Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, September 19, 2020

کیاطلبإ، ‏حقوق ‏انسانی ‏کے ‏علمبرداروں ‏اور ‏جمہوریت ‏پسندوں ‏کی ‏گرفتاریوں ‏کے ‏بعد ‏مودی ‏سرکار ‏کے ‏فرقہ ‏پرستانہ ‏ایجنڈے ‏کے ‏خلاف ‏زبان ‏بند ‏ہوجاٸے ‏گی؟


از/ شکیل رشید/صداٸے وقت ۔
==============================
خالد عمر کی گرفتاری ایک منصوبہ بند تجربہ ہے ۔
اگر میں یہ کہوں کہ دہلی میں گجرات کا تجربہ کام آرہا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ گجرات 2002ء کے بعد مسلم کش فسادات کے سلسلے میں بی جے پی کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک درجنوں لیڈروں کے نام سامنے آئے تھے، ان کے خلاف ایف آئی آر  درج ہوئی تھیں اور مقدمے بھی چلے تھے ۔ اور  کئی کو مجرم قرار دے کر سزائیں بھی دی گئی تھیں جیسے کہ مایا کونڈنانی ۔ خود اس وقت کی گجرات کی بی جے پی سرکار کے وزیراعلیٰ آج کے وزیراعظم نریندر مودی پر ،  احمدآباد کی گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے قتل عام کو نہ روکنے کا الزام عائد ہوا تھا، اس قتل عام میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی مارے گئے تھے، مودی پر یہ سنگین الزام تھا کہ مرحوم  کی مدد کی پکار کو انہوں نے ان سنا کر دیا تھا ۔ مرحوم کی بیوہ ضعیف العمر جری خاتون ذکیہ جعفری آج بھی مودی کو ملزم سمجھتی ہیں اور آج بھی عدالت میں مودی کے خلاف ان کی شکایت پڑی ہوئی ہے ۔ آج تک بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت ، گجرات فسادات کو ہوا دینے اور فسادیوں کے ساتھ مل کر فساد کرنے اور فساد ہوتا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند رکھنے کے الزام  سے اپنا دامن نہیں دھو سکی ہے ۔ حالانکہ گجرات کے مسلم کش فسادات کے سبب بی جے پی مرکز میں پہنچ گئی اور نریندر مودی وزیراعظم بن گئے، لیکن دہلی کے فسادات کا الزام بی جے پی اپنے سر نہیں لینا چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ گجرات کی طرح بی جے پی کے لیڈروں پر مقدمے بنیں کیونکہ اسے یہ اندازہ ہے کہ اب فسادی پارٹی کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش ہونے میں اس کی عالمی ساکھ متاثر ہو گی اور اسے ملک میں سیاسی فائدہ کم سیاسی نقصان زیادہ ہوگا ۔ اسے یہ لگ رہا ہے کہ اگر ان تمام کمیونسٹوں، حقوق انسانی کے کارکنوں، سول سوسائٹی کی اہم شخصیات، اور مسلمانوں کو، جنہوں نے این آر سی، این پی آر اور غیر آئینی سی اے اے کے خلاف جدوجہد کی ہے، مظاہرے اور احتجاج کیے ہیں، فسادی کے طور پر کٹگھڑے میں گھسیٹ لیا جائے اور جم کر یہ پراپگنڈہ کیا جائے کہ یہ بیرون ممالک میں ستائے جارہے ہندوؤں کو ہندوستان کی شہریت دینے والے قانون کے مخالفین ہیں تو شاید بڑا سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔ کچھ اور نہ سہی  کم از کم ایک بہت بڑے حلقے کی، جو بی جے پی کا نکتہ چیں ہے، اس کی پالیسیوں پر تنقید کرتا اور اس کے ہندو راشٹر کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے، بولتی بند کی جا سکتی ہے، سیاسی حریفوں کو ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے ۔ اور ملک کی ایک بہت بڑی آبادی، مسلمانوں کو، خوف و دہشت میں مبتلا کرکے بے دست و پا کیا جا سکتا ہے ۔ 
