Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 8, 2020

دنیا ‏کی ‏غیر ‏مسلم ‏اقلیتیں ‏۔۔۔۔۔اور ‏بھارت ‏کے ‏مسلمان ‏

صداٸے وقت / ماخوذ
============================= 
ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور زندگی کے بیشتر شعبوں میں انکو اکثریت کے تعصب,عناد اور امتیاز بلکہ فساد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تعلیم معیشت اور ملازمت ہرجگہ ان کو حق تلفی اور حکومت کی ناانصافی کی شکایت ہے *یہ ایک حد تک بجا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں*-یہ ایک ایسی ناخوشگوار حقیقت ہے جس کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہمارے احتجاجوں اور نعروں سے اس رویہ میں بڑی تبدیلی نہیں آئے گی *البتہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اپنی محنت اور لیاقت کو ثابت کرکے اپنا وجود مفید اور مؤثر بنائیں تاکہ ہمارا وزن محسوس کیا جاسکے-*
*دنیا کی غیر مسلم اقلیتیں*

*دنیا میں جہاں کہیں اقلیتیں زندہ ہیں وہ اکثریت کےرحم و کرم اور حکومت کی مراعات پر نہیں بلکہ اپنی صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پر زندہ ہیں*, خواہ امریکہ کے یہودی ہوں یا ملیشیا کے چینی,انڈونیشیا کے عیسائی ہوں یا ہندوستان کے پارسی اورعیسائی- ملیشیا مسلمان ملک ہے یہاں چینی اقلیت میں ہیں اور تقریبا"35 فیصد ہیں مگر تجارت اور تعلیمی اداروں پران کا کنٹرول ہے,اسکی وجہ یہ ہے کہ ان میں *محنت اور اتحاد کی قوت* ہے جو ان کے وجود کو مؤثر بنائے ہوئی ہے- *وہ لوگ حکومت سے مطالبات اور احتجاج کرنے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کالجوں پر انحصار کرتے ہیں* اور اعلی تعلیم کے لیے مغربی یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں-
یونیورسٹی پترا ملیشیا میں سینیر چینی طلباء اپنےجو نیر طلباء کی کوچنگ کرتے ہیں تاکہ وہ مسلمان طلباء سے  لیاقت میں آگے بڑھ جائیں,قابل ذکر بات یہ ہے کہ طلباء کے وہ گروپ جو انجینیرنگ میں پروجکٹ تیار کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں ان میں چینی طلباء اپنے حصے کا کام کرنے کے ساتھ مسلمان لڑکوں کا کام  بھی انجام دینے کی سعی کرتے ہیں *تاکہ وہ اکثریت کو خوش بھی رکھ سکیں اور ناکارہ بھی* اور جن اداروں پر ان کا کنٹرول ہے وہاں وہ صرف چینی طلباء کو آگے بڑھانے کی سعی کرتے ہیں اور مسلم اکثریت کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں-
    امریکہ میں یہودی اقلیت کی مثال بار بار دہرائی جاتی ہے *جو پانچ فیصد ہونے کے باوجود ملک کی تعلیمی,معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر اثر انداز ہیں* ہماری فیکلٹی کے ایک سابق استاد نے شکاگو کے ایک یہودی ادارہ کے سربراہ سے یہودیوں کی تعلیمی برتری کا راز پوچھا تو انھوں نےجواب دیا کہ ہم اپنے بچوں کو شروع سے یہ بات ذہن نشیں کراتے ہیں کہ تم اقلیت میں ہو,اور عیسائی اکثریت میں, وہ تمہارے ساتھ ناانصافی کریں گے,تم اتنی محنت کرو کہ اکثریت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو زیادہ باصلاحیت ثابت کرکے دکھاؤ- اگر کسی پوسٹ کے لئے سو امیدوار ہوں تو تمہارے لئے موقع صرف پانچ فیصد ہوگا اور دوسرے فریق کے لئے 95 فیصد مگر *جب تک تم 95 فیصد سے زیادہ باصلاحیت نہ بن جاؤ اس وقت تک کوئی تمھیں آگے بڑھنے کا موقع نہیں دے گا* اگر تمھارے ساتھ پھر بھی ناانصافی ہو تو اتنی سزا مجلس انتخاب کو دیکر آؤ کہ اس کا ضمیر ملامت کرے کہ انھوں نے باصلاحیت امیدوار کو ٹھکرا کر جرم کیا ہے- *اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کے مواقع ان کو ملتے ہیں*

