Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 25, 2020

وہ ‏خوفناک ‏رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از / اختر سلطان اصلاحی۔/صداٸے وقت۔
==============================
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نبوت کے تیرہویں سال تک مدینہ میں اسلام کافی  پھیل چکا تھا، وہاں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اعوان وانصار پیدا ہوگئے تھے. مکہ سے بھی بہت سے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے تھے، مدینہ کے لوگ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مدینہ آنے کی دعوت دے چکے تھے. وہ دل وجان سے آپ کی حفاظت کا وعدہ بھی کر چکے تھے. 
ان حالات میں قریش مکہ بہت پریشان ہوے، انھیں لگا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ پہنچ گئے تو مسلمان وہاں ایک بڑی طاقت بن جائیں گے جہاں ان کا مقابلہ آسان نہ ہوگا. اب وہ پیارے نبی کو راستے سے ہٹانے کی سنجیدہ تدبیریں کرنے لگے..
ایک دن قریش دارالندوہ نامی اس عمارت میں جمع ہوے جہاں مکہ کے لوگ اہم مسائل پر مشورے کرتے اور منصوبے بناتے تھے. بڑے بڑے سردار جمع ہوے. 
ایک سردار  نے مشورہ دیا کہ محمد کو کسی مکان میں قید کردیا جاے مگر دوسرے نے یہ کہتے ہوے اس تدبیر کو رد کردیا کہ محمد کے ساتھی اس کو چھڑا لیں گے.
ایک تجویز آئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جلاوطن کیا جاے مگر دوسرے نے یہ کہتے ہوے اسے رد کردیا کہ وہ جہاں جائیں گے وہاں اپنے دوست اور مددگار پیدا کرلیں گے. مختلف مشوروں اور تجاویز کے بعد بدبخت ابوجہل کی تجویز آئی جو سب کو پسند آئی، اس نے کہا:
"ہر قبیلے سے ایک ایک فرد منتخب کیا جاے اور یہ سب مل کر ایک ساتھ محمد پر حملہ کرکے انھیں قتل کریں، اس طرح ان کا خون تمام قبیلوں میں تقسیم ہوجائے گا اور خاندان ہاشم کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ وہ تمام قبیلوں سے اکیلے جنگ کریں.
یہی تجویز منظور ہوئی، اس کام کے لیے ایک رات مقرر کر لی گئی اور یہ طے ہوا کہ اس رات کو منتخب افراد پیارے رسول کا گھر گھیر لیں اور جیسے ہی آپ صبح باہر نکلیں سب مل کر آپ پر حملہ کرکے آپ کو شہید کردیں.
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے ناپاک منصوبوں کی خبر بذریعہ وحی مل گئی اور آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ گھر چھوڑ دیں.
چنانچہ دو تین پہلے پیارے نبی نے اپنے جگری دوست سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، طے پایا کہ اس سفر میں حضرت ابوبکر بھی پیارے نبی کے ساتھ رہیں گے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے سے ہی ہجرت کی تیاری کر رہے تھے انھوں نے اسی لیے دو اونٹنیاں بھی پال رکھی تھیں.
جس رات پیارے نبی کے گھر پر حملے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اس رات پیارے نبی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم مل چکا ہے، آج رات میں مکہ سے مدینہ کے روانہ ہوجاوں گا. میرے پاس بہت سے لوگوں کی امانتیں  رکھی ہیں یہ تم بعد میں واپس کردیا، تم رات میں میرے بستر پر سوجانا تاکہ لوگ مطمئن رہیں کہ میں بستر پر موجود ہوں.
دارالندوہ میں طے شدہ منصوبے کے مطابق رات کو کفار نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکان گھیر لیا، ان اندھیروں کے ہچاریوں کا یہ منصوبہ تھا کہ صبح  جیسے ہی پیارے رسول گھر سے باہر نکلیں گے یہ لوگ یکبارگی آپ پر حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیں گے.
