Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 1, 2020

مولانا ‏محمد ‏قاسم ‏مظفر ‏پوری۔۔۔۔۔۔نقوش ‏و ‏تاثرات ‏۔



تحریر / نورالسلام ندوی،پٹنہ/صداٸے وقت 
=============================
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی..........
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے.

ملک کے نامورعالم دین، باکمال فقیہ اور بافیض استاذ حضرت مولانا محمدقاسم مظفرپوریؒ قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ، سابق شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ ،سپول دربھنگہ،آج مورخہ یکم ستمبر 2020 بروز منگل تین بجے علی الصبح مالک حقیقی سے جاملے۔ حضرت مولانا ایک عرصہ سے قلب کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ کچھ دنوں قبل فالج کا حملہ ہوا ،جس کے بعد ان کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی اور صحت دن بدن گرنے لگی، وہ کافی نحیف اور کمزور ہوگئے تھے۔ بہتر علاج کے لئے مظفرپور کے ایک پرائیوٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرایا گیا،مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا، بعد میں مشورہ سے ہوم گلیکسی اسپتال منتقل کرایا گیا جہاں روبہ صحت ہونے لگے، چند دنوں بعد ہاسپیٹل سے چھٹی بھی مل گئی اور اپنی رہائش گاہ زکریا کالونی، مظفرپور تشریف لے آئے ۔لیکن کسے معلوم تھا کہ چراغ کی لو تیز ہونے کے بعد بجھنے والی ہے۔ ان کے انتقال سے ملک ایک فقیہ اور بزرگ عالم دین سے محروم ہوگیا۔اس خلاء کا پر ہونا بظاہر مشکل ہے۔ اللہ انہیں جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بہت بلند فرمائے۔آمین!
حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری 1937 ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام معین الحق اور وطن مادھوپور، ضلع مظفرپور ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر رہ کر حاصل کی پھر مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ، دربھنگہ میں مولانا مقبول احمد خاں اور مولانا عبدالجبار سے فارسی اور نحو و صرف پڑھی۔ اس کے بعدمعروف ادارہ مدرسہ امدادیہ لہریاسرائے، دربھنگہ میں داخلہ لیا۔یہاں حضرت مولانا ریاض احمدچمپارنی، مفتی عبدالحفیظ سدھولوی، مولانا محی الدین اور مولانا عبدالرحیم سے اکتسابِ فیض کیا۔ 1952ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے۔ آپ نے یہاں پانچ سال علم حاصل کیا اور یہاں کے اکابر اساتذہ سے استفادہ کرکے 1957 میں سند فضلیت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں علامہ ابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا اعزاز علی مرادآبادی، مولانا شیخ فخرالدین مرادآبادی جیسے باکمال علماء تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنیؒ سے بھی بخاری شریف کے 64 اسباق پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ پڑھنے میں نہایت تیز اور محنتی تھے۔ دارالعلوم میں دورہ حدیث میں اول آئے تھے۔ طلباء کے درمیان مشہور اور اساتذہ کے محبوب نظرتھے۔
فراغت کے بعد 1958 ء میں مدرسہ امدادیہ، لہریاسرائے، دربھنگہ میں مدرس بحال ہوئے مگر ایک سال کے بعد مولانا عثمان صاحب مہتمم مدرسہ رحمانیہ سپول کی خواہش اور ایماء پر مدرسہ رحمانیہ سپول آگئے ۔ یہاں آپ علیا درجات کے استاد بحال ہوئے۔ بہت جلد طلباء اور اساتذہ میں مقبول ہوگئے۔ تقریباً نصف صدی تک یہاں علم و عمل کے موتی لٹاتے رہے۔ اپنے فیض سے خلق کثیر کو مستفیض کیا، کئی نسلوں کی تربیت کی۔ ایک مدرس سے شیخ الحدیث اور قاضی شریعت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔مدرسہ رحمانیہ سے آپ کو بے انتہا انس اور لگاؤ تھا۔ہزاروں طلبا آپ سے فیضیاب ہوئے، سیکڑوں شاگرد ملک اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر علم و حکمت کی جوت جگارہے ہیں۔ آپ کے ایسے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے علم و ادب کی دنیا میں شہرت حاصل کی اور اونچا مقام حاصل کیا۔آپ کی تربیت کا انداز بھی بڑا نرالا تھا۔ طلبا کی عمر ،مزاج، ذوق، ذہانت اور صلاحیت کے اعتبار سے اس کی تربیت کرتے۔ جس کا طلباء  پر بڑا گہرا اثر پڑتا۔ آپ کا درس نہایت مقبول تھا۔ تفہیم کا انداز و اسلوب ایسا اختیار کرتے کہ غبی سے غبی طالب علم بھی سمجھ جاتا۔ مدرسہ رحمانیہ میں آپ حدیث، تفسیر، فقہ اور عربی زبان کے استاد کی حیثیت سے بے انتہا مقبول ہوئے۔
آپ مدرسہ رحمانیہ سپول کے شیخ الحدیث اور قاضی شریعت تھے۔ مولانا عثمان صاحب مہتمم مدرسہ رحمانیہ کے انتقال کے بعد آپ نے دارالقضاء کی عمارت کے لئے تین کٹھہ زمین خریدی اور مدرسہ کے ذمہ داروں کے مشورے سے مدرسہ کے مغربی عقب میں دارالقضاء کی عمارت بنوائی ،جس کا سنگ بنیاد حضرت امیر شریعت رابعؒ اور حضرت مولانا ابو سعود،امیرشریعت کرناٹک اور دوسرے اکابر علماء کے ہاتھوں رکھا گیا۔ دارالقضاء کے لئے الگ سے لائبریری کا قیام عمل میں آیا ۔اس میں فقہ و فتایٰ اور تفسیر و حدیث کے مستند اہم علمی و فقہی ذخیرے ہیں۔آپ بڑی ذمہ داری کے ساتھ قضاء کے امور کو انجام دیتے ،امیر شریعت رابع ؒ اور حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمی کو آپ پر بڑا اعتماد تھا۔ اس لئے بعض دفعہ جب قاضی صاحب موجود نہیں ہوتے یا طویل سفر پر روانہ ہوتے تو امارت شرعیہ میں دارالقضاء کی ذمہ داری آپ نبھاتے اور اس سے متعلق فیصلے آپ ہی دیکھتے ۔
آپ کا علم بڑا گہرا تھا۔ مختلف علوم و فنون پر کامل دسترس تھا، حدیث، تفسیر، فقہ اور عربی ادب کے ماہر استاد تھے۔ مطالعہ کا بڑا ذوق تھا، تحقیقی مذاق رکھتے تھے۔ جدید فقہی مسائل پر عمیق نظر رہتی تھی۔ فقہی سمیناروں میں آپ کی رائے وزن رکھتی تھی۔ آپ کے مقالے علم و تحقیق کا گنجینہ ہے۔آپ وقت کا بے جا استعمال نہیں کرتے تھے۔ جو بھی فارغ وقت ملتا مطالعہ کرتے، نئے مسائل کا استخراج کرتے۔ اللہ نے ذہن و دماغ سوچنے اور غوروفکر کرنے والا دیا تھا۔ جو رائے قائم کرتے ناپ تول کر کرتے۔علمی شغف ایسا تھا کہ سفر میں بھی علمی کام اور مطالعہ جاری رہتا،گفتگو بھی کرتے تو علمی گفتگو کرتے۔کسی طلبہ سے اگر خدمت لیتے تو ان کے وقت کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے بلکہ اس درمیان علمی سوال و جواب کرتے رہتے یا اسباق کے بارے میں پوچھتے رہتے۔ آپ کا کوئی شاگرد یا عزیز کسی مدرسہ میں زیر تعلیم ہوتا اور کبھی ملاقات کے لئے حاضر ہوتا تو  خیریت دریافت کرتے اور ان سے پوچھتے کہ کون کون سی کتاب پڑھتے ہیں؟ پھر ان سے کچھ سوالات کرتے۔ بعض کمزور طلباء ان سے صرف اس لئے ملنے سے کتراتے تھے کہ بھائی قاضی صاحب سوال بہت کرتے ہیں اور مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔
قاضی صاحب شفقت و محبت کے پیکر تھے۔ آپ کی محبت اور خلوص بحربیکراں تھی۔مدرسہ سے ،طلباء سے، شاگردوں سے، عزیزوں سے ، اساتذہ سے، غرض ہر ایک سے محبت سے پیش آتے ، خندہ پیشانی سے ملتے، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے۔گویاآپ کی شخصیت اس شعر کی عملی تصویر تھی:
ایسا ملا کرو کہ لوگ آرزو کریں 
ایسا رہا کرو کہ زمانہ مثال دے
قاضی صاحب چونکہ مدرسہ رحمانیہ سپول میں طویل مدت تک رہے اس لئے اس علاقے کے لوگوں سے بھی آپ کو بہت انس و تعلق تھا۔ علاقے کے لوگ آس پاس کے گاؤں اور بستی کو جتنا نہیں جانتے قاضی صاحب ان سے کہیں زیادہ جانتے تھے۔ گاؤں کی سماجی اور سیاسی حیثیت کیاہے ، وہاں کے لوگوں کا دینی مزاج کیسا ہے، مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے؟ ان سب باتوں سے کما حقہ واقف رہتے تھے۔ کسی گاؤں میں کوئی حادثہ پیش آتا یا کوئی تنازغہ پیش آتا تو وہاں کے ذمہ داروں کو خط لکھتے،احوال معلوم کرتے، معاملہ کا تصفیہ کرتے۔ سماجی اصلاح اور دینی بیداری کے لئے علاقوں کا دورہ کرتے، وہاں کے حالات کا جائزہ لیتے اور حسب حال وعظ و نصیحت فرماتے۔معاملات کے تصفیہ میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ بڑے سے بڑے معاملہ کو چٹکی میں حل کردیتے تھے۔کتنے خاندانی جھگڑے اور سماجی اختلاف آپ کی وجہ سے ختم ہوگئے۔ کتنے گھر آباد ہوئے۔ قضاء کے معاملے میں خدائے تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ یہاں تک کہ قاضی کے نام سے آپ مشہور ہو گئے،شمالی بہار خاص طور پر متھلانچل میں اگر مطلق قاضی بولا جائے تو اس سے مراد آپ ہی ہوتے ہیں۔
احقر کو حضرت قاضی صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ مجھ پربڑی شفقت و عنایت فرماتے۔ جب بھی ملاقات ہوتی بڑی محبت سے ملتے،خیریت دریافت کرتے،دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے قیمتی مشورے دیتے، مدرسہ رحمانیہ سپول کے اجلاس میں ’’خطبات ولی‘‘ کے اجراء کے موقع پر موجود تھے۔ انہوں نے بڑی حوصلہ افزائی کی ، دعائیں دیں اور آئندہ بھی علمی و ادبی کاموں کے لئے تحریک پیدا کی۔ میرے نکاح میں والد صاحب کی دعوت پر جمال پور تشریف لائے۔ حضرت نے ہی نکاح پڑھایا اور نکاح سے قبل جامع خطاب بھی فرمایا۔ 5؍اپریل 2015  کو میرا نکاح ہوا اور 6؍اپریل کو انہوں نے مدرسہ رحمانیہ سے دو خط تحریر کیا۔ ایک میرے نام اور ایک والد ماجد جناب عبدالسلام صاحب کے نام۔یہ خط کیا ہے،شفقت ومحبت اور خلوص وفا کا تحفہ ہے۔
حضرت قاضی صاحب درس و تدریس، فقہ و فتاویٰ اور قضاۃ کے کاموں میں ایسے مصروف رہا کرتے تھے کہ تصنیف و تالیف کا موقع نہیں مل پاتا تھا۔ اگر تصنیف و تالیف کو اپنی خدمت کا جولان گاہ بناتے تو وہ اپنے وقت کے باکمال مصنف اور ادیب ہوتے۔ اس کے باوجود انہوں نے کئی کتابچے اور بہت سارے مقالے تحریر کئے جن کے مطالعے سے حضرت کے تحقیقی ذہن اور تصنیفی کاوشوں کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ مکاتیب رحمانی کے نام سے حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے مکتوبات کو نہایت سلیقے سے ترتیب دیا ہے اور اس پر بیش قیمت حاشیے تحریر کئے ہیں۔ قاضی صاحب کا اسلوب بڑا شستہ، شگفتہ اور دلچسپ ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:
’’دنیا میں تعلیمی مراکز، تحقیقاتی ادارے خواہ مذہبی تعلیم کی درسگاہیں ہوں یا علوم عصریہ کی یونیورسٹیاں ہوں، سب کا ایک مشترکہ مقصد یہ ہے کہ اس کائنات اور اس کے مضمرات کے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور ان کی رضا معلوم کریں اور ساتھ ہی ان علوم و فنون کے ذریعہ اعلیٰ انسانی قدروں کی حفاظت بھی ہو اور انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی صیانت بھی ہو۔ مگر افسوس کہ عہد جدید میں جو نئی چیزیں  باہری دنیا سے یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں آئی ہیں وہ انسانی اقدار کھوکھلا کرنے والی ہیں اور شرافت و کرامت کو تار تار کرنے والی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو فکر ی اور اخلاقی اعتبار سے برباد کرنے والی ہیں۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ زہر ہلاہل کو قند شریں بناکر نئی نسلوں کو پلایا جارہا ہے اور مذہب جس سے خدا ترسی پیدا ہوتی ہے، روح و جسم کو سکون ملتاہے، جس پر ابدی سعادت موقوف ہے اس سے بغاوت کا رحجان پیدا ہورہا ہے۔ تمام مذہبی احکام کو قدامت پسندی کا مظہر بتایا جارہا ہے۔‘‘( معلم و مربی کی بنیادی صفات)
