Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 31, 2020

نعمتوں ‏پر ‏شکر ‏اور ‏مصاٸب ‏پر ‏صبر ‏مطلوب ‏ہے۔۔



از / مولانا عبد الرشید المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ  بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی 
                   صداٸے وقت 
             ====--========
 بسم اللہ الرحمن الرحیم

 انسان اس دنیا میں صبر وشکر دوامروں  کے درمیان ہر وقت دائر ہے
 اللہ کا بندہ اپنے اوپر آنے والے حالات کے لحاظ سے پریشانی یاراحت میں ہوتا ہے پریشانی پر صبر کرتا ہے اور راحت  میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے اس پر کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں جن پر صبر کا مطالبہ ہے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن پر شکر کا مطالبہ ہے انسان ہر وقت صبر اور شکر کی دو پہیہ سواری پر سوار ہے انعامات الہیہ تو بے شمار ہیں اور مصیبت کبھی اور کم آتی ہے نعمتوں کے مقابلے میں آزمائش کم ہوتی ہے مگر انسان مصیبت میں بہت جلد گھبراجاتا ہے نعمت پر شکر کرتا ہے تو انسان کا نفع ہے ، مصیبت پر صبر کرتا ہے انسان کانفع ہے ، اللہ تعالی نے دونوں پر جزاء اور بدلہ  کا وعدہ فرمایا ہے شکر پر نعمت  کا اضافہ مرتب ہوتا ہے صبر پر اللہ کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے بندہ خداء ہر حال میں راضی بہ قضا ءخداوندی ہوتا ھے اور جو بندہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے حق تعالی شانه اس کو اپنی رضاء  اور خوشنودی عطاء فرماتے ہیں 
مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ مؤمن کامعاملہ عجیب  ہے  اس کے تمام حالات میں خیر ہے اور یہ حصہ صرف مؤمن بندے  کا ہے اگر اس کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر  کرتا ہے اور اگر اس کے سامنے کوئی نقصان دہ عمل ہے تو صبر کرتا ہے یہ اس کے لئے خیر ہوتا ہے 
ترمذی وغیرہ کی روایت میں آتاہے کہ  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کے سامنے رسول اللہ صلی وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم اللہ تعالی پر ایساتوکل اور بھروسہ کرو جیسا اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تم کو اس طرح روزی عطاء فرمائیں گے جس طرح چڑیوں کو روزی پہنچاتے ہیں اس کا حال یہ ہے کہ صبح کو اپنے ٹھکانے  سے نکل کر خالی پیٹ جاتی ہے اور شام کو پیٹ بھر کر  واپس آتی ہے (مشکوۃصفحہ نمبر 452)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرمان نبوی نقل کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو جو چیزیں جنت سے قریب کرنے والی ہیں اور جہنم سے دور رکھنے والی ہیں ان سب کا تم کو میں نے حکم دے دیا اور جو چیز تم کو جہنم سے قریب کرنے والی اور جنت سے دور کرنے والی ہے ان سب سے میں نے تم کو منع کردیاہے  اور روح الامین( جبریل علیہ السلام) نے میرے قلب  پر پھونک ماری ہے ( اور مجھے بتایا ہے ) کہ کوئی نفس اس وقت تک فنا نہیں ہوگا جب تک اپنا رزق پورا نہ کرلے
 سنو تم اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور طلب اور دعاء   میں اجمال اختیار کرو اور رزق کا دیر کرنا اور مؤخر کرنا تم کو اس بات پر نہ ابھارے کہ تم اس کو اللہ کی نافرمانیاں کرکے طلب کرو  اس لیے کہ اللہ کے پاس جو ہے اس کو اس کی طاعت ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے (شرح سنہ مشکو ۃ  شریف صفحہ نمبر 452)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا حلال کو حرام کر لینا اور مال کو ضائع کر نے ( پھینک دینے )کا نام زھد فی الد نیا نہیں ہے 
