Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 18, 2020

سابق ‏صدر ‏شعبہ ‏اردو ‏پٹنہ ‏یونیورسٹی ‏پروفیسر ‏عشرت ‏جہاں ‏کا ‏انتقال۔

ڈاکٹر اشرف جہاں کا انتقال،علمی وادبی حلقہ سوگوار۔

پٹنہ۔۔۔۔بہار /صداٸے وقت /،18اگست 2020 / عبد الرحیم برہولیا وی .
====-=========================
پروفیسر اشرف جہاں سابق صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی،پٹنہ مختصر علالت کے بعدآج صبح اللہ کو پیاری ہو گئیں، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ عز وجل ان کی بال بال مغفرت فرمائے،درجات کو بلند کرے اور پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے،ان کے جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر نوری مسجد کے متصل ادا کی گئی اور شاہ گنج قبرستان میں تدفین عمل میں آئی،ان کی عمر تقریباً ستر سال تھی، پسماندگان میں شوہر کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں، 
ڈاکٹر اشرف جہاں کا وطنی تعلق ارکی ضلع جہاں آباد سے ہے، لیکن ان کا مستقل قیام نفیس کالونی پٹنہ میں تھا،
ڈاکٹر اشرف جہاں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد گردنی باغ گرلس کالج میں بحیثیت لکچرر تدریسی خدمت انجام دیں، بعد میں ان کی تقرری پٹنہ کالج ہوگئ، پھر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ کے عہدہ پر فائز ہوئیں اور یہیں سےسبکدوش ہوئیں، ڈاکٹر اشرف جہاں صاحبہ ایک بہترین معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنفہ اوربہترین ادیبہ بھی تھیں، انہوں نے افسانوی دنیا میں اپنی شناخت بنائی، ان کا تین افسانوی مجموعہ شناخت، اکیسویں صدی کی نر ملا اور اگر میں نا ہوتی کافی مشہور ہوئیں، اس کے علاوہ انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں ان میں ہم اردو کے ٹیچر ہوئے، اردو افسانے کا بدلتا مزاج، صورت الخیال عرف ولایتی کی آپ بیتی:ایک جائزہ، اردو ناول کے آغاز میں دبستان عظیم آباد کا حصہ، ادبی حلقوں میں ان کی تصانیف پسندیدگی کی نظر سے دیکھی گئیں،ان کے انتقال پرمعروف ادیبہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین صدر شعبہ اردو مولانا مظہر الحق عربی وفارسی  یونیورسٹی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ نے خواتین افسانہ نگاروں کے درمیان اپنا انفرادی مقام بنایا ، ان کے افسانے میں خواتین کے مسائل نہایت سلیقے سے پیش کئے گئے ہیں، ان کا مشاہدہ تیز، ذہن بالیدہ اور اسلوب نگارش پرکشش ہے،انہوں نے کہا کہ ان کے انتقال سے ہم نے ایک اچھے ٹیچر اور اچھی ادیبہ کو کھو دیا ہے، 
جواں سال ادیب وصحافی نورالسلام ندوی نے ڈاکٹر اشرف جہاں کے انتقال کو علم وادب کا خسارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ  اچھی معلمہ تھیں، ہر ایک سے شفقت و محبت سے پیش آتیں، انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ ان کے یہاں بہت تھا، انہوں نے کہا کہ وہ ایک بہترین فنکار بھی تھیں، یوں تو انہوں نے انشائیے،افسانے، تنقید اور تحقیق سبھی موضوع پر لکھا لیکن افسانے سے ان کو ادبی دنیا میں شہرت ملی اور بہت جلد نمایاں مقام حاصل کر لیا،ان کے اسلوب میں تخلیقیت اور دانشوری کے عناصر پائے جاتے ہیں، انہوں نے عورتوں کے دکھ درد کو، ان کی معاشرتی زندگی کو نئے زاویے سے پیش کیا ہے جس سے قاری پر ایک خاص تاثر قائم ہوتا ہے،