دہلی میں بیٹھ کر گجرات کے تجربات کی روشنی میں اس فارمولے پر عمل شروع کردیا گیا ہے  کہ اس سے پہلے کہ خود اپنی کرنی کے لیے قانون کی گرفت میں آئیں کیوں نہ انہیں ہی مجرم بنا کر کٹگھڑے میں کھڑا کر دیں جن کو ستایا  گیا ہے ، جو ناانصافی اور جبر کے خلاف زوردار آواز اٹھا رہے ہیں، تاکہ کل کو  قانون کے لمبے ہاتھ سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے ۔ اور کل کے مقابلے یہ کرنا آج آسان ہے کیونکہ قانون کے لمبے ہاتھ اب ان ہی کے ہاتھ میں ہیں، اب سیٌاں ہی کوتوال ہیں، ملک پر ان ہی کی حکومت ہے ۔ کیا یہ قیاس کرنا درست نہیں کہ خالد عمر کی گرفتاری کے پس پشت مذکورہ سوچ کارفرما ہو سکتی ہے؟ خالد عمر اور دیگر طلبا اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کی گرفتاریوں اور دہلی پولیس کی دہلی فسادات کے سلسلے میں پیش کی گئی 17 ہزار صفحات کی چارج شیٹ پر، جس میں  ہرش مندر، پروفیسر اپوروانند، یوگیندر یادو اور سیتارام یچوری اور ضمانت پر رہا صفورا زرگر جیسی 15 اہم شخصیات کے نام بطور ملزمان کے درج ہیں، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے صاف لفظوں میں دہلی پولیس کے عمل کو مجرمانہ سازش قرار دیا ہے ۔ اور سازش کا مطلب ہی ہوتا ہے ایسا کام جو باقاعدہ منصوبے سے کیا جائے ۔ پرشانت بھوشن کے الفاظ ہیں : یہ دہلی کے دنگوں کی جانچ جو ہو رہی ہے یہ جانچ کے نام پر سازش ہے، مجرمانہ سازش ۔ اس جانچ کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ بھوشن کی پریس کانفرنس میں پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید، سی پی آئی پولٹ بیورو کی ممبر کویتا کرشنن، دی وائر کی پبلک ایڈیٹر پامیلا فلیپوس اور دہلی یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سربراہ نندیتا نارائن بھی موجود تھیں ۔ ان سب کا سیدھا سا سوال ہے، عمر خالد، دیوانگنا کلیتا اور صفورا زرگر کا جرم کیا ہے؟ یہ نوجوان طلباء کیا کر رہے تھے؟ کیا ان نوجوان بچیوں کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کو پولیس کی پٹائی سے بچایا ہے؟ ان کا یہ ماننا ہے کہ پولیس اب نئی کہانی لے کر آئی ہے، یہ لگ رہا تھا کہ جامعہ کے نوجوانوں نے جو تحریک شروع کی ہے اس سے حالات بدل رہے ہیں لیکن اب دہلی فساد کی کہانی گڑھ لی گئی ہے ۔ ان سب کے مطابق مسلمان اور سماج کا دبا کچلا طبقہ نشانے پر ہے اور ملک بڑی تیزی سے تھیو کریسی یعنی دھرم کے نام پر کی جانے والی حکومت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ عمر خالد جیسے نوجوان جو پیار بانٹنے کی اور آئین پر چلنے کی بات کرتے ہیں پکڑے جا رہے ہیں اور انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا و پرویش ورما جیسے نفرت کی باتیں کرنے والے بھاجپائی لیڈر آزاد ہیں ۔ بھوشن ان گرفتاریوں کو سی اے اے مخالف احتجاجیوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں ۔ عمر خالد کی گرفتاری کو ہی لے لیں کہ یہ سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش رہے ہیں ۔ عمر خالد پر الزام ہے کہ انہوں نے امراوتی کی تقریر میں لوگوں کو صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہند کے موقع پر جمع ہو کر پر تشدد احتجاج کے لیے اکسایا تھا ۔ پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے پاس چالیس جی بی ڈاٹا ہے جو عمر خالد کے دہلی فسادات کی منصوبہ بندی پر روشنی ڈال سکتا ہے ۔ چالیس جی بی ڈاٹا کا مطلب لاکھ سے زائد صفحات ہیں، بھلا کیا کسی فساد کی سازش اتنے صفحات میں بنتی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کب تک یہ لاکھ صفحات پڑھے جائیں گے اور کب تک عمر خالد کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جائے گی؟ دس دن کے اندر یہ کام ناممکن ہے، لہذا پولیس مزید ریمانڈ مانگے گی ۔ اور شاید مقصد بھی یہی ہے کہ قانونی الجھنوں میں پھنسا کر لوگوں کو جس قدر ممکن ہو سکے اسی قدر زیادہ دنوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔ عمر خالد اور اہل خانہ کو اندازہ تھا کہ گرفتاری کسی بھی روز ممکن ہے اسی لیے عمر خالد نے ایک ویڈیو تیار کر لیا تھاتاکہ الزامات کی حقیقت لوگوں کے سامنے آ سکے ۔ امراوتی کی تقریر کے حوالے سے عمر خالد کا کہنا ہے کہ جھوٹ کے پرچار کے لیے پندرہ سے بیس منٹ کی طویل تقریر سے صرف بیس سیکنڈ کی تقریر پولیس نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے پیش کی ہے ۔ عمر خالد نے اپنے ویڈیو میں دو اہم باتیں کی ہیں، ایک تو یہ کہ  ہر اس شخص کو اسیر بنایا جا رہا ہے جو بی جے پی کی افتراق کی سیاست کا نکتہ چیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ، لوگوں کو خوفزدہ اور دہشت زدہ کیا جارہا ہے تاکہ لوگ ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا بند کر دیں ۔ عمر خالد نے ساتھ ہی یہ پیغام دیا ہے کہ لوگ بغیر ڈرے اور سہمے ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں ۔ اور آواز آٹھ رہی ہے ۔ اس کے باوجود کہ لوگ پھنسائے اور ملوث کیے جا رہے ہیں آواز بند نہیں ہوئی ہے ۔ بھوشن کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے خلاف جو مثالی پرامن مظاہرے ہوئے پولیس ان کے شرکاء کو دہلی فسادات میں ملوث کرنا چاہتی ہے ۔ وجہ صاف ہے، مودی سرکار یہ امر یقینی بنانے پر تلی ہے کہ آئندہ کوئی سی اے اے کی مخالفت میں مظاہرہ کرنے کی ہمت نہ کر سکے ۔ ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ قانون ہر حال میں لاگو ہو کر رہے ۔
دی وائر کے مدیر اعلیٰ سدھارتھ ورداراجن نے ممبئی اردو نیوز سے گرفتاریوں اور دہلی فسادات کے تعلق سے چند سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا : ’ یہ جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں ان کے پس پست چار مقاصد کی تکمیل ہے ۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ ان گرفتاریوں کے ذریعے دہلی میں تشدد برپا کرنے والے سنگھ پریوار اور اس کے قائدین کی کرنی پر سفیدی پوتی جا سکے ۔ دوسرا مقصد ان منظم جرائم پیشہ افراد کے، جنہیں نارتھ ایسٹ دہلی میں مسلمانوں کی املاک کی لوٹ پاٹ کی مکمل چھوٹ دی گئی تھی ، سرغناؤں کو تحفظ دیا جا سکے ۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ سی اے اے اور این آر سی اور مودی سرکار کے دیگر فرقہ پرستانہ ایجنڈوں کے خلاف جو پر امن مظاہرے ہوئے اور جو دسمبر 2019ء سے فروری 2020ء کے درمیان حکومت کے لیے چیلنج بنے رہے، پھر نہ ہو سکیں اور نہ حکومت کے لیے چیلنج بن سکیں ۔ اور چوتھا مقصد یہ ہے کہ ان گرفتاریوں کے ذریعے طلباء اور ان کے اہل خانہ کو ایسا دہشت زدہ کردیا جائے کہ وہ کسی بھی طرح کی ایسی تحریک سے خود کو دور رکھیں جو حکومت سے سوال کرتی یا حکومت کو چیلنج کرتی ہو. 
