Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 24, 2020

آن ‏لاٸن ‏تعلیم۔۔۔مساٸل ‏و ‏مشکلات۔



تحریر/ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ،پٹنہ
                  صداٸے وقت 
              ===========
کورونا وائرس(Covid-19) کی وجہ سے تعلیمی ادارے اب تک بند ہیں اور لاک ٖڈاؤن کی شروعات کے بعد لگتا ہے کہ تعلیمی سال بندی میں ہی نکل جائے گا، ایسے میں بہت سارے لوگ آن لائن تعلیم کی وکالت کرتے ہیں اور بہت سارے ادارے عملاً آن لائن تعلیم کا اہتمام کر بھی رہے ہیں اور مطمئن ہیں کہ تعلیمی نظام جاری ہے۔ اس نظام کا آغاز پہلی بار ویسٹرن بی ہیورل سائنس انسٹی ٹیوٹ لاجولا کیلیفورنیا نے ۱۹۸۲ء  میں کیا تھا اور اسکول آف مینجمنٹ اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں اس کا تجربہ کیا اور کمپیوٹر کانفرنسنگ کے ذریعہ بزنس ایگزیکیوٹوکی شروعات کی، ۱۹۸۹ء  میں امریکہ کی فینکس یونیورسیٹی نے بھی آن لائن تعلیم کا آغاز کر دیااور ۱۹۹۸ء  آتے آتے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسیٹیوں نے اسے اپنا لیا، لیکن یہ طریقہ تعلیم اب تک اس قدر مقبول نہیں ہوا ہے کہ اسکول و کالج کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ 
ہندوستان میں بھی یہ طریقہ پہلے سے رائج ہے اور اعلیٰ نصاب کی تکمیل کے لئے اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے استفادہ آسان ہوتا ہے، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی رہی ہے، ۲۰۱۶ء  میں ہندوستان میں آن لائن ایجوکیشن کی مارکیٹ چوبیس کروڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر تھی، اب کورونا وائرس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ ۲۰۲۱ء  تک یہ ایک ارب امریکی ڈالر کی حد کو پار کرلے گا، تعلیم کی مارکیٹنگ کرنے والے اس پر پوری توجہ اس لئے بھی صرف کر رہے ہیں کہ کلاس روم کے تعلیمی نظام کی بہ نسبت آن لائن تعلیم پر ایک سو پچھتر فی صد کم خرچ آتا ہے، لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان اب بھی غریب ملک ہے، یہاں یومیہ آمدنی فی کس لاک ڈاؤن کے پہلے بھی ۲۔۳ امریکی ڈالر سے کم تھی، ایک سروے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعدادہندوستان میں اکاسی کروڑ بیس لاکھ تھی، لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اب اکانوے کروڑ پچاس لاکھ ہو گئی ہے۔ ۲۔۳ امریکی ڈالر کا مطلب آج کے اعتبار سے صرف دو سو انتالیس روپئے ہے، اتنی کم آمدنی میں آدمی اپنی ضروریات زندگی؛ کھانا، کپڑا اور مکان کے لئے فکرمند ہوگا،یا اپنے بچوں کو انڈرائیڈ موبائل، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹاپ خرید کر دے گا؟اور اگر خرید بھی دے کسی طرح،تو ماہانہ انٹرنیٹ کا خرچہ کہاں سے لائے گا؟ بھوکے رہ کر بچوں کے مستقبل کے لئے یہ سب کر بھی لے تو دیہات اور گاؤں میں موبائل چارج کرنے کے لئے بجلی کہاں سے دستیاب ہوگی؟ ان میں سے کوئی ایک بھی کڑی ٹوٹی تو آن لائن تعلیم سے فائدہ اٹھانا بچوں کے لئے مشکل ہی نہیں، ناممکن ہو جائے گا۔ 
آن لائن تعلیم کی حمایت کرنے والے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب ہر شخص کے پاس انڈرائیڈ موبائل ہے، اس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، آج بھی بڑی آبادی کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے، اور وہ نوکیا کے اسی پرانے ماڈل سے کام چلاتے ہیں جس کو ڈائل کرنے کے لیے بٹن دبانا پڑتا ہے، کیوں کہ ان کے پاس اسکرین ٹچ اسمارٹ فون حاصل کرنے کے لیے قوت خرید نہیں ہے، ا س کے علاوہ ہندوستان جنگلوں اور دیہاتوں میں بھی بستا ہے؛ بلکہ ساٹھ سے ستر فی صدی آبادی وہیں بستی ہے، جہاں موبائل کا نیٹ ورک نہیں رہتا اور بجلی غائب ہوتی ہے تو ہفتوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، ان ساری مشکلات پر قابو بھی پا لیا تو آن لائن تعلیم کلاس روم کا بدل نہیں ہے، کلاس روم میں استاذ صرف پڑھاتا ہی نہیں، بچوں کی نفسیات اوراس کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا ہے، اس کے ہوم ورک اور روز مرہ کی کاپیوں کو بچوں کے سامنے چیک کرکے ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے، بچے کلاس روم میں صرف استاذ کا لکچرنہیں