Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 8, 2020

مرکزی ‏حکومت ‏کی ‏نٸی ‏تعلیمی ‏پالیسی ‏کا ‏ایک ‏جاٸزہ ‏



از/  محمد خالد اعظمی ، شبلی نیشنل کالج / صداٸے وقت 
==============================
ملک میں جاری معاشی ، سیاسی اور سماجی بحران کے درمیان جبکہ کرونا جیسی مہلک صحت ایمرجنسی بھی کنٹرول میں آنے کا نام نہیں لے رہی ہے ، حکومت نے بلا کسی مناسب بحث و تمحیص اور غیر جانبدار ماہرین تعلیم کو بغیر اعتماد میں لئے نئی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کا مسودہ منظور کرکے عوام کا رخ تعلیمی شعبے کے ان گوناگوں مسائل سے موڑنے کی سعئ لاحاصل کی ہے جنہیں حل کئے بنا تعلیم کا شعبہ کسی بھی سطح پر بین الاقوامی معیار اور مسابقت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تعلیم کا شعبہ، پرائمری، سیکنڈری اور اعلی تعلیم  ہر سطح پر اس وقت نہایت کمزور بنیادی ڈھانچے اور اس سے جڑے مسائل سے نبرد آزما ہےاور بنیادی ڈھانچے کی یہ کمزوری نجی اور سرکاری ہر طرح کے اداروں میں پائی جاتی ہے جسے دور کرکے تعلیمی نظام کو مضبوط  بنیادوں اور جدید سہولیات پر استوار کرنے کے بجائے نئے تعلیمی منصوبے کا اجراء اور نفاذ بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں جسے ملک کی غیر یا کم تعلیم یافتہ اکثریت اس پورے تعلیمی منصوبے کو حکومت کی ایک کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے - تعلیم کے نظام میں در آئی کمزوریوں کو  درست کرنے کے بجائے حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی  کو ہی اپنی پیٹھ آپ تھپتھپانے کے لئے متعارف کروا دیا ہے۔ 
پرائمری سطح پرمڈ ڈے میل اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کے نفاذ کے باوجود آج بھی پرائمری اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ پانچ فیصد سے زیادہ ہے۔ سیکنڈری سطح پر طلبہ کا کل اندراج تناسب ( Gross Enrolment Ratio - GER) آج بھی پچھتر فیصد سے کم اور اعلی تعلیم میں صرف چھبیس فیصد ہے۔ وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ایک لاکھ کے قریب اسکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد پورے اسکول کو سنبھالتا ہے- معیار  تعلیم کے ساتھ سمجھوتہ  ہر سطح پر ہورہا ہے ا ور تعلیم مکمل کر لینے کے باوجود پرائمری سے لیکر یونیورسٹی سطح تک اپنی مطلوبہ صلاحیت سے کم  کے طلبہ پاس ہوکر نکلتے ہیں اور اسی وجہ سے ملکی و بین الاقوامی ہر سطح پر طلبہ کی اکثریت مسابقت سے باہر ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی تحقیقات اور جائزے  موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زیادہ تر اسکولوں میں طلبہ اپنے منظور شدہ نصاب کی درسیات پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ یہی حال اعلی تعلیم کاہے کہ پرائیوٹ انجینئرنگ کالج کے ستر سے اسی فیصد طلبہ اپنے معیار کی نوکری کی اہلیت ہی نہیں رکھتے- تعلیمی اداروں کا بنیادی ڈھانچہ ہر سطح پر اپنی کم مائیگی کا ثبوت ہے ۔ حکومت اگر اپنے نظام کو درست نہیں کریگی اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کریگی تو کوئی بھی نئی یا پرانی تعلیمی پالیسی ملک  میں تعلیم کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں یکسر نا کام ہوگی۔ ہمارے اسکولی نظام میں اسباق کو رٹ کر امتحان پاس کرنے  اور یادداشت کی صلاحیت کی بنیاد پر ننانوے فیصد نمبر لانے  کو طالب علم کی علمی و ذہنی استعداد کا پیمانہ مان لیا گیا ہے جسکی وجہ سے ہمارا پورا تعلیمی نظام ایک پتلی پگڈنڈی پر چلنے جیسا ہے جس سے ذرا سی بھی رو گردانی طالب علم کو منزل سے بھٹکا دیگی ۔ 

