Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 29, 2020

١٢ ‏ربیع ‏الاول۔۔۔۔۔وفات ‏رسول ‏اللہ ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وسلم۔

از/ شمشیر عالم مظاہری۔۔دربھنگوی/ صداٸے وقت 
=============================
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

۔ وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ ا لر سل افا ئن مات او قتل انقلبتم علی اعقا بکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضراللہ شیئا وسیجزی اللہ الشکرین۔
وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

برادران اسلام۔ماہ ربیع الاول۔اپنی تمام تر بہاروں کے ساتھ پژمردہ کلیوں کو زندگی بخشنے کو ہر دم اور ہر لحظہ تیار ہے ۔ یہ قمری سال کا تیسرا مہینہ مختلف خصوصیات کا حامل ہے۔یہ مہینہ ہر سال ہمارے ذہنوں کے دریچوں کو دستک دیتا ہے۔ہمارے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑ تا ہے۔اور یاد دلاتا ہے کہ اے نرم نرم بستروں پر دادعیش دینے والو۔اپنے ساتھ محمد اور احمد کا نام جوڑ نے والو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیو۔
تمہیں معلوم بھی ہے یہ مہینہ کونسا ہے۔
یہی وہ مہینہ ہے جس میں ہادی کائینات محبوب رب نے آنکھیں کھولیں اور اپنی روشنی سے ظلمت کدہ کو نور سے بھر دیا۔ اور اسی مہینہ میں اپنے وطن مکہ مکرمہ کو خیرباد کہتے ہوئے مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنایا اور اسلامی نظام کے اسلامی قانون اور شریعت اسلامیہ کی داغ بیل ڈالی۔اور پھر اسی مہینہ میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور دنیا کو ظلمت کدہ سے نکال کر گہوارہ علم و نور بنادیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء ورسل کا سردار بناکر مبعوث فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ختم نبوت کا تاج رکھا۔معراج کے موقع پر انبیاء کرام علیھم السلام کی امامت کا شرف عطا کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو تمام ظاہری و باطنی کمالات سے مزین فرما کر پوری دنیا کے لئے ہادی بنا کر مبعوث فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں انسانیت کی تعلیم دی۔حقیقی مالک کی پہچان کروائی۔مالک حقیقی کی عبادت وریاضت اور اسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تلقین کی۔عرصئہ دراز بت پرستی و شرک پرستی کے سحرا میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو راہ مستقیم دکھلایا۔شیطان کے کھنڈر سے باہر نکال کر توحید کے مضبوط قلعہ میں محفوظ کر دیا۔سالوں سے چلتی آرہی آپسی دشمنی کو لمحہ بھر میں ختم فرما یا۔
ایمانی رشتہ کے ذریعہ مضبوط اخوت عطا کی اور آپس میں شیر و شکر کے مانند دیا۔توڑتی ہوئی انسانیت کو حیات نو عطا کی۔دختر کشی کی لعنت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے انہیں اعلیٰ مقام عطا کیا۔رنگ و نسل کے بتوں کو پاش پاش کر کے اخوت کا درس دیا۔
غرض۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تئیس ۔ 23. سال کے قلیل عرصہ میں پوری دنیا میں وہ انقلاب برپا کیا کہ تاریخ انسانی میں جس کی کوئی نظیر نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا صرف مخلوق کی ہدایت کے لئے تھا۔اور۔اس لئے تھا کہ خدا آخری اور قطعی احکام کو اس کے بندوں تک پہنچا دیں۔اور۔خدا کی حجت اس کے بندوں پر تمام کر دیں۔
اس کام کو آپ نے کس طرح انجام دیا اور اس میں آپ کو کتنی کامیابی ہوئی اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں ابتداء آفرینش عالم سے اس وقت تک بے شمار انبیاء ورسل اسی کام کے لئے تشریف لائے مگر تمام انبیاء مرسلین کے کاموں کو ملا کر جمع کیا جائے۔تاہم وہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ اور آپ کی تنہا کامیابیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپ کی کامیابیوں سے ان کو کوئی نسبت نہیں۔
وفات لازمی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اس دنیا جتنے انبیاء و مرسلین آۓ وہ یکے بعد دیگرے یہاں سے جا چکے تھے۔اور یہ معلوم تھا کہ ایک روز اپنا کام پورا کر نے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے جائیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے اپنے رب کے پاس جانا نہ تعجب کی بات تھی نہ افسوس کی۔بلکہ۔انعامات الہیہ کی تکمیل آپ پر ممکن نہ تھی جب تک خداوند کریم آپ کو اپنے پاس بلا نہ لیتا۔مگر۔انبیاء کا اپنی امت سے جدا ہونا خود امت کے لئے مصیب کبری ہے۔مومنین صادقین کا دل آتش فراق سے جل اٹھتا ہے۔انتہائی رنج و ملال سے وہ حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ مومن صادق کے لئے کوئی تکلیف اور کوئی مصیبت اتنی صبر آزما نہیں ہو سکتی جتنا اپنے رسول اور ہادی کا فراق۔اس لئے ہرنبی کو موت کے قبول کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ کسی نبی موت نہیں آئی جب تک ان کو اختیار نہ دیا گیا۔
ابتداء مرض۔
ایک روایت میں ہے۔ایک روز بقیع میں ایک صحابی کے جنازے سے  فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپسی میں حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر میں درد سر شروع ہوا
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی ابتداء ہے اور اکثر محدثین اسی کو ابتداء حقیقی کہتے ہیں۔لیکن صحیحین میں عبید اللہ بن عبد اللہ کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ سب سے پہلے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری حضرت میمونہ کے گھر میں شروع ہوئی۔ان روایتوں میں بظاہر تعارض ہےلیکن علماء
اس کی تاویل کرتے ہیں کہ مرض کی حقیقی ابتداء بقیع سے واپس آنے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ کے مکان میں ہوئی اور
حضرت میمونہ کے مکان میں مرض کی زیادتی ہوئی۔نہ کہ مرض کی ابتداء۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کس روز بیمار ہوئے اور کتنے روز بیمار رہے۔
علامہ قسطلانی حافظ ابن رجب حنبلی سے نقل کرتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری صفر کے آخر میں شروع ہوئی۔اور مشہور یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ ۔ 13. روز بیمار رہے۔
یہی اکثر کا قول ہے۔
خطابی سے منقول ہے کہ سموار کے روز آپ کا مرض شروع ہوا۔اور حاکم ابو احمد جو
ابو عبداللہ کے استاد ہیں کہتے ہیں کہ آپ کا مرض بدھ کے روز شروع ہوا۔بعض کہتے ہیں کہ
سنیچر کے روز مرض شروع ہوا۔
مدت مرض میں بھی اختلاف ہے۔
اکثر علماء کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ ۔ 13. روز بیمار رہے
یہی قول مشہور ہے۔اور علامہ قسطلانی نے روضہ سے دو قول نقل کیا ہےچودہ ۔ 14. روز
اوربارہ ۔ 12. روز۔سلیمان التمیمی نے جزما یہ ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
دس ۔ 10. روز بیمار رہےاس قول کو بیقہی نے باسناد صحیح ذکر کیا ہے۔

