Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 16, 2020

شخصیات ‏و ‏انتقادیات۔۔ایک ‏تجزیاتی ‏مطالعہ ‏


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
                    صداٸے وقت 
            ==============-=
 ڈاکٹر پروفیسر سید محمد مظہر الحق منظر اعجاز سابق صدر شعبہ اردو اے ان کالج پٹنہ،شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے مشہور عام وخاص ہیں،ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کی تنقید سے ادیب وشاعر کے مقام ومرتبہ کی تعیین ہوتی ہے، شخصیات وانتقادیات ان کی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے تین باب میں تقسیم کیا ہے، پہلا باب شخصیات وکارنامے، دوسرا باب کچھ یادیں، کچھ باتیں، اور تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر کے عنوان سے ہے، پہلے باب میں گیارہ مضامین سر سید احمد خان اور مدرسۃ العلوم، آگہی بردار بصیرت کے شاعر حالی، سید افضل الدین احمد اور فسانہ خورشیدی، شاد عظیم آبادی کے بعد شعری تثلیث، رضا نقوی واہی اور شعرستان، احمد یوسف اور آگ کے ہمسائے، قیصر صدیقی اور زنبیل سحر تاب کے نغمات، پروفیسر نجم الہدیٰ: شخصیت اور فن، محمد حسن اور غزل کی نکتہ چینیاں، خورشید سمیع کے تنقیدی معاملے کا معاملہ، اسد خستہ جاں، کا پہلا باب: ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے، دوسرے باب میں کچھ یادیں، کچھ باتیں کے عنوان سے وہاب اشرفی، اختر الایمان، لطف الرحمن اور ندا فاضلی کی شخصیت اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کے یادوں کی برات نکالی گئی ہے، جن کو پڑھ کر ان حضرات کی افتاد طبع اور ذاتی زندگی کے بارے میں بہت سی معلومات ہمیں ملتی ہیں، جو عموماً ان کی سوانح اور ان کے فکر وفن پر گفتگو کرنے والوں کی نگاہوں سے اب تک اوجھل تھیں۔ تیسرا باب مشاہیر بنام مشاہیر، اقبال بنام صغرا ہمایوں مرزا، سردار بنام سلطانہ، مجروح بنام منظر اعجاز لکھے ہوئے خطوط پر مشتمل ہے، جس میں ان خطوط کی اہمیت پر ان کے اقتباس اور صاحب مکتوب کے شناخت نامہ کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے، ان مضامین میں ڈاکٹر منظر اعجاز نے اپنے مطالعہ اور مکتوب نگار سے اپنی واقفیت کا ذکر اچھے انداز اور عمدہ پیرایہ میں کیا ہے، تین سو بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت چار سو نوے روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے ذریعہ چھپی اس کتاب کی طباعت روشن پرنٹرس دہلی میں ہوئی ہے، بک امپوریم اور پرویز ہاؤس سبزی باغ پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کتاب کا انتساب سید حسیب الرحمن ریٹائڑ جوائنٹ ڈائرکٹر ایگری کلچر، بہار کی نیک اطوار اورپُروقار شخصیت اور ان کی اہلیہ عشرت باجی مرحومہ کی نرم گداز یادوں کے نام ہے، کتاب کے شروع میں پروفیسر نجم الہدیٰ صاحب کا مقدمہ ”میری نظر میں پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز شخصیات وانتقادیات کے خصوصی حوالہ سے“ ہے، پیش لفظ پروفیسر خورشید سمیع نے لکھا ہے اور حرفے چند خود ڈاکٹر منظر اعجاز کا ہے۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جب کسی موضوع پر لکھتے ہیں تو اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خلوص کے ساتھ تمام اہم فنی وادبی پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ان کی تحریر طویل ہوجاتی ہے اور شاید ہی کبھی کسی سمینار میں پوری تحریر پڑھنے کی نوبت آتی ہے، ڈاکٹر منظر اعجاز کو خود اس کا احساس ہے، وہاب اشرفی کے حوالہ سے انہوں نے خود ہی لکھا کہ”وہ میری تحریر وتقریر کی طوالت سے اکثر الجھن محسوس کرنے لگتے تھے... کئی بار تو ایسا ہوا کہ میری طوالت پر مجھے ٹوکا بھی اور روکا بھی، اور بعض دفعہ مجلس یاراں اور بزم ادب نگاراں میں شفقت ومحبت کے ساتھ میری سر زنش بھی کی“۔لیکن وہ علامہ شبلی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ”مجھے مختصر لکھنے کی فرصت نہیں ملی“۔
