Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, September 10, 2020

اردو کے حقوق کے لئے خواتین نے سنبھالا مورچہ، حکومت پر اردو کے ساتھ امتیازی سلوک کا لگایا الزام.

اردو زبان کے حقوق کو لیکر احتجا ج کر نے والی نوجوان ادیبہ خاتون زماں مسعود کا کہنا ہے کہ ' زبان کو لے کرحکومتوں کا رویہ کورونا کے قہر سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کورونا سے صرف انسان کی موت ہو سکتی ہے جو اس کی زد میں آتا ہے لیکن حکومتیں خاموشی سے ہماری زبان اور مشترکہ تہذیب کو جس طرح سے ختم کر رہی ہیں وہ اس سے زیادہ خطرناک ہے۔
بھوپال..مدھیہ پردیش /صداٸے وقت /ذراٸع /١٠ ستمبر ٢٠٢٠۔
==============================
 زبان کا فروغ حکومت کی سرپرستی اور اس کے چاہنے  والوں کی  بیداری سے ہوتا ہے۔ اردو زبان کے حقوق کو لے کرجتنی حکومتوں کی عدم توجہی ذمہ دار ہے اس سے زیادہ اردو والوں کی بے حسی ذمہ دار ہے۔ اردو والے بند کمرے میں بیٹھ کر خوبصورت باتیں تو کرتےہیں لیکن اردو کے حقوق کو لے کر جب گھر سے نکل کر سڑک تک آنا ہوتا ہے تب ان کی خاموشی کسی سم قاتل سے کم نہیں ہوتی ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کو شامل کرنے ،مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی تقرری کرنے اور اردو طلبا  کو اردو کی کتابیں فراہم کرنے کے معاملے کو لیکر بھوپال میں محبان اردو کے تحت خواتین نے احتجاج کیا۔ اردو زبان کے حقوق کو لیکر احتجا ج کر نے والی نوجوان ادیبہ خاتون زماں مسعود کا کہنا ہے کہ ' زبان کو لے کرحکومتوں کا رویہ کورونا کے قہر سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کورونا سے صرف انسان کی موت ہو سکتی ہے جو اس کی زد میں آتا ہے لیکن حکومتیں خاموشی سے ہماری زبان اور مشترکہ تہذیب کو جس طرح سے ختم کر رہی ہیں وہ اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ اردو زبان کو اس کے آئینی حقوق سے محروم کرنے میں کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ سبھی حکومتوں کا نظریہ ایک جیسا ہے ۔ہم اپنی زبان کے آئینی حقوق کو لے کر ابھی تو صرف احتجاج کر رہے ہیں اور جہاں اس زبان کو خون دل سے سیراب کرنے کی باری آئے گی ہم وہاں بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔کیونکہ اس زبان کے فروغ میں بلا لحاظ قوم و ملت سبھی نے اپنا خون جگر صرف کیا ہے'۔
ادیبہ تبسم کہتی ہیں کہ 'یوں تو اس ملک میں دیویوں کا بڑا احترام ہوتا ہے اور اردو اس ملک کی بیٹی ہے ۔سنسکرت سے پیدا ہوئی اس کے باوجود ملک کی بیٹی کے ساتھ اس طرح کا تعصب کا رویہ حکومتوں کو زیب نہیں دیتا ہے ۔دوہزار تین سے صوبہ میں اردو اساتذہ کی تقرری نہیں کی گئی ہے۔ جن اسکولوں میں اردو اساتذہ تھے اور جب وہاں پر نئی تقرری نہیں کی گئی تو وہ اسکول بھی یہ کہہ کر بند کر دیئے گئے کہ جب یہاں پر اردو زبان کے پڑھنے والے ہی نہیں ہیں تو اردو اساتذہ کا کیا کام۔مردوں نے زبان کو لیکر بہت خاموشی اختیار کر لی ہے۔ اب خواتین نے مورچہ سنبھالا ہے اور اردو زبان کے حق کو لیکر رہیں گے'۔
نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کو شامل کرنے ،مدھیہ پردیش کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی تقرری کرنے اور اردو طلبا کو اردو کی کتابیں فراہم کرنے کے معاملے کو لیکر بھوپال میں محبان اردو کے تحت خواتین نے احتجاج کیا۔
عرشی خان کہتی ہیں کہ مدھیہ پردیش جب سے بنا ہے یہاں پر کانگریس اور بی جے پی دو ہی پارٹیوں کی حکومتیں رہی ہیں ۔ یوں تو دیکھنے میں دو الگ الگ پارٹیاں ہیں لیکن اقلیتوں کے حقوق کی بات ہو یا اردو زبان کے بقا کی بات دونوں ہی تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ یوں تو اسمبلی میں اردو ملازمت میں خواتین کے ریزرویشن کی بات کی جاتی ہے لیکن اردو زبان اور اردو اساتذۃ کی بات کی جائے تو یہاں پر بھی دونوں ہی پارٹیوں نے خواتین کو نظر انداز کیا ہے۔ بی جے پی نے پندرہ سال میں اور کمل ناتھ  حکومت نے پندرہ مہینے میں اردو کے نام پر کسی کا تقرر کیا ہو تو یہ بتائیں۔ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس،کیا سب میں اردو اور خواتین نہیں آتی ہیں ۔ پھر کورونا کی آڑ میں ان کا یہ بھی ستم ہے کہ ملنے کے لئے وقت نہیں دیتے ہیں اور انہیں میمورنڈم میل کیجئے تو حکومت میں بیٹھے ذمہ داران اس کا جواب تک نہیں دیتے ہیں۔
کانگریس ترجمان بھوپیندر گپتا کہتے ہیں کہ دگ وجے سنگھ کے زمانے میں اردو ٹیچروں کی بھرتی کی گئی تھی۔ کانگریس نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا اور اس پر عمل بھی شروع ہو گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ عمل ہوتا ہماری سرکار ہی چلی گئی۔ اب بی جے پی کو چاہیئے کہ اردو کو اس کا حق دینے کے لئے قدم اٹھائے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر برائے اسکول ایجوکیشن اندر سنگھ پرمار کہتے ہیں کہ کانگریس کے لوگ صرف الزام لگاکر عوام کے بیچ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کے لئے کام کیا ہو تو بتائیں۔ انہوں نے سبھی کو تو دھوکہ دیا ہے۔ کسانوں کےساتھ، مزدوروں کے ساتھ ،دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ زبان کے چاہنے والوں کے ساتھ دھوکہ ہی تو کیا ہے ۔ ان کی نیتوں میں کھوٹ تھا تبھی تو اقتدار سے باہر ہوئے ہیں۔ ہماری سرکار میں کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش میں انیس سو چھپن میں اردو میڈیم کے پانچ سو اٹھہتر اسکول تھے حکومتوں کی عدم توجہی اس قدر ہے کہ اب صوبہ میں اردو میڈیم کے صرف ایک سو انتیس اسکول ہی بچے ہیں۔ زبان کو لیکر حکومتوں کا رویہ یہی رہا تو اردو میڈیم کے یہ اسکول کتنے دن رہیں گے یہ غور کرنے والی بات ہے۔