رحلت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ انا للہ و انا الیہ راجعو ن۔
دوشنبہ  کی صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سنبھل گئی تھی صبح کی نماز کے وقت آپ نے پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جماعت سے نماز پڑھتے دیکھ اور اس پر حضور نے تبسّم بھی فرمایا۔
اور بخاری میں متعدد روایتیں ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ عبد الرحمن بن ابو بکر صدیق تشریف لائے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔اور ایک روایت میں ہے کہ تڑ لکڑی کی مسواک تھی۔اور فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں میں سمجھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حاجت ہے اس لئے دریافت کیا کہ کیا آپ کے لئے مسواک مانگوں آپ نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں ۔۔۔میں نے مسواک لے کر سرے کو توڑ دیا اور پھر سرے کو نرم بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اچھی طرح مسواک کیا
لیکن جیسے ہی مسواک سے فارغ ہوئے آپ کا ہاتھ گر گیااور تین ۔ 3. دفعہ فرمایا۔ فی الرفیق الاعلیٰ۔
بس اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
اس روایت میں راوی کو شک ہے کہ
حضرت عائشہ صدیقہ نے یہ فرمایا تھا کہ ہاتھ گر گیا یا یہ فرمایا کہ ہاتھ سے مسواک گر گئی 
وفات کا اثر ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کا اثر صحابہ پر کیسے پڑا۔اورمدینہ منورہ کی حالت کیا ہو گئی۔ روایتوں کے الفاظ میں اس کی پوری تفصیل کا تلاش کرنا بے سود ہے۔
صحیح بخاری کی مستند روایت ہے کہ مسجد نبوی میں پہلے منبر نہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے جب منبر بنا اور آپ منبر پر تشریف لے گئے تو بیجان لکڑی اس جدائی کو برداشت نہ کرسکی روئی اور اتنے زور سے روئی کہ صحابہ نے اس کے رونے کی آواز سنی جب اتنے سے فراق کا بیجان لکڑی پر یہ اثر ہوا
تو ظاہر ہے صحابہ پر حضور کے فراق کا کیا اثر ہوا ہوگا
کفار مکہ نے شہادت دی ہے کہ جو محبت صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اس کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی۔

ماں
باپ
اولاد
عزیز
جان
مال
سب زیادہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی۔ اور یہ ایسا فراق حاصل ہوا کہ اس کے بعد چہرۂ انور پر نظر پڑنے ان کو قطعی مایوسی ہو گئی۔اس لئے جتنی بیتابی بھی ان کو ہوئی ہو وہ تھوڑی ہے۔

جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بلا مبالغہ حواس کھو بیٹھے عقلیں گم ہو گیئں آوازیں بند ہوگئیں
علامہ قسطلانی لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان پر سکتہ طاری ہو گئی وہ آتے جاتے تھے مگر کوئی بات نہیں بول سکتے تھے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیٹھ گئے ان میں حرکت کرنے کی سکت نہ رہی
حضرت عبداللہ بن انیس کے قلب کو ایسا صدمہ ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکے ان کا انتقال ہوگیا
حضرت عمر کی عقل غائب ہو گئی انہوں نے تلوار کھینچ لی کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو اس کو قتل کردوں گا ۔
غسل ۔
بیقہی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے
کہ غسل کے وقت صحابہ کو تردد ہوا کہ کپڑا اتار کر غسل دیا جاۓ یا اسی کپڑا میں جو حضور پہنے ہوئے ہیں
رائیں مختلف تھیں کہ اتنے میں وہاں جتنے لوگ تھے سب پر نیند کا غلبہ ہوا اور سب کو اونگھ آگئی اسی حالت میں سب نے ایک آواز سنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے کے ساتھ غسل دو اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا تو آپ قمیص پہنے رہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عباس نے غسل دیا۔اور حضرت فضل بن عباس کروٹ بدلنے میں مدد دیتے ت قثم ابن عباس اسامہ ابن زیداور شقران مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی دیتے تھےاوریہ لوگ پردہ کے باہر تھے۔
تکفین ۔
علامہ قسطلانی لکھتے ہیں کہ بیقہی نے ذکر کیا ہے کہ تکفین کے بارہ میں متواتر خبریں وارد ہوئی ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت ابن عباس حضرت عائشہ صدیقہ حضرت ابنِ عمر حضرت جابر حضرت عبداللہ بن مغفل سب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں تین ۔3. کپڑہ دیا گیا۔
نماز جنازہ ۔
حضرت ابن عباس کی روایت ابن ماجہ میں ہے
کہ منگل کے روز جب تجہیز وتکفین سے فارغ ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تخت پر گھر میں ہی رکھا گیا پھر
جماعتیں یکے بعد دیگرے جاتی گئیں اور نماز پڑھتی گئیں مرد فارغ ہوگئےتو عورتیں گئیں
عورتوں کے بعد لڑکے گئے لیکن آپ کے جنازہ میں کسی نے امامت نہیں کی ۔
تدفین ۔
نماز کے بعد اس میں اختلاف ہوا کہ دفن کہاں کیا جائےبعض نے کہا منبر کے پاس اور بعض نے کہا بقیع میں جیسا کہ مؤطا میں ہے
حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ نبی کا جہاں انتقال ہوتا ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے ۔
قبر ۔
اس میں اختلاف ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شق بنائی جاۓ یا لحد۔۔۔مہاجرین کی رائے تھی شق کی اور انصار لحد کی رائے دیتے تھے مدینہ منورہ میں دو ۔ 2. شخص تھے
ابو عبیدہ شق کھودا کرتھ اور ابو طلحہ لحد
راۓ یہ قرار پائی کہ دونوں کو بلا یا جاۓ
جو پہلے آجاۓ وہی اپنا کام کرے چنانچہ ابو طلحہ زید بن سہل الانصاری پہلے آۓ اور
انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لحد تیار کی۔
اس میں اختلاف ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں  کون داخل کرے صحیح یہ ہے کہ عباس ابن عبد المطلب علی بن ابی طالب قثم ابن عباس قبر میں داخل ہوئے اور
سب کے بعد قبر سے قثم ابن عباس نکلے ۔
دفن کا دن ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کا دن دوشنبہ  ہے اس پر تو سب کا اتفاق ہےاور
یہی بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ اور
حضرت انس سے مروی ہےلیکن دفن کے متعلق
ابن سعد نے کئی روایتیں لکھی ہیں
سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن
سے روایت کیا ہےکہ تدفین منگل کے روز ہوئی
ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ
یہ قول غریب ہےاورابنِ سعد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ سموار کے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس روز اور
اس کے بعد والی رات اور منگل کا دن
دفن نہیں کیا گیا اس کے بعد والی رات میں دفن کیا گیا ۔
ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ یہی جمہور کا قول ہے
اور
ابنِ سعد نے عثمان بن محمد ابن المغیرہ بن الاخنس الاخنسی سے
روایت کیا ہے کہ سموار کے روز
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا
اور بدھ کے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم دفن کئے گئےاور اسی طرح ابی ابنِ عباس بن سہل ابنِ سعد الساعدی سے روایت کیا ہے
بدھ والی روایتیں سندا ضعیف ہیں البتہ
علماء نے ان روایتوں میں تطبیق دی ہے
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منگل
اور بدھ کے درمیان والی رات میں دفن کیا گیا
اس لئے کوئی اس کو منگل کا دن کہتا ہے کوئی بدھ کا دن ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔

طالب دعا
شمشیر عالم مظاہری ۔ دربھنگوی۔امام
جامع مسجد شاہ میاں روہوا
ویشالی ۔ بہار ۔