قاضی صاحب کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوچکی ہیں: مسجد کے آداب و احکام، مکاتیب رحمانی، رشتے کا احترام کیجئے، بینک سے متعلق چند مسائل، رہنمائے قاضی، معلم و مربی کی بنیادی صفات، اس کے علاوہ بے شمار مقالات آپ نے تحریر کیے جو علم و تحقیق کے شاہکار ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان مقالات کو کتابی شکل دی جائے تاکہ ان کا افادہ عام ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ نے قاضی صاحب کو تقریب و خطابت کا بھی بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کی تقریر واضح، صاف اور پُرتاثیرہوتی، مختلف اجلاس، جلسہ دستار بندی اور دینی و علمی اجتماعات میں آپ خطابت کے لئے دور دور تک مدعو کئے جاتے تھے۔آپ نے اپنی تقریروں سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔ سماجی اصلاح اور معاشرتی تربیت کا کام لیا۔ آپ کی تقریر سے خلق کثیر کو فائدہ پہنچا، بہتوں کی اصلاح ہوئی اور کتنوں کی زندگی میں بہتری آئی۔ پیشہ ور مقرروں کی طرح آپ کی آواز میں گھن گرج نہیں ہوتی بلکہ نہایت شریں، دلکش اور پُر مغز خطاب فرماتے۔ اسلوب بیان اور انداز خطابت دلچسپ اور پُر تاثیر ہوتا۔ تقریریں بے جا طوالت اور قصے کہانیوں سے پاک ہوتیں۔
قاضی صاحب کے تعلقات وسیع تھے، علماء، صلحا، ادباء، شاگردوں اور ملی و سماجی شخصیتوں سے اچھے روبط تھے اور ان سے اکثر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ بہت سے لوگ اصلاح حال، تربیت اور دعاء کی غرض سے خطوط لکھتے۔ آپ اس کا نہایت تشفی بخش جواب دیتے۔ مکتوب کی اہمیت ہر دور مسلم رہی ہے۔ آج کے سائنسی دور میں بھی اس کی اہمیت سے کلی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قاضی صاحب مکتوب لکھنے میں تساہلی سے کام نہیں لیتے تھے۔ خطوط، مکتوب نگار کے دلی احساسات و جذبات کاآئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان میں انسان کے باطنی کیفیات کی جھلک ملتی ہے۔ قاضی صاحب کے خطوط ان کے باطنی کیفیات اور دلی احساسات کے غماز ہیں۔ آپ خط لکھتے وقت مکتوب الیہ کے مقام ومرتبہ اور عزت کا خیال رکھتے۔ القاب اور آداب مکتوب الیہ کے اقتضائے حال کے موافق استعمال کرتے۔ آپ کے خطوط علم و ادب کا بہترین نمونہ ہیں۔ زبان و بیان اور اسلوب نگارش کے اعتبار سے بھی آپ کے خطوط کافی دلچسپ ہیں۔
آپ کی زندگی اسلاف کا نمونہ اور بزرگوں کی مثال تھی۔ تقویٰ و پر ہیز گاری کے اعلیٰ مقام پرفائز تھے۔ نام و نمود سے دور اور اخلاص و عمل کے پیکر تھے۔ جن علماء کا تذکرہ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے قاضی صاحب ان کی ہوبہو تصویر تھے۔ فقر و استغنا کا مجسمہ، سادگی و انکساری کا نمونہ، حدیث و فقہ کا گنجینہ اور ایثار و استقامت کا پتلہ تھے۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے 
قاضی صاحب بے نفس اور خدا ترس انسان تھے، انہیں علم پر غرور نہیں تھا،کمال پر فخر نہیں تھا، عہدے ومناصب کی خواہش نہیں تھی، وہ ان چیزوں سےبے نیاز تھے،باوجود اس کے وہ آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے ممبر، امارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی بلکہ سرپرست تھے،اس کے علاوہ کتنے اداروں کے رکن اور سرپرست تھے، انہوں نے اپنے وطن منت نگر مادھوپور میں ایک دینی ادارہ مدرسہ طیبہ کے نام سے قائم کیا، آپ اس کے بانی اور سرپرست تھے،
 قاضی صاحب گرچہ بنیادی طور پرمدرسہ کے آدمی تھے اور پڑھنے پڑھانے سے تعلق تھا لیکن اس کے باوجودقومی اور ملکی حالات پر نظر رکھتے تھے۔ سیاسیات اور حالات حاضرہ پر دلچسپ تبصرے کرتے۔ گردوپیش کے ماحول سے کبھی بے خبر نہیں رہے۔ بے شمار خوبیوں اور صفات کی حامل شخصیت تھی۔ ایسی شخصیتیں خال خال پیدا ہوتی ہیں۔ گرچہ قاضی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے دیر تک زندہ رہیں گےاور ان کا فیض تادیر جاری رہے گا۔
؎ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم
تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
Noorus Salam Nadvi,
 vill+post Jamalpur, via Biraul
Dist Darbhanga,(Bihar) 
E-mail:nsnadvi@gmail.com