سنتے،وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے لئے بھی استاذ سے رجوع کرتے ہیں اور جواب پاتے ہیں، استاذ کے لکچر کی طرف طلبہ کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، آن لائن کلاس میں بچہ گھر پر ہوتا ہے، اسے اسکول کا ماحول نہیں ملتا، گھر میں دوسرے بچے اورلوگ دوسری مشغولیت میں لگے ہوتے ہیں، گھر میں ہو رہے شور شرابے سے طلبہ کا ذہن اسباق پر مرکوز نہیں ہو پاتا، اساتذہ بھی طلبہ پر آن لائن کلاس میں توجہ نہیں دے سکتے، ان کی ساری توجہ اسکرین پر رہتی ہے، بچہ لیپ ٹاپ کے اسکرین پر بیٹھا کیا کر رہا ہے، یہ استاذ کو معلوم نہیں ہوتا اور بیش تر گارجین کی دلچسپی اپنی کم علمی اور صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے آن لائن کلاس کے وقت بچوں کی طرف نہیں ہوتی، وہ صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر اسے بٹھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور بچے کارٹون اور ڈیجیٹل گیم میں لگ جاتے ہیں، جب کہ کلاس روم میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ 
جو لوگ اس کام پر لگائے گئے ہیں وہ اساتذہ ہی ہیں، لیکن انہیں اس طریقہ ئتدریس کی تربیت نہیں دی گئی ہے اور انہیں یوں ہی بورڈ اور اسکرین پر کھڑا کر دیاگیا ہے، یہ عجیب و غریب بات ہے کہ کلاس روم میں پڑھانے کے لئے تو دو سال کی ٹریننگ ضروری قرار دی جائے اور آن لائن تعلیم کے لئے دس بیس روز کا ریفریشرکورس بھی نہ کرایا جائے، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کلاس روم میں جو الٹا سیدھا استاذ پڑھا دیتاہے اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوا کرتا، معلومات بچوں میں صحیح منتقل ہوتی ہے یا غلط اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن آن لائن کلاس کا ریکارڈ ہوتا ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ بعض وجوہات سے ہماری جگ ہنسائی نہ ہو، جیساکہ اساتذہ سے ذرائع ابلاغ والوں کے  ذریعہ لیے گئے انٹرویو کے طشت از بام ہونے کی وجہ سے باربار خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آن لائن تعلیم دلوارہے ہیں اور ابتدائی نہیں، اعلیٰ درجات میں ماہر پیشہ ور اساتذہ کو اس کام میں لگا رکھا ہے، وہ بھی اس طریقہئ تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں، وہ اسے گپ شپ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، تبھی تو یوجی سی جیسے اعلی ادارے نے گریجویشن، ایم اے بلکہ بی ٹیک وغیرہ میں بھی پرانے نمبرات کی بنیاد پر ترقی دینے کا اعلان کر دیا ہے، جب اعلی درجات میں اس طریقہئ تعلیم کا فائدہ اس قدر نہیں ہوا کہ نصاب کو مکمل قرار دے کر امتحان لیا جائے اور بچوں کی کامیابی، ناکامیابی کی بنیاد پر ترقی کا فیصلہ لیا جائے، تو بھلا پرائمری اور ثانوی درجات کے بچے کس قدر اس طریقہ تعلیم سے استفادہ کر سکیں گے، جگ ظاہر ہے۔ 
 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ بند کر دیا جائے، بالکل نہیں؛نام کی حد تک صحیح، بچوں کو درسیات سے جوڑے رہنے کا یہ ایک طریقہ ہے، خود امارت شرعیہ کے امارت پبلک اسکول گریڈیہ اور رانچی میں آن لائن کلاسز چلائے جا رہے ہیں، مدرسہ میں درجہ حفظ کی تعلیم اسی طرح دی جا رہی ہے، عربی درجات کے بعض اسباق کے لیے بھی اس طریقہ کو کام میں لایا جا رہا ہے، اس کے با وجود آن لائن تعلیم کے لیے دو سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک یہ کہ جو اساتذہ آن لائن پڑھا رہے ہیں یا پڑھانا چاہتے ہیں، سرکاری سطح پر ان کی تربیت کا نظم کیا جائے، دوسرے کورونا وائرس سے بچنے کے لئے جو گائیڈ لائن حکومت نے دیا ہے اس کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے اسکول کو کھولا جائے، ثانویہ اور اعلیٰ درجات میں تویہ چنداں مشکل نہیں ہے، جب کارخانے اور دفاتر تیس فی صد کارکنوں کے ساتھ کھولے جا سکتے ہیں،تو کئی شفٹ میں سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی ادارے اپنی سرگرمیاں کیوں نہیں جاری رکھ سکتے؟ ایسا لگتا ہے کہ سرکار کی نظر میں معاشی مسائل کے مقابلے تعلیم کی بہت اہمیت نہیں ہے، اس لئے معاشی سرگرمیوں کے لئے چھوٹ دی جارہی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پرمضبوط پہرہ بحال کر رکھا ہے۔