Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 9, 2020

جمعہ نامہ۔۔۔۔۔۔ کوٸی ‏چارہ ‏نہیں ‏دعا ‏کے ‏سوا۔۔۔۔۔کوٸی ‏سنتا ‏نہیں ‏خدا ‏کے ‏سوا ‏۔

از/ ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
=============================
ارشادِ ربانی ہے:  ’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے‘‘نبی اکرم ﷺ نے  اس آیت کی  تفسیر میں:’ دعا ہی عبادت ہے‘ کہہ کر اسے  تلاوت فرمایا۔  نبی کریم  ﷺ کا فرمان ہے : ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ،وہ ہررات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آکر فرماتاہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں‘‘۔ رات کے آخری پہر کی  تسبیح و مناجات بندۂ مومن  ا کو اس  مقام  بلند تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ  رب کائنات سے نہایت  قریب ہوجاتا ہے  اور سرگوشی کرنے لگتا ہے۔ بندے کی  اس  حالت پر  علامہ  اقبال کے  یہ شعر صادق آتا ہے کہ   ؎
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی اپنے بیٹے کے حق میں دعا ۔ اس حدیث میں سب سے پہلے مظلوم کو یقین دہانی کرائی گئی  ہےکہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔  انسان جب کسی ظالم کی تعذیب کا شکار ہوتا ہے تو  وہ سب سے پہلے دنیاوی سہاروں کی جانب لپکتا ہے لیکن جب ان سب سے مایوس ہوجاتا ہے تو بالآخر اپنے خالق و مالک کے آگے دست دعا پھیلا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اس کو ظلم و ستم سے نجات مل جائے ۔  مشیت الٰہی کے تحت جب اس میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔ وہ  شیطانی وسوسوں کا شکار ہوکر طرح طرح کے گمان کرنے لگتا ہے ۔   ایسے میں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ کائنات کا خالق منصف بھی ہے۔  اس کا انصاف دنیا سے لے کر  آخرت تک محیط ہے۔ کبھی نمرود پر ایک معمولی  مچھر کے ذریعہ سزا  دی جاتی ہے تو کبھی  فرعون غرقاب کردیا جاتا ہے فی الحال کورونا  نے  اچھے اچھوں کے اقتدار  کو ہلا  دیا ہے مگریوگی ی رسوائی کے لیےتووکاس  دوبے کافی ہو گیا ۔ یہ تو  اس دنیا کی معمولی سزا ہے ،دائمی جہنم ظالموں  کا آخری ٹھکانہ  ہے ۔

  نبی پاک ﷺ نےحضرت  معاذ ؓ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجتے ہوئے ہدایت فرمائی:’’ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔اپنے جلیل القدر صحابی کو ایک خاص موقع پر یہ تلقین اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حکمراں کے لیے اس  خطرے کی  سنگینی  زیادہ  ہوتی  ہے۔  مظلوم کی داد رسی بلا تفریق مذہب و ملت ہوتی  ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: ’’ مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، فجور(کا خمیازہ) اسی کی جان پر ہوگا‘‘۔دربار الہی میں ظلم وزیادتی  کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہ مل کررہتی ہے۔فرمانِ  نبی ﷺ ہے:’’ ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے‘‘ ۔ اس حدیث میں کشمیر و فلسطین کے مظلومین اور ایغور و روہنگیا ئی  مسلمانوں کی خاطر ڈھارس کا سامان ہے۔ 
نبی ٔ مکرم   ﷺ کا فرمان ہے:’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالی دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ،  اللہ  اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کو ناکام و نامراد واپس کر دے‘‘۔قبولیت  دعا اس طرح ہوتی ہے کہ :’’جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اسےاللہ ربّ العزت تین  میں سے ایک نوازتے ہیں: دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے۔ اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے وہی دینے والاہے‘‘۔اللہ تعالیٰ ہماری دعاوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