Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 16, 2020

سرسید ‏کی ‏تعلیمی ‏خدمات ‏و ‏علی ‏گڑھ ‏تحریک۔۔۔۔۔۔۔

سرسید احمد خان کے 203 ویں یوم پیداٸش (17 اکتوبر ) کے موقع پر صداٸے وقت کی خصوصی پیش کش۔

از/ڈاکٹر شرف الدین اعظمی /صداٸے وقت /17 اکتوبر 2020.
==============================
سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔
1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء  میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
        سرسید احمد خان ( 1817--1898)

1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او  ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء  میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک  سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں  منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔
1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن  ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن  ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔
سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869ء میں  سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ،ثيثلر اور سے متاثر ہو کر۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن  اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج  اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا:

” میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔: اس تحریک کے دیگر قائدین میں سے محسن الملک، وقار الملک، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا چراغ علی خاص  طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ کا رہائے نمایاں انجام دیے کہ آنے والی مسلم نسلیں ان کی جتین بھی قدر کریں کم ہے۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریک کو ایک ہمہ گیر اور جامع تحریک بنا دیا۔ یوں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا آغازہوا۔
  1857ءکی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری  انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے کے لیے ان کے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات کیے گئے ہندو جو جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ انہیں بالکل کچھ نہ کہا گیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی کی بجائے جو مسلمانوں کی زبان تھی۔ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔
ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے، ادب ادنیٰ  درجے کے شہری تھے۔ جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان مسلمانوں کی ابتر حالت اور معاشی بدحالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے آپ مسلمانوں کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تلقین کی۔
سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کے مسلمان انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ایک خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کریں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان میں غلط فہمی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا۔
حوالہ جات۔۔۔متفرق۔