*ہندوستان کی مسلم اقلیتیں*

ہندوستانی مسلمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے- یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے ساتھ امتیاز اور تعصب برتا جاتا ہے وہ اس کا مقابلہ محنت اور صلاحیت سے نہیں کرتے- بلکہ وقت گذاری,سستی,کاہلی,فضول خرچی اور لایعنی کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کرتے ہیں,ان کو اس بات کا شعور نہیں کہ اکثریت اور حکومت اگر ایک راستہ بند کرتی ہے تو قدرت بہت سارے راستے کھول دیتی ہے-
اقلیتی کمیشن کے ایک غیر مسلم چیرمین کا یہ قول نہایت معنی خیز ہے کہ *" یہ ہندوستان ہی کی خصوصیت ہے کہ اقلیت یہاں اتنی محنت نہیں کرتی جتنی اکثریت کرتی ہے حالانکہ اسے اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے"*-
حکومت ہند کے سکریٹریز جن پر پوری حکومت کی مشینری کا انحصار ہوتا ہے اور جن کی عدیم الفرصتی کا یہ عالم ہے کہ ان سے ملنے کے لئے پندرہ پندرہ دنوں تک لوگوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے- *وہ شام کو پابندی کے ساتھ اپنے بچوں کو وقت دیتے ہیں اور ان کا ہوم ورک چیک کرتے ہیں* مگر یہی مدد مسلمان بچوں کو اپنے ان کے والدین سے نہیں ملتی- *مسلم معاشرہ کی صورت حال تو یہ ہے کہ باپ غافل اور ماں جاہل ہے,بچوں کو تعلیمی امداد کیسے ملے؟* باپ تعلیم یافتہ ہو تب بھی وہ سارے کاموں کے لئے وقت نکال سکتا ہے مگر اپنے بچوں پر خود محنت کرنے کا عادی نہیں- پھر کیسے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ مسلمان بچے اپنے غیر مسلم ساتھیوں کا مقابلہ کر سکیں گے- آگے بڑھنے کے لئے محنت,لیاقت اور بصیرت کی ضرورت ہے *مگر شاید مسلمانوں نے تن بتقدیر رہنے کو جینے کے لئے کافی سمجھ لیا ہے*

*تعلیمی میدان میں محنت اور مشقت کی بات الگ رہی مسلم آبادی میں بے حسی کاعالم یہ ہے کہ ہمارے جوانوں کو تعلیم کی اتنی بھی طلب نہیں ہے جتنی طلب چایے,پان,بیڑی اور سگریٹ کی ہے*

اس خواب غفلت سے بیدار ہونے اور حالات کے دلدل سے نکلنے کی شدید ضرورت ہے,قدرت کا فیصلہ یہ ہے کہ *"ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسہم"*(الرعد)
ترجمہ:اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اپنی حالت وہ خود نہ بدلے-
 ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی حالت کو بدلنے کا فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے لئے محنت اور مشقت کو اپنا زاد سفر بنانا ہوگا-
*ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمان بچوں میں تعلیم کا شوق اور تحریک پیدا کریں*- اس کے لئے ہمارے تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کو اتنی قربانی دینی پڑے گی کہ وہ تعلیمی امداد فراہم کرنے کے علاوہ اپنے علاقے میں تعلیم کی تحریک بھی چلائیں,لوگوں کو رسد پہچانے کے ساتھ ساتھ اس کی طلب بھی پیدا کریں اور تعلیم کے لئے محنت,صلاحیت اور دولت کی قربانی کا جذبہ پیدا کریں- *اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جو ادارے وہ اپنی محنت اور ملی دولت صرف کرکے قائم کریں گے ان کا فائدہ پھر وہی لوگ اٹھائیں گے جو ان کے ساتھ تعصب اور امتیاز برتتے ہیں*-
یہ اندیشہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے,شبلی کالج اعظم گڑھ میں طلباء کی اکثریت غیر مسلم بچوں کی ہے اور پچھلے سالوں میں وہ ادارے کے وقار اور اقلیتی کردار پر حملہ آور بھی ہوئے-اسی طرح مزمل کالج,سکندرہ علیگڑھ میں مسلمان بچے اقلیت میں ہیں,جب کہ اس قصبہ میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے-میرٹھ کا اسماعیل ڈگری کالج عملا" غیر مسلموں کے ہاتھ میں جا چکا ہے

*اس طرح کی متعدد مثالیں بتاتی ہیں کہ تعلیمی ادارہ قائم کرنا کافی نہیں,تعلیمی تحریک بھی ضروری ہے*
اس لئے سر سید نے ایک طرف کالج قائم کیا تو دوسری طرف *مسلم ایجوکیشنل کانفرنس* کی بنیاد ڈالی,ایک تعلیمی ادارہ بنا دوسرا تعلیمی تحریک-(ماخوذ)