گرد، اے ایم یو دہشت گرد، جناح دہشت گرد، گوڈسے محب وطن وغیرہ، طلاق ثلاثہ ، بابری مسجد ، لوجہاد ، گئو کشی ، جیسے ایشوز میں عوام کو الجھائے رہتے ہیں کہ ان کو موقع ہی نہ ملے کہ وہ حکومت سے سوال کریں؛ بلکہ وہ تو پندرہ پندرہ لاکھ کا نام سن کر ہی خوش ہوجائیں ، بیس ہزار کروڑ کا ہندسہ گننے میں ہی اپنا وقت صرف کریں، اگر کسی کے ہوش وحواس باقی ہوں اور وہ سوال کرتا بھی ہے تو ہم گودی میڈیا والے اسے انتہائی چالاکی اور خوبصورت اینکروں کی دلبربا ادا سے مسحور کرا کر ان کا ذہن مشغول کردیتے ہیں پھر انہیں کچھ یاد نہیں رہتا۔ اصل مسائل سے عوام کو دور رکھنا ہمارا کام ہے۔ نان ایشو کو ایشو بناکر پیش کرنا ہمارا مشن ہے۔

۲۰۱۶ سے قبل لوگ گودی میڈیا سے واقف نہیں تھے کسی اور نام سے جیسے بے ضمیر و دلال صحافت وغیرہ ، گودی میڈیا کا لفظ این ڈی ٹی وی کے دو کوڑی کے اینکر رویش کمار کی زبان سے ہی اکثر وبیشتر نے سنا ہوگا اور اسی کی کرم فرمائی سے یہ ایک اصطلاح بن گئی، جو ہم دلال کی پہچان ہے، سیکولر عوام دور سے ہی جان جاتے ہیں کہ ہم دلال ہیں، ضمیر فروش ہیں، نفرت کے سودا گر ہیں ، وہ ہمارے خلاف ایف آئی آر بھی کرواتے ہیں؛ لیکن ہمارے سروں پر دست شفقت اتنا مضبوط اور طاقتور ہے کہ ایف آئی آر وغیرہ کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا اور انصاف کی دیوی خود انصاف کا قتل کرکے خوشی محسوس کرتی ہے۔ 

یہ ہمارا ہی کمال ہے کہ  لاکھوں مزدوروں کو بے سروسامانی کے عالم میں اپنے وطن کیلئے جانا پڑا، لیکن اس سے حکومت پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ پٹریوں پر کچل دیئے گئے؛ لیکن ہم نے سب سنبھال لیا۔ ٹرینیں راستہ بھٹک گئیں؛ لیکن ہم نے عوامی ذہنوں کو ایسا بھٹکایا کہ کوئی پوچھنے کی ہمت نہیں کرسکا اور جس نے بھی ہمت کی ہم نے اپنے آقاؤں کا حق نمک ادا کرتے ہوئے اسے ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 
 *ہم بے مثال ہیں، کوئی ضمیر فروشی میں ہمارا ہمسر نہیں ہوسکتا۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں، جن سے انسانیت ، صداقت ، انصاف ، سچائی کی ہار ہو۔ ہم جھوٹ کے سہارے جیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اسی جھوٹ کے سہارے جینے کا سپنا دکھاتے ہیں۔ ہمیں کوئی پریشانی نہیں؛ کیونکہ یہاں پر کوئی کسی کا پرسان حال نہیں، جب تک عوام بیوقوف بنتے رہیں گے ہم انہیں بیوقوف بناتے رہیں گے۔* 
.