باہر دشمن گھات لگاے بیٹھے تھے جب رات زیادہ ہوگئی تو آپ بہت خاموشی اور چپکے سے گھر سے باہر نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت  سورہ یاسین کی تلاوت فرما رہے تھے. آپ نے ایک مٹھی بھر خاک لی اور شاھت الوجوہ چہرے بگڑ جائیں کہتے ہوے وہ مٹی کفار کی طرف پھینک دی. اللہ کی قدرت دیکھیے کہ آپ ان کے درمیان سے نکلے مگر اللہ نے ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈالا کہ وہ آپ کو نہ دیکھ سکے. آپ وہاں سے نکل کر  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر گئے ہھر ان کے ساتھ نکل کر غار ثور میں چھپ گئے جہاں آپ تین دن رکے رہے.
کافر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوتا ہوا دیکھتے رہے انھیں اطمئنان تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود ہیں مگر صبح جب انھوں نے حضرت علی کو بستر سے اٹھتے دیکھا تو بہت تلملاے، حضرت علی کو مارا پیٹا اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا مگر آپ نے کچھ نہ بتایا.
غار ثور میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تین دن رکے رہے، ادھر مکہ والوں نے آپ کو تلاش کرنے کی زبردست مہم چلا رکھی تھی، آپ کو گرفتار کرنے یا آپ کے بارے میں کسی طرح کی خبر دینے والے کے بارے میں سو سرخ اونٹ انعام میں دینے کا اعلان کیا.
ادھر غار ثور میں اہل مکہ کی خبریں روزآنہ حضرت ابوبکر کے بیٹے حضرت عبداللہ پہنچایا کرتے تھے. وہ رات میں غار میں قیام بھی کرتے تھے. جب رات زیادہ ہوجاتی تو حضرت ابوبکر کا غلام عامر بن فہیرہ گھر سے بکریوں کا دودھ یا کھانا پہنچا دیتا.
کافروں نے ہر جگہ آپ کو تلاش کیا یہاں تک کہ ایک مرتبہ غار کے منہ تک پہنچ گئے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر پریشانی کا اظہار کیا مگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی اطمئنان سے جواب دیا لاتحزن ان اللہ معنا گھبراو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے.
کافر غار کے منہ تک تو پہنچ گئے مگر انھوں نے غار کے منہ پر کچھ اس طرح کی علامتیں دیکھیں کہ انھیں یقین ہوگیا کہ غار کے اندر کوئی داخل نہیں ہوا ہے.
چوتھے دن آپ غار سے باہر نکلے اور تیزی سے مدینہ کی طرف روانہ ہوے. قریش نے پیارے نبی کو گرفتار کرنے والے کو بھاری انعام دینے کا اعلان کیا تھا اس لالچ میں بہت سے لوگ آپ کی تلاش میں نکل پڑے تھے. انھیں میں سراقہ بن جعثم بھی تھا، یہ شخص آپ کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا، اس نے گھوڑے کو تیز دوڑایا تو اس کا گھر ٹھوکر کھا کر گر پڑا، وہ سنبھلا اور اس نے دوبارہ کوشش کی مگر اس بار تو اس کے گھوڑے کے دونوں پاوں گھٹنے تک  زمین میں دھنس گئے. وہ سمجھ گیا کہ پیارے نبی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے، کوئی طاقت آپ کی حفاظت کررہی ہے. مجبور ہوکر سراقہ پیارے نبی سے امان کا طالب ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امان نامہ لکھوا  کر دے دیا.
مدینہ میں جب آپ کے پہنچنے کی خبر پہنچی تو پورا شہر آپ کے استقبال کے لیے امڈ پڑا،لوگوں نے خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کیا. ننھی بچیوں نے دف بجا بجا کر آپ کے استقبال میں گیت گاے. ہر آدمی کی خواہش تھی کہ آپ اس کے مہمان بنیں.
مدینہ سے پہلے ایک مقام ہے جس کا نام قبا ہے. آپ نے یہاں تین دن قیام کیا. پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کلثوم بن ھدم رضی اللہ عنہ کے مکان پر قیام فرمایا.
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے کے تین دن بعد حضرت علی بھی لوگوں کی امانتیں پہنچا کر آپ سے آملے. اس طرح اس خوفناک رات کا قصہ ختم ہوا جسے اللہ نے اپنے فضل سے پیارے نبی کے حق میں ایک نئی صبح کا آعاز بنا دیا جو صبح اپنے جلو میں اسلام کی سربلندی اور غلبے کی نوید لے کر آئی تھی.

اختر سلطان اصلاحی