Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 26, 2020

یادوں ‏کے ‏چراغ۔۔۔۔۔۔پروفیسر ‏فیضان ‏اللہ ‏فاروقی۔( ‏ہم ‏تجھے ‏یوں ‏بھلا ‏نہ ‏پاٸیں ‏گے ‏)

                    تحریر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
                  صداٸے وقت 
               ===========
جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی شعبہ عربی کے پروفیسر، سفل(SEFL) حیدرآباد، بڑودہ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبئہ عربی کے سابق ریڈر،ترجنوں تعلیمی ادارے و اکادمی کے رکن ،عربی و فارسی زبان وادب کی تاریخ جلد دوم سوم کے مرتب،انسایکلوپیڈیا آف اسلام (۲۵جلد)،اردو زبان کی انسایکلوپیڈیا، قدیم تامل ناڈو کی چار سو سالہ تاریخ ادب عربی و فارسی،انیسویں صدی میں عربی و مطالعات اسلامی کا مرکز لکھنؤ کے مرتب اور شریکِ ترتیب،اردو،فارسی،عربی،انگریزی، ہندی زبانوں کے ماہر اور فن کے رمزشناس اور محقق ڈاکٹر پروفیسر مولانا فیضان اللہ فاروقی حال مقام ۱۸۸ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی۔ ۲۵ کا ۲۲/جولائی ۲۰۲۰ء کو رات کے دوبجے دہلی کے اسکارٹ اسپتال میں انتقال ہوگیا، وہ وبائی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور ایک ہفتہ سے ہوسپیٹل میں داخل تھے؛لیکن وقت موعود آگیا تھا، اس لئے چل بسے، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز ظہر ان کے چھوٹے صاحب زادہ ابو طلحہ فاروقی عرف ثانی نےپڑھائی، اور آئ ٹی او کے قریب والے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، کور نا سے مرنے والوں کے لیے ڈبلو اچ او کے ضابطہ کی وجہ سے تجہیز و تکفین میں محدود لوگوں کی شرکت ہوسکی اور بہت سارے لوگ عدم شرکت کی وجہ سے دل مسوس کر رہ گئے، پس ماندگان میں اہلیہ، اور دو لڑکے عرفان اللہ فاروقی ، ابوطلحہ فاروقی اور ایک لڑکی آمنہ فاروقی کو چھوڑا،  دونوں لڑکے الگ الگ یونیورسٹیوں میں لکچرر ہیں اور لڑکی ابھی زیر تعلیم ہے۔
 مرحوم پروفیسر فیضان اللہ فاروقی 

پروفیسر فیضان اللہ فاروقی بن جناب سبحان اللہ مرحوم کی ولادت ۵/ جولائی ۱۹۵۲ء کو ضلع اعظم گڑھ (موجودہ ضلع مئو) کی ایک بستی کوریا بار میں ہوئی، ان کی نانی ہال اسی ضلع میں واقع سنبھی گاؤں میں تھی، ان کے ماموں جناب حفیظ الرحمٰن ایمن کان پور میں سرکاری ملازمت میں تھے، لیکن اسلامی افتاد طبع اور بچوں کو دینی ماحول دینے کی وجہ سے سرکاری ملازمت چھوڑ کر دارالعلوم مئو ناتھ بھنجن میں دفتری امور کے ذمہ دار ہو  گئے تھے اور کچھ اسباق بھی منتہی درجات میں پڑھایا کرتے تھے، اچھے خوش فکر شاعر تھے، پروفیسر فیضان اللہ فاروقی صاحب صرف چھ سال کی عمر میں تعلیم وتربیت کی غرض سے اپنے ماموں کے پاس دارالعلوم مئو چلے آئے، اور ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۵ ءتک یہیں مقیم رہے،تعلیم کے آغاز سے لیکر ابتدائی عربی درجات تک کی تعلیم یہیں پائی۱۹۶۵ ء تا۱۹۶۷ء  احیاء العلوم مبارک پور، میں قیام رہا، یہاں عربی کی ثانوی درجات کی کتابیں انہوں نے پڑھیں، ۱۹۶۷ء میں ہی دارالعلوم دیوبند میں درجہ ہفتم میں داخل ہوئے اور ۱۹۶۸ء میں بخاری شریف حضرت مولانا فخرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھنے اور دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد یہیں سے سند فراغت حاصل کی۔