ڈاکٹر منظر اعجاز جو کچھ لکھتے ہیں اس میں تحقیق وتنقید کا عنصر غالب ہوتا ہے، البتہ وہ اس کو فلسفیانہ رنگ وآہنگ دینے کے بجائے سادہ، سلیس اور رواں رکھنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ ان کے چہرے کو دیکھیے اور پڑھیے تو وہ پورے فلسفی نظر آتے ہیں، لیکن تحریر میں کہیں بھی یہ عنصر غالب نہیں ہوتا، ادب وشاعری پر بحث کرتے ہوئے وہ ادب کے مروجہ خانوں جدیدیت، ما بعد جدیدیت، ترقی پسندی وغیرہ اصطلاح سے بھی گریز کرتے ہیں،گو بعض الفاظ کے اردو بنانے کے چکر میں ان کی اصطلاح بوجھل بھی ہوجاتی ہے، جیسے موبائل جیسے چھوٹے لفظ کے لیے فارسی نما ترکیب ”آلہ سماعت اصوات بعیدہ“جب لکھتے ہیں تو قاری کے ذہن ودماغ پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
 کتاب کا نام شخصیات وانتقادیات دو جزء پر مبنی ہے، شخص کی جمع شخصیات عام طور پر مستعمل ہے، البتہ انتقادیات تنقید اور نقد کے معنی میں عربی زبان وادب کے واقفین کے لیے گراں بار ہے، کیوں کہ عربی میں مصدر کی جمع نہیں آتی ہے، انتقادباب افتعال کا مصدر ہے، اور اس کی جمع لائی گئی ہے، جو غیر مستعمل ہے، مجھے معلوم ہے کہ انتقادیات کے نام سے پہلے بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں نیاز فتح پوری، مقصودحنفی کی تنقیدی ولسانیاتی انتقادیات انہیں کی ادبی انتقادیات، سید تالیف حیدر کی خواجہ میر درد حیات وانتقادیات، احمد سہیل کی تاریخ کاری کا ساختیاتی مخاطبہ اور انتقادیات، ڈاکٹر ہلال نقوی کی انتقادیاتِ جوش، خاص طور پر قابل ذکر ہیں، یہ معاملہ خالص لسانیات کا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ الفاظ کی تشکیل وترتیب نیز ساخت میں خاندان السنہ کی رعایت ضروری ہے ورنہ الفاظ کا روٹ (Rout)ہی کہیں گم ہو کر رہ جائے گا۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز بڑے ادیب، شاعر اور نقاد ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، انتقادیات پر بات چل پڑی تو یہ چند جملے لکھا گئے، اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ لفظ بہت پہلے سے رائج ہے اور ادباء وشعراء اس کا استعمال کرتے ہوئے آئے ہیں۔
 ڈاکٹر منظر اعجاز کی یہ کتاب شخصیات اور ان کے ادبی شہ پاروں کوجانچنے اور پرکھنے کے سلسلے میں انتہائی مفید ہے، کیوں کہ بقول پروفیسر نجم الہدیٰ ”وہ لکھنے کے لیے جب کسی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں تو پہلے اس کے متعلق ممکنہ حد تک تمام دستیاب مواد تک رسائی کی کوشش ضرور کرتے ہیں، گہرے مطالعہ اور اپنے حاصل کردہ مفصل معلومات کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں، انتقادیات میں انصاف سے کام لیتے ہیں اور راست بازی کو مشعل راہ بناتے ہیں، ان کی تنقید کبھی تقابلی ہوتی ہے اور کبھی تجزیاتی، تقابل میں وہ کسی کو گھٹاتے بڑھاتے نہیں ہیں، مختصر یہ کہ مختلف اوقات میں لکھے گئے ان کے تاثراتی، تنقیدی اور تجزیاتی مضامین کا یہ مجموعہ اس لائق ہے کہ لائبریریوں کی زینت بنے اور اردو کا ہر قاری بقدر ظرف اس سے استفادہ کرے، خورشید سمیع صاحب کی رائے ہے کہ اسے نصاب میں شامل کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