Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 3, 2020

سید ‏شاہ ‏علیم ‏الدین ‏بلخی ‏فردوسی ‏کی ‏پہلی ‏برسی ‏پر ‏خراج ‏عقیدت۔

سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسیؒ کی شخصیت اسوئہ رسول کا آئینہ تھی
خانقاہ بلخیہ فتوحہ میں پہلی برسی پر پیش کیا گیا خراج عقیدت۔
فتوحہ: 28 ستمبر (پریس ریلیز عبد الرحیم برہولیا وی)۔
                  صداٸے وقت 
              ============
حضرت سید شاہ حکیم علیم الدین بلخی فردوسی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت اسوئہ رسول سے عبارت تھی۔ انہوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کی اور تادم آخر علم و عمل کی شمع روشن کرتے رہے۔ ان خیالات کا اظہار خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشیں ڈاکٹر سید شاہ مظفر الدین بلخی فردوسی نے کیا۔ وہ سید شاہ علیم الدین بلخی فروسی اور ان کی اہلیہ صادقہ خاتون کی پہلی برسی کے موقع پر ایصال ثواب کی مجلس سے خطاب فرما رہے تھے۔ مجلس ایصال ثواب کا انعقاد خانقاہ بلخیہ فردوسیہ میں کیا گیا تھا۔ مجلس کا آغاز مفتی محب اللہ مصباحی، استاد جامعہ منعمیہ کی تلاوت اور اسامہ غنی کی نعت پاک سے ہوا۔ نظامت کا فریضہ کامران غنی صبا نے انجام دیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے خانقاہ معظم بہار شریف کے مولانا حسام الدین مصباحی فردوسی نے بزرگان بلخ اور فردوسی سلسلہ کی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت علیم الدین بلخی کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ انجمن فلاح ملت کے صدر سید حسنین پاشا نے علیم الدین بلخی علیہ الرحمہ سے اپنے دیرینہ مراسم پر روشنی ڈالی۔ مفتی محب اللہ مصباحی نے کہا کہ مولانا کی ہر دل عزیزی کی سب سے اہم وجہ ان کی عاجزی و انکساری تھی۔ ان کے اندر اپنے حسب و نسب اور علم و کمال کا ذرہ برابر بھی غن نہیں تھا۔ وہ چھوٹوں سے بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ سید شاہ نصر الدین بلخی فردوسی نے کہا کہ ہمارے والد محترم کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ہر طرح کے لوگوں سے اس کے معیار اور ذوق کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس جو بھی بیٹھتا اسے اپنے ذوق کی تسکین محسوس ہوتی۔ کامران غنی صبا نے کہا کہ نانا محترم نے عملی اسلام اور عملی تصوف کی مثال پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر ہم شمار کرنے بیٹھیں تو بے شمار اہل علم، اہل قلم، علما و دانشور ان ہمارے درمیان موجود ملیں گے لیکن ایسی شخصیتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں جن تک رسائی سب کے لیے آسان ہو اور جن کی مجلسوں میں بیٹھ کر بے چین دل کو قرار محسوس ہو۔ علیم الدین بلخی رحمتہ اللہ کی یہی خوبی انہیں قابل احترام بناتی ہے۔ مجلس ایصال ثواب میں خانقاہ معظم بہار شریف کے سجادہ نشیں سید شاہ سیف الدین فردوسی، خانقاہ اسلام پور کے سجادہ نشیں سید شاہ سیف الدین رازی ابدالی، خانقاہ منیر کے سجادہ نشیں سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی،خانقاہ بارگاہ عشق تکیہ شریف سے سید شاہ تمیم عشقی ابوالعلائی،خانقاہ دیوان جعفر باڑھ کے متولی، کمال احمد منعمی،سید ابصار الدین بلخی، محمد فیروز، محمد عالمگیر وارثی،محمد نثار احمد (صدر جامع مسجد خانقاہ بلخیہ فتوحہ)،محمد افضل حسین نوری(امام جامع مسجد فتوحہ)، سید نور اللہ نیاز مدنی، محمد ندیم خان، محمد شہباز خان، سید شارق احمد فردوسی، سید ذیشان بلخی عطاری، صفوان غنی، سید عزیز پاشا فردوسی،سید فیض فردوسی،سید صدف رسول،حمید خان فردوسی،شوکت وارثی، مناگریل، سرتاج خان، محمد اسلم، مطیع الرب سمیت معتقدین کی کثیر تعداد موجود تھی۔