تدریسی زندگی کا آغاز ۱۹۶۹ء میں دارالعلوم مئو سے کیااور یہاں ۱۹۷۱ء تک منشی درجہ میں معیاری کتابیں پڑھاتے رہے، ۱۹۷۱ء میں جب مولاناحسین احمد ناصری کی نگرانی میں میرا داخلہ درجہ حفظ میں ہوا تو میرا قیام بھی پروفیسر صاحب والے کمرے میں دارالعلوم کی اوپری منزل کے کمرہ نمبر ۱۳میں تھا، مولانا حسین احمد صاحب بھی اسی کمرہ میں رہتے تھے، اسی مناسبت سے مجھے بھی اسی کمرہ میں جگہ مل گئی، اس زمانہ میں سیڑھی سے متصل اوپر والے کمرہ میں مولانا افتخار الحسن صاحب اور مغربی حصہ کے آخری چھوڑ پر حضرت مولانا نیاز احمد صاحب جہان گنجی رہا کرتے تھے، بعد نماز عصر باہر کے حصہ میں کرسیاں لگتیں اور ان حضرات کی مجلسیں لگتیں،میں انتہائی چھوٹا طالب علم تھا، اس لیے باریابی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، دور ہی سے ان حضرات کی مجلس کو دیکھتا اور کہنا چاہیے کہ وہ ٹک ٹک  دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنا رہتا تھا۔
غالباً ۱۹۷۲ء میں پروفیسرفیضان اللہ صاحب نے دارالعلوم چھوڑ دیا اور عصری تعلیم کے حصول کے لیے مولانا شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخلہ لے لیا، انہوں نے اس کالج سے عربی، انگلش اور تاریخ لے کر ۱۹۷۴ء میں بی اے کی سند اول نمبر سے حاصل کی، ۱۹۷۶ء میں آلہ آباد یونیورسٹی سے عربی میں ام اے اور یہیں سے عربی میں ۱۹۸۴ء میں پی اچ ڈی کیا، ان کے مقالہ کی نگراں ایس ایم رفیق تھے،اس سے قبل وہ ۱۹۷۹ء میں جامعہ ملیہ دہلی میں لکچرر ہوگئے تھے، ۱۹۸۰ء تک یہیں آپ زبان وادب کی خدمت انجام دیتے رہے،اسی سال ۲۵دسمبر کو بارہ بنکی میں آپ کی شادی محمد مصطفیٰ مرحوم کی دختر نیک اختر سے ہوئی، ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار تھی، فروری ۱۹۸۰ء میں آپ بڑودہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے وابستہ ہوگئے اور فروری ۱۹۸۳ء تک اپنی خدمات بحیثیت لیکچرار پیش کیں،مارچ ۱۹۸۳ء میں آپ نے سفل(SEFL) حیدرآباد جوائن کرلیا اور ۱۹۸۷ء تک شعبہ عربی کو پروان چڑھانے میں مشغول رہے، مارچ ۱۹۸۷ء میں جے ان یو نئ دہلی بحیثیت ریڈر تشریف لائے اور جون ۱۹۹۷ء تک بحیثیت ریڈر شعبہ عربی میں طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں، جون ۱۹۹۷ء میں آپ کی ترقی پروفیسر کے عہدہ پر ہوگئ اور آپ مئ ۲۰۱۶ء تک اسی عہدہ پر رہ کر سبکدوش ہوئے۔