اگر عمر خالد اور صفورا زرگر سمیت طلباء کی گرفتاریوں، وہ بھی یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت، کا جائزہ لیا جائے تو مقصد طلباء کو ڈرانا اور انہیں سی اے اے مخالف تحریک اور ایسی ہی دوسری تحریکوں سے دہشت زدہ کر کے دور رکھنا نظر آتا ہے ۔ صفورا زرگر، دیوانگنا کلیتا اور عمر خالد سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش رہے ہیں اس لیے ان کی گرفتاری کا مقصد بالکل عیاں ہے ۔ رہی بات سی اے اے مخالف تحریک کو دہلی فسادات سے جوڑنا تو اس کی وجہ بھی سامنے ہے، ایک وجہ پرامن تحریک کو بدنام کرنا اور دوسری وجہ تشدد کا الزام ہرش مندر، پروفیسر اپوروانند، یوگیندر یادو اور سیتا رام یچوری جیسی شخصیات کے سر مڑھ کر بی جے پی کے ان لیڈروں کو بچانا ہے جو گولی مارو سالوں کو، جیسے زہریلے نعرے لگا رہے اور پولیس کو دھمکا رہے تھے کہ اگر مظاہرہ ختم نہ کیا گیا تو ہم خود اسے ختم کریں گے ۔ کپل مشرا، پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر، راگنی تیواری پر زہریلے بیانات کے لیے معاملہ تک درج نہیں کیا گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب مودی سرکار کے فرقہ پرستانہ ایجنڈے کے خلاف اور سی اے اے کی مخالفت میں تحریکیں دم توڑ دیں گی؟ دی وائر اردو کے سابق مدیر اور اب آزاد صحافی مہتاب عالم اس سوال کے جواب میں بتاتے ہیں  مجھے لگتا ہے کہ تحریکوں کا سلسلہ بند نہیں ہو گا جاری رہے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کو یہ لگ رہا ہے کہ ان کا وجود ہی خطرہ میں ہے، اور پھر اس بار نشانہ وہ بھی بنائے جا رہے ہیں جو بہت سرگرم نہیں ہیں اس لیے زبان بند رکھنے اور تحریک نہ چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وجود کو خطرہ بنا رہے گا اس لیے لوگ یہی سوچتے ہیں کہ بہتر ہے کہ تحریک جاری رہے اور یہ بہت حد تک صحیح بھی ہے ۔ مہتاب عالم کی اس سلسلے میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر ایک تفصیلی رپورٹ آچکی ہے ۔ ممبئی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے گرفتاریوں اور حقوق انسانی کے علمبرداروں کو پھنسانے کے پیچھے مقصد ان افراد کو بچانا بتایا جو فسادات کے ذمے دار ہیں ۔ ان کے مطابق جو بھی آواز اٹھائے گا اس کے ساتھ یہی کیا جائے گا، مسلم نوجوان اور عوام خاص نشانہ ہوں گے تاکہ دہشت پھیلے اور یہ گرفتاریوں کا سلسلہ جلد رکنے والا نہیں ہے ۔