ہماری نئی تعلیمی پالیسی کے ضمن میں وزیر اعظم اور وزیر تعلیم نے دنیا جہان کی خوبیاں بیان فرمائیں لیکن معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور تعلیمی اداروں کو بین الاقوامی سطح پر پہچان مستحکم کرنے کے لئے تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں سرکاری سرمایہ کاری اور تعلیم کو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ماننے کے لئے سرکاری سطح پر کئے جانے والے ضروری اقدامات کے بارے میں بتانے سے گریز کیا اور پورے منصوبے کو درجہ بہ درجہ جس طرح سے نجی زمرے کی سرمایہ کاری و  بازار کی طلب و رسد کے مطابق قیمت کی بنیاد پر تعلیمی سہولیات مہیا کرانے کے لئے نجی تعلیمی اداروں کے فروغ کے لئے  پوری منصوبہ بندی کی گئی ہے وہ ماہرین تعلیم کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کے تصور پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے جس میں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات صد فیصد سرکاری زمرے کے تحت ہوتی ہیں۔ جس طرح سے برسر اقتدار پارٹی کے وزراء اور کارکنان اس تعلیمی پالیسی کے لئے وزیر اعظم کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وطن اب تک تعلیم کے کسی بھی منصوبے سے یکسر محروم تھا۔ اور اب آزادی کے ستر سال بعد ملک کو ایک انوکھا نظام تعلیم میسر ہونے جارہا ہے۔  اس پوری تعلیمی پالیسی اور اسکے نفاذ کے سلسلے میں چند بنیادی باتوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے ۔اوّل تو یہ کہ یہ صرف ایک منصوبہ ہے  کوئی قانون نہیں ہے اس منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لئے سرکار کو مختلف اوقات میں قانون سازی کرنی پڑیگی اور اسکا انحصار ارکان پارلیمنٹ کے تناسب اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے پر ہوگا۔ اس کے نفاذ کا عرصہ بھی کافی لمبا ہے اسکو مختلف سطح پر 2040 تک نافذ کیا جانا ہے اور اس وقت تک کے سیاسی حالات پر ہی یہ ممکن ہوسکیگا، دوسرے ملک میں کی ستر فیصد آبادی جو دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے وہاں پرائمری و ثانوی تعلیم کے ڈھانچے کو معیاری بنانے اور اعلی تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو نئے سرے سے کھڑا کرنے کے لئے سرکار کے پاس کوئی بھی منصوبہ نہیں ہےاور اسے مکمل طور پر نجی سرمایہ کاری کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔

ترقی یافتہ  ممالک کے طرز پر تعلیم کے نظام الاوقات کو 2+10 کی جگہ پر 4+3+3+5 کردینے سے معیار تعلیم میں بہتری کی توقع کرنا فضول ہے اس پالیسی میں پری پرائمری کے طور پر شروع کے تین سال کو crèche کے طرز پری اسکولنگ کا ایک نیا نظام سرکار متعارف کروا رہی ہے جو آنگن واڑی ملازمین کے زیر نگرانی ہو گا۔ اس نظام کے تحت طلبہ سے امتحان کے سالانہ بوجھ کوکم کیا گیا ہے ، مضامین کے انتخاب میں طلبہ کو آزادی اور وسعت دی گئی ہے اسکول کی سطح تک آرٹس، سائنس اور کا مرس کے مضامین کی درجہ بندی ختم کرنے کی بات کہی جارہی ہے اور پیشہ ورانہ مضامین ( vocational courses) کو نصاب کا حصہ بنایا جانا ہے یہ سب باتیں سن نے کر بہت اچھا لگتا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ نصاب کو شروع  کرنے پر اسکولوں میں نئے اساتذہ اور نئی تعلیمی سہولیات کے لئے اضافی مالی بوجھ کس کے اوپر پڑیگا؟ سرکار جس طرح تعلیمی شعبے کی نجکاری پر کمر بستہ  ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ فیملی بجٹ میں تعلیم کا خرچ کافی بڑھنے والا ہے اور اس نظام میں کم آمدنی والے افراد کے لئے سستی تعلیم ایک خواب ہو سکتی ہے۔ نجی اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر ہو جانے سے ملک کا معیار تعلیم بہتر نہیں ہوسکتا جب تک کہ حکومت سرکاری زمرے کے تحت آنے والے تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر کرنے کی ٹھوس اور قابل عمل تجاویز کو رو بہ عمل لانے کے لئے کوئی قدم   نہیں اٹھاتی۔ تین سال سے لیکر پانچ سال کی عمر تک کی پری اسکولنگ کو امیر خاندانوں اور نجی تعلیمی اداروں کی آمدنی بڑھانے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن دیہی علاقوں میں آنگن باڑی اسکیم کے تحت پری اسکولنگ کا بہت اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ تین سال سے چھ سال کی عمر بچے کی ذہنی افزائش کے لئے نہایت اہم ہوتی ہے اور ہمارے ملک کے آنگن باڑی کارکنان کی صلاحیت اور تربیت اس سطح کی قطعی نہیں ہوتی کہ وہ اس عمر کے بچوں کی ذہنی بالیدگی میں کوئی موثر کردار ادا کر سکیں۔ امیر ممالک یا نجی اداروں میں تو یہ ممکن ہے کہ انکے پاس تربیت یافتہ اور ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے جو بچوں کی ذہنی نشونما انکی پسند اور رجحان کے مطابق کرتی ہے لیکن حکومت نے اس پالیسی کے تحت اسے عوامی سطح پر وسعت دینے کا منصوبہ بنایا ہے جو ہندوستان جیسے غریب اور کم خواندہ ملک کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ 

تعلیم اور نصاب کے اسٹرکچر میں بدلاؤ کے ساتھ 2030 تک اسکولی سطح پر طلبہ کے سو فیصد اندراج ( Net Enrolment ratio) کو یقینی بنانے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔ پرائمری سطح پر بلکل مفت تعلیم اور مفت کھانے کی اسکیم کے تحت اب تک 95 فیصد اندراج ہی ممکن ہوسکا ہے اور ثانوی سطح پر طلبہ کے اندراج کا تناسب ابھی صرف 74 فیصد تک پہنچ سکا ہے، تما م تر سہولیات کے باوجود اگر سرکاری اسکولوں میں داخلے کے لئے طلبہ کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پائی تو  نجی اسکولوں کی مدد سے یہ نشانہ حاصل نہیں ہو سکتا، نجی اسکولوں کے اخراجات پورے کرنے کی مالی استطاعت ملک کی تیس فیصد آبادی کے پاس تو بالکل ہی نہیں ہے ایسے میں تعلیمی شعبے میں نجکاری کو فروغ دیکر حکومت کیسے صد فیصد اندراج کا نشانہ پورا کر سکے گی یہ عام آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس وقت ملک میں اعلی تعلیم میں اندراج کی سطح ( Gross Enrolment Ratio) صرف 26 فیصد ہے اور 2035 یا 2040 تک اعلی تعلیم میں طلبہ کا اندراج پچاس فیصد تک پہنچنا فی الوقت سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز کی موجودہ سہولیات میں ممکن نہیں جب تک کہ سرکاری سطح پر اعلی تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی تبدیلی کرکے اسکے تعلیمی معیار کو اونچا کرنے کے لئے کوئی قدم سرکار نہیں اٹھاتی۔ یہاں بھی حکومت اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ نجی کالجز اور یونیورسٹیز کے ذریعہ اس نشانہ کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت ملک میں تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ڈسٹنس لرننگ اور اوپن اسکولنگ کے ذریعہ اندراج تناسب کو بڑھانا  چاہتی ہے اور اسی لئے نئی پالیسی میں اوپن اسکولنگ کا دائرہ پرائمری تعلیم تک بڑھانے کی بات کہی جارہی ہے جو کہ ملک کے موجودہ تعلیمی ماحول کے مدنظر قطعی غیر معقول لگ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں صرف دس فیصد طلبہ ڈسٹنس موڈ میں اندراج کرواتے ہیں اور نوے فیصد تو کیمپس کے ذریعہ ہی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 1966 میں کوٹھاری کمیشن سے لیکر اس نئی پالیسی تک ہر حکومت تعلیم کے مد میں قومی آمدنی کا چھ فیصد خرچ کرنے کا وعدہ کرتی ہے لیکن کسی حکومت نے اس وعدے کو وفا نہیں کیا، اور یہ چھ فیصد کی قید بھی بے معنی سی بات ہے کیونکہ ملک میں موجود کالجز ، تعلیمی ادارے اور اسکولوں میں موجود سہولیات کے فقدان کو دیکھتے ہوئے دس فیصد خرچ بھی کم لگتا ہے اور چھہ فیصد بھی کوئی حکومت تعلیم پر خرچ کرنا نہیں چاہتی۔ 

تعلیمی دورانیہ میں ڈگری اور ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ دینے کی بات (multiple entry and exit) یوں  تو سننے میں اچھی لگتی ہے لیکن کیا ہندوستان کے موجودہ منظرنامہ میں اس کی کوئی افادیت ہے؟ جب پوری ڈگری لیکر بھی نوجوان روزگار کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں ایسے میں بیچ میں ڈپلومہ یا سرٹیفکیٹ دیدینے سے کیا فائدہ ہوگا یہ سمجھ سے پرے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی نقل میں اس طرح کے منصوبے بھارت میں کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہونگے۔ ترقی یافتہ ممالک کے طلبہ اس طرح تعلیم بریک کرکے بیچ میں نوکری کرکے اپنے تعلیمی اخراجات اکٹھا کر کے دوبارہ تعلیم شروع کرتے ہیں ، موجودہ حکومت اسی طرز پر اسے لانا چاہتی ہے۔ اعلی تعلیم کے شعبے میں آزادی یا اٹانومی کے نام پر حکومت مالی امداد سے لگاتار ہاتھ کھینچ رہی ہے اور اس طرح سے ڈگری اور سرٹیفکیٹ دے کر ایک جھنجھنا پکڑا دینا چاہتی ہے۔اس نئی تعلیمی پالیسی میں اعلی تعلیم کا شعبہ حکومت پوری طرح نجی زمرہ میں دے دینا چاہتی ہے اور اسکے لئے نجی کالجز  اور یونیورسٹیز کی منظوری اور سہولیات پہنچانا حکومت کی تعلیمی پالیسی کا حصہ ہے۔ تین سال پہلے حکومت نے بنا کیمپس اور بنا اسٹرکچر کے جیو یونیورسٹی کو جس طرح مالی امداد دی وہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسی پالیسی میں انڈسٹری منحصر تحقیق ( industry funded research) کی بات بھی سرکار کر رہی ہے یعنی اب تعلیم میں تحقیقی ترقی انڈسٹری کے مالی منافع اور مفادات کو سامنے رکھ کر کی جائیگی، تحقیق کے لئے سرمایہ انڈسٹریز دینگی اور تحقیقات بھی انکے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہو گی۔ 
اس تعلیمی پالیسی میں مدرسہ اور گورو کل طرز پر تعلیم کی بات بھی کہی گئی ہے لیکن اسکے لئے حکومت نے کوئی واضح لائحہ عمل طے نہیں کیا ہے اور فی الحال  یہ بھی نجی تعلیمی اداروں کے طرز پر اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں ۔ کل ملا کر نئی تعلیمی پالیسی میں پرائمری اور ثانوی تعلیم تو کسی حد تک حکومت کے مالی دائرے کے اندر رہیگی لیکن اعلی تعلیم پوری طرح نجی شعبے کو دئے جانے کے لئے تیاری مکمل ہے۔ تعلیمی اخراجات اتنے بڑھ جائینگے کہ ملک کا غریب طبقہ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے ترستا رہ جائیگا اور پورا تعلیمی نظام سرمایہ داروں اور امیروں کے لئے مختص ہو کر رہ جائیگا ۔