Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 24, 2020

آیا صوفیہ مسجد نمازیوں کے لیے کھول دی گئی۔

ترکی کے استنبول میں واقع عالمی ثقافتی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ آج 24 جولائی کو جمعے کی نماز کے ساتھ 86 برس بعد نمازیوں کے لیے کھولی جارہی ہے۔

استنبول۔۔۔ترکی/صداٸے وقت /ذراٸع/24 جولاٸی 2020.
==============================
ترکی کے صدر رجب طیب اردغآن کے ہم راہ سینکڑوں افراد آج اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کیے۔۔ آیا صوفیہ کی عمارت سن 537 میں بازنطینی شہنشاہ جسٹنین اول کے دور میں ایک چرچ کے بہ طور تعمیر کی گئی تھی۔  قسطنطیہ پر سلطنت عثمانیہ کے قبضے کے بعد آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم سلطنتِ عثمایہ کے خاتمے کے بعد جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے اسے میوزم میں بدل دیا تھا
چند روز قبل ترکی کی ایک عدالت کی طرف سے آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد صدر ایردوآننے اعلان کیا تھا کہ اس عمارت کو جلد ہی ایک مسجد کے طورپر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ حالانکہ ان کے اس اعلان پر دنیا کے کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے افسوس اور ناخوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان میں امریکا، یورپی یونین، روس، یونان اور یونیسکو نمایاں تھے۔
’آیا صوفیہ کلیسا، مسجد یا میوزیم‘
صدر رجب طیب ایردوآن نے آیا صوفیہ کو نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولے جانے سے قبل ایک ٹوئٹ میں آیا صوفیہ کے ’مسجد ہونے’ کے حوالے سے متعدد زبانوں میں گائے گئے گانے گئے ایک گیت کے ہم راہ لکھا، ’آیا صوفیہ اے آیاصوفیہ تیرے گنبد پر سے ہوائیں آزادی سے چھوتی رہیں‘ ایردوآن کے ٹوئٹ سے نتھی ویڈیو میں  آیا صوفیہ سے متعلق اشعار اور مذہبی موسیقی شامل تھی جب کہ اس کلپ میں کرغیز، بوسنیا، البانیائی، آزربائیجانی، کرد، سواحلی، عربی، بنگالی اور ترکی زبان کے گلوکاروں کی آواز میں ایک نغمہ پیش کیا گیا ہے۔
ترکی میں مذہبی امور کی نگران قومی مقتدرہ، جو 'دیانت‘ کہلاتی ہے، نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث کی فہرست میں شامل اس عمارت میں موجود کوئی بھی مسیحی مذہبی علامت یا تاریخی پینٹنگز وہاں سے ہٹائی نہیں جائیں گی۔ ایسی مذہبی علامات کو نماز کے وقت یا تو پردے لگا کر ڈھانپ دیا جائے گا یا پھر داخلی طور پر روشنی کا انتظام اس طرح کیا جائے گا کہ یہ علامات براہ راست اور بالکل سامنے نظر آنے والی اشیاء اور دیواروں پر پینٹنگز کے طور پر نہیں دیکھی جا سکیں گی۔’دیانت‘ نے یہ اعلان بھی کیا کہ  نمازوں کے اوقات کے علاوہ مہمانوں کو یہ اجازت بھی ہو گی کہ وہ اندر جا کر اس عمارت کی سیر کر سکیں۔ عمارت کی سیر کے لیے اب کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
 آیا صوفیہ دنیا میں فن تعمیر کے بہترین نمونوں میں سے ایک ہے۔ عمارت کا ایک اور دلکش پہلو موزیک یعنی رنگ برنگی پچی کاری ہے۔ پتھر کے ٹکڑوں کو چاندی، رنگین گلاس، ٹیراکوٹا اور رنگین ماربل سے سجا کرکے یہ اشکال گری کی گئی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں کئی ٹن سونا بھی استعمال ہوا ہے۔ محراب کے بالکل اوپر سیدھ میں پچی کاری کے بیچ میں یسوس مسیح کی تصویر ہے۔ ان کے دائیں طرف حضرت مریم اور بائیں طرف حضرت جبرائیل کی تصاویر ہیں۔ موزیک میں ایک اور شخصیت دکھائی دیتی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ہے۔ یہ شخص بازنطینی شہنشاہ لیونور ششم ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں میں انجیل ہے، جس کے سرورق پر قدیمی رومن میں ”سلام ہو، میں کائنات کا نور ہوں" لکھا ہوا ہے۔ موزیک کی سب سے اہم اور حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ عیسیٰ کے دائیں اور بائیں حصوں پر چہرے کے تاثرات مختلف ہیں۔ چاروں کونوں پر ڈھالوں میں ہر ترک مسجد کی طرز پر اللہ، محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے ترکی کی عدالت کے فیصلے سے قبل مختلف مکاتب فکر نے اسے مسجد کا درجہ دینے کی مخالفت بھی کی تھی جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا تھا کہ اسے مسلمانوں اور مسیحیوں کی مشترکہ عبادت گاہ قرار دے دیا جانا چاہیے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنے، ملک کی خراب اقتصادی صورت حال اور کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے میں ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں اور آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ اسی کا حصہ ہے۔
آیا صوفیہ یونانی لفظ ہے جس کا مطلب مقدس فہم ہے۔ آیا صوفیہ اپنے تعمیر کے وقت دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق رومی شہنشاہ جسٹینین ایک غیرمعمولی چرچ بنانا چاہتے تھے۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزار برس تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔ استنبول کو فتح کرنے کے بعد سلطان محمد عثمان نے اسے مسیحیوں سے خرید کر مسلمانوں کی مسجد میں تبدیل کردیا۔ لیکن جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے 1934میں اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 86 برس بعد اب آج نماز جمعہ کے ساتھ ہی ایک بار اس کی مسجد کی حیثیت بحال ہوگئی ہے۔