چونکہ پولیس پر اب اعتبار نہیں رہا ہے اس لیے مہتاب عالم کی بات کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، بہت سارے لوگ ہیں جن پر گرفتاریوں کی تلوار لٹکی ہوئی ہے ۔ پولیس کا کردار بہت ہی جانبدارانہ رہا ہے ۔ پرشانت بھوشن نے اس تعلق سے سوال اٹھائے بھی ہیں ۔ انہوں نے تو باقاعدہ کہا ہے کہ پولیس 23 سالہ فیضان کی قاتل ہے ۔ یاد رہے دہلی تشدد کے دوران پولیس نے مار پیٹ کر چند نوجوانوں سے قومی ترانہ پڑھنے کے لیے کہا تھا، تشدد کیا تھا جس میں فیضان کی جان چلی گئی تھی ۔ پولیس پر گواہی کے لیے لوگوں پر جبر کرنے کا بھی الزام ہے اور یہ بھی الزام ہے کہ اس نے متاثرین اور مظلومین کی فریادیں نہیں سنی ہیں، لہذا اگر پولیس پر سے بھروسہ آٹھ گیا ہے توکچھ غلط بھی نہیں ہے ۔ سپر کاپ ممبئی کے سابق پولیس کمشنر جولیو ایف ریبیرو نے تو دہلی پولیس کو بی جے پی کے آقاؤں کے اشارہ پر ناچنے والی قرار دے دیا ہے، انہوں نے دہلی فسادات کی تفتیش پر شک کا اظہار کیا ہے کہ یہ درست راہ پر نہیں کی جا رہی ہے ۔ نو سابق آئی پی ایس افسران نے بھی دہلی پولیس کمشنر ایس ایس شریوستوا کو خط لکھ کر ٹحقیقات پر انگلی اٹھائی ہے ۔ اور صاف لفظوں میں کہا ہے کہ سی اے اے مخالف احتجاجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اگر پولیس چارج شیٹ کاخلاصہ یہ ہے کہ جن کے نام ملزمان کی فہرست میں ہیں انہوں نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کے بہانے منظم انداز میں بھیڑ کوتشدد پر اکسانے کے لیے اکٹھا کیا، ہفتوں سے وہ منصوبہ بنا کر ہتھیار جمع کرتے رہے، پتھر بھی جمع کیا؟ یہ پروپگنڈا کیا کہ حکومت کی پالیسیاں اقلیت بالخصوص مسلم مخالف ہیں اور انہیں بہت سے گروپوں بشمول پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی طرف سے فنڈ ملتا رہا ۔ مذکورہ الزامات پھسپھسے ہیں کیونکہ مظاہرے دو مہینے سے زائد چلے اور مثالی و پرامن تھے ۔ پولیس مظاہرہ گاہوں پر موجود رہی اس نے کبھی ہتھیار اینٹ پتھر جمع کرنے کی بات نہیں کہی ۔تقریریں عام ہیں ان میں دیش، آئین اور بھائی چارہ کی بات کی گئی ہے اور صرف مسلمان نہیں ان میں ہندو اور سکھ بھی شریک رہے ہیں ۔ رہی فنڈنگ کی بات تو مظاہروں کے لیے فنڈنگ منع نہیں ہے، سیاسی پارٹیاں بھی فنڈنگ کرتی ہیں ۔حکومت کی پالیسیوں پر تنقید پر پابندی نہیں ہے ۔اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا ایک رجسٹرڈ سیاسی پارٹی ہے اس پر پابندی نہیں ہے ۔ یہ ہے وہ چارج شیٹ جس میں دہلی کے سابق پولیس کمشنر نیرج کمار کو بڑے تکنیکی ثبوت نظر آتے ہیں ۔ عمر خالد کے خلاف بھی تکنیکی ثبوتوں کی بات کی جا رہی ہے، لیکن عمر خالد کے والد قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ ہم عدالت میں تمام الزامات کو غلط ثابت کر دیں گے ۔ ظاہر ہے قانونی لڑائی لمبی چلے گی، اس لڑائی میں ان سب کو جوملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں عمر خالد، ہرش مندر ،صفورا زرگر، یوگیندر یادو، سیتا رام یچوری اور دیوانگنا کلیتا اور دوسروں کا جو پولس اور سرکار کے نشانے پر ہیں ساتھ دینا ہوگا ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ناانصافی کے خلاف آواز بلند ہوتی رہے ۔