پروفیسر فیضان اللہ فاروقی کی پوری زندگی دارالعلوم مئو کے چند سال چھوڑ کر عصری علوم کی تدریس میں گذری، انہیں سائنس اور مطالعہ سماج (سوشل سائنس) میں بھی اچھی درک تھی، عربی و فارسی کے ماہر فن کی حیثیت سے پورے ملک میں ان کی شناخت تھی، انہوں نے عربی زبان وادب کے حوالہ سے دسیوں مقالے لکھے، جسے انہوں نے سیمیناروں میں پیش کیا، اور ملک کے باوقار علمی رسائل میں طبع ہوۓ، شعر و شاعری کی بھی مضبوط صلاحیت تھی لیکن انہوں نے اسے کبھی ذریعہ عزت نہیں سمجھا،اتنی شہرت اور عظمت کے باوجود وہ اندر سے پورے طور پر عالم تھے، انہوں نے عصری درسگاہوں سے منسلک ہونے والے کئی قاسمی اور ندوی کی طرح اپنی وضع قطع نہیں بدلی،وہ بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے برابر کوشاں رہے،انہوں نے اپنی رہائش گاہ ابوالفضل میں اپنے صرفہ سے ایک مکتب بھی قائم کررکھا تھا، جس سے قرب و جوار کے بچے مستفید ہوتے تھے، اس کے لئے وہ اچھے معلم کا انتخاب کرتے تھے، یونیورسٹی میں بھی جو طلبہ ان سے قریب ہوتے ان کی وہ دینی تربیت کی فکر کرتے رہتے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف و تالیف اور مختلف زبانوں میں ترجمہ کا اچھا ملکہ دیا تھا،انہوں نے قرآن کریم پر مولانا مصطفیٰ اعظمی کی ایک کتاب کے ترجمہ و تحقیق کا کام آٹھ سو صفحات میں کیا تھا، یہ کتاب نظر ثانی کے لیے حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کو دیا تھا ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب دارالعلوم دیوبند کے مکتبہ سے چھپے ،اتفاق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف، مترجم اور نظر ثانی کرنے والے ارکان ثلثہ سبھی رخصت ہوکر اللہ کے پاس پہنچ گئے اور یہ کام معرض التوا میں ہی رہا۔ 
دارالعلوم مئو چھوڑنے کے بعد پروفیسر صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی، میرے دوست محمد اشرف خاں جو جامعہ ملیہ کے فائن آرٹ سے منسلک ہیں، دہلی کے ایک سفر کے دوران بتایا کہ پروفیسر فیضان اللہ فاروقی یہیں قریب میں رہتے ہیں، وقت لے کر میں ان کے در دولت پر حاضر ہوا، اور بچپن کی ملاقات کا ذکر کیا تو سب کچھ انہیں یاد آگیا، پرانے اوراق الٹنے لگے، تذکرہ مولانا فیض الرحمن صاحب کا بھی آیا جو میرے قطبی کے استاذ اور پروفیسر صاحب کے ماموں زاد بھائی ہیں، بعد میں عربک پرشین بورڈ الہ آباد کے رجسٹرار بھی  ہوگئے تھے، بات نکلی تو دور تک چلی، انہوں نے ضیافت اور خاطر داری بھی خوب کی، پھر وہاں سے چلا آیا، بات کئی سال پرانی ہوگئی،پھر دوبارہ ملنا نہیں ہوا، لیکن ان کی یاد دل میں تازہ تھی اور مولانا حسین احمد صاحب ناصری سے مجلسی گفتگو میں ان کا ذکر آتا رہتا تھا، پھر معلوم ہوا کہ انہوں نے دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، جو آیا ہے اسے جانا ہی ہے، لیکن جب کسی بافیض شخصیت کے اٹھنے کی خبر ملتی ہے تو دل بے چین ہوجاتا ہے، مارچ سے اب تک کتنے ذی علم لوگ چلے گئے، حدیث میں قرب قیامت کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ علم یعنی صاحب علم اٹھ جائیں گے، تو کیا اتنی کثرت سے علماء کا رخصت ہونا یہی بتا رہا ہے کہ قیامت قریب ہے، جانے والے کے لیے دعاۓ مغفرت، پس ماندگان کے لئے صبر جمیل کے ساتھ اپنے اعمال کی فکر بھی کرتے رہیے، پتہ نہیں کب بلاوا آجائے؟