زھد فی الدنیا کا حاصل یہ ہے کہ جو تمہارے ہاتھ میں ہے اس پر اس کے مقابلے میں زیادہ اعتماد نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے
(مشکوۃ شریف صفحہ نمبر 453)حضرت عباس رضی اللہ تعالی  عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پیچھے موجود تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو اللہ تمہاری حفاظت کرے گا دنیا اور آخرت میں ناپسندیدہ حالات سے بچائے گا اللہ کے حقوق کی حفاظت اور پاسداری کرو اللہ کو اپنے ساۓ میں  پاؤ گے اور جب کسی چیز کا سوال کرنا چاہو تو اللہ ہی سے سوال کرو اور جب مدد طلب کرو اللہ ہی کی مدد طلب  کرو اور اس بات کو یقین کے ساتھ جان لو کی امت اگر اس بات پر اکٹھی ہو جائے گی تم کو کوئی نفع پہنچائے تو تم کو اتنا ہی نفع پہنچا سکتی ہے جتنا اللہ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر سارے کے سارے لوگ ملکر تم  کو نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا نقصان اللہ نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے (تقدیر کا قلم تقدیر کو لکھ کر) اٹھا لیا گیا اور صحیفے( تقدیر میں لکھے ہوئے ) خشک ہو چکے ہیں(اب وہ مٹنے والے نہیں)(مشکوۃشریف )
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا انسان کی سعادت ہے انسان کی بدبختی ہے کہ  اللہ سے خیر مانگنا چھوڑ دے اور یہ بھی انسان کی بدبختی ہے  اس کے لیے اس نے جو فیصلہ فرمایا اس پر راضی نہ ہو (ترمذی)
 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ایسی آیت جانتا ہوں اگر لوگ اس پر عمل کریں تو یقینا وہ ان کے واسطے کافی ہوگا جو شخص تقوی اختیار کرے اللہ تعالی اس کے لیے راستہ نکال دیں گے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیں گے کہ اس کے گمان میں بھی نہ ہوگا (کہ وہاں سے رزق آۓ گا )(مشکوۃ شریف453)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے رب عز وجل   نے ارشاد فرمایا اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو رات میں ان پر بارش برسا ؤں اور دن میں سورج نکال  دوں اور انہیں  بجلی کی (کڑک کی) آواز بھی نہ سناؤں گا (مشکوۃشریف ص454)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی وسلم نے ارشاد فرمایاکہ رزق بندے کو اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح موت اس کو تلاش کرتی  ہے(مشکوۃ شریف ص454)
 قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ زمین پر ہر چلنے والے کی روزی کا ذمہ اللہ نے لیا ہے الغرض رزق کا فیصلہ منجانب اللہ ہے حالات بھی منجانب اللہ آتے ہیں صبر ہر حال میں اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے جب صبر کا مطالبہ آویے تو صبر کریں  اور جب شکر کاحال آوے تو شکر کریں اللہ تعالی نے ہمیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ ان کو ہم شمار نہیں کر سکتے تو پھر اس کا شکر کیوں ادا کر سکتے ہیں اس کی نعمتوں کا شکریہ اداکرنے کے ساتھ ساتھ  اللہ سے معافی مانگتے رہنا چاہیۓ کہ ہم سے حق  شکر ادا نہ ہوسکا اور ہر نعمت کا شکر اس کے مطابق ہے اس وقت لوگوں پر  حالات ہیں کچھ لوگ تو اپنی حاجت ظاہر کردیتے ہیں اور کچھ خوش نصیب بھی ہیں کہ ظاہر نہیں ہونے دیتے اس کی کوشش کرتے ہیں اسلئے  ایسے لوگوں کا پتہ لگانا بھی ایک اہم کام ہے ان کی خبرگیری خاموشی سے کرنا بہت ثواب رکھتا ہے اللہ تعالی سے گھر کی وسعت اور اس کی برکت کی دعا کرنی چاہیے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اپنی ضروریات میں سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے اللہ تعالی امت کے حال کو درست فرمائیں  اور مصیبت کی گھڑی دور فرمائیں