Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, October 31, 2020

یہ ‏خاموشی ‏کہاں ‏تک ‏، لذت ‏فریاد ‏پیدا ‏کر۔۔



تحریر /  سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد / صداٸے وقت ۔
      برائے رابطہ : 8099695186
==============================

     پوری دنیا اسوقت ایک عجیب وغریب حالات سے گذررہی ہے،ہرجانب افراتفری،نفرت وتعصب قتل وقتال کاماحول ہے،دنیوی حالات کا اگرسرسری جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اسوقت عالم کو اورانسانیت کو امن وسکون کی ضرورت ہے،ایسالگتاہے کہ  انسانیت کو کسی مسیحاکی ضرورت ہے،اور دوسری جانب اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر ایک بڑی طبقے کی دلآزاری کا سلسلہ بھی جاری ہے،سوال یہ ہے کہ کیا کروڑوں  مسلمانوں کو مشتعل کرکے،انکے جذبات کو ٹھیس پہونچاکر،انکے عقائد پرحملہ کرکے،اور انکے شعائر کو نشانہ بناکر دنیا میں امن وامان کاخواب دیکھا جاسکتاہے؟اور کیا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا؟ آخر وقفے وقفے سے مسلمانوں کی اذیت رسانی کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟ہر تھوڑے دن کے وقفے سے ایک شوشہ چھوڑا جاتاہے تاکہ مسلمانوں کے عقائد اور جذبات پرحملہ کیاجاسکے،کبھی قرآن کونشانہ بنایا جاتاہے، کبھی اسلام کونشانہ بنایاجاتاہے،کبھی صاحب اسلام اور پیغمبرِ انقلاب سرکار دوجہاں خاتم الانبیاء ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کی جاتی ہیں،کوئی سرپھرا اٹھتاہے صحابہ کرام کی جماعت کو نشانہ بنانےلگتاہے،تو کبھی قرآنی اوراق کی کھلے عام توہین  کی جاتی ہے اور اسے آگ کے حوالے کیاجاتاہے،کبھی اسلام کو دہشتگردی اور شدت پسندی کا مذہب بتایاجاتاہے، یہ سب صرف اسلئے کیاجاتاہے تاکہ پوری دنیا میں کڑوڑوں مسلمانوں کو اشتعال دلایاجائے،اور دنیا بھر میں افراتفری پھیلائی جائے،دنیا کے امن وامان کو تباہ وبرباد کیاجائے،سوال یہ ہےکہ اسطرح کی دریدہ دہنی،بےہودہ گوئی،خباثت اورشیطانیت پر لگام کیوں نہیں لگایا جاتا؟اس پر کنٹرول کرنے سے سپرپاور طاقتیں قاصر کیوں ہیں؟جن چیزوں سے امن وامان تباہ ہو،اشتعال انگریزی کی فضاء قائم ہو،لاقانونیت اور شدت پسندی کو راہ ملے ایسی تمام سرگرمیوں پر مکمل روک لگانے کےلئے کوئی مضبوط قانون کیوں نہیں بنایاجاتا؟اسکی روک تھام کےلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیاجاتا؟آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہےگا؟
    تازہ واقعہ ایک یورپی ملک فرانس کاہے،جسکی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان بےچین ہیں،فلسطین،عراق، بنگلہ دیش،تیونس اور ایران سمیت دیگر مسلم ملکوں میں شدید احتجاج جاری ہے،مسلمان اپنے غم وغصے کااظہار کررہےہیں،فرانس میں اسلام اور مسلم مخالف سرگرمیاں کوئی نئی نہیں ہیں، اسلام اور کفر کی رشہ کشی کی ایک قدیم تاریخ ہے،اسلام وہ مذہب ہے جوصرف امن چاہتاہے،انسانیت کے دکھ درد اور مشکلات ومصائب کاحل بتاتاہے،اسلام تو صرف یہی کہتاہے کہ 'میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے'دنیا کا اور کوئی مذہب نہ اسلام سے زیادہ جامع، نہیں ہوسکتا،تاریخ کے صفحات کو اگر کھنگال کر دیکھاجائے تو اس نتیجے پر ہمیں پہونچنا ہوگاکہ کفارو مشرکین کی ناپاک حرکتوں،انکی ہرزہ سرائیوں اور بدتمیزی اوربے ہودہ گوئی کی ایک طویل داستان ہے،گذشتہ دنوں فرانس میں جوکچھ ہوا اور جسطرح پیغمبر اسلام ﷺ کی شخصیت  کو داغدار کرنے کی ناپاک اور گھناؤنی کوشش کی گئی یہ انتہائی افسوسناک ہے،پیرس شہرجو فرانس کا کیپیٹل ہے،اس سے تقریباً 30 کیلو میٹر دور ایک مضافاتی علاقے کے ایک اسکول میں گذشتہ ہفتہ یہ واقعہ رونما ہوا،مڈل اسکول کا ایک ٹیچر اپنے کلاس کے اسٹوڈینٹس کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق گستاخانہ کارٹون دکھارہاتھا،جسکانتیجہ یہ ہواکہ بالآخر اس خبیث اور گستاخ ٹیچرکو اس اسکول کاایک مسلم لڑکا جسکی عمر 15/16سال ہوگی نے جہنم رسید کردیا،اسطرح وہ گستاخ ہلاک کردیاگیا،پھراس مقتول ٹیچر کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر فرانس نے خطاب کیا اور اس ٹیچر کی حمایت کی اسلام اور مسلمانوں کےخلاف ہرزہ سرائی کی،اپنی تقریر میں صدر میکرون نے یہ کہا کہ"ہم اسطرح کے کارٹون بنانا ترک نہیں کریں گے،اس ٹیچر کو اسلئے قتل کیاگیاکہ اسلام کےماننے والے شدت پسند افراد ہمارے مستقبل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں"میکرون نے جم کر اس مقتول ٹیچرکی حوصلہ افزائی کی،اور اسکی گستاخی کو اظہارِ رائے کی آزادی کا نام دیا، یہ ہے اصل واقعہ جو فرانس میں پیش آیا اور جسکی وجہ سے مشرق وسطی سمیت اکثر مسلم ملکوں میں احتجاج جاری ہے،سوشل میڈیا کےعلاوہ کویت،سوڈان،قطر جیسے ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کےبائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے،ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے میکرون کو اپنا دماغی علاج کروانے کا مشورہ دیاہے،پاکستان نے اپنی پارلیمنٹ میں فرانس کے خلاف قرارداد منظور کی منظور کی ہے،اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اورسینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور کی گئيں ہے،فرانس کے رویہ پر مسلم دنیامیں جوبرہمی پائی جارہی ہے،یہ کوئی غلط بات نہیں ہے،انکی برہمی بالکل واجب ہے،کیونکہ مسلمان سب کچھ برداشت  کرسکتاہے لیکن ایمان وعقائد اور شعائر اسلام کی گستاخی اور بے حرمتی ہرگز نہیں برداشت کرسکتا،میکرون کی یہ اشتعال انگیزی انتہائی خطرک ہے اور دنیاکے امن وامان کو تباہ وبرباد کرنے کااہم ذریعہ بھی،فرانسیسی صدر میکرون نے اپنے ایک دوسرے بیان میں کہا ہے کہ'ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے'
سوال یہ ہے کہ میکرون اسطرح کی بیان بازی کے ذریعے دنیا  کوکیا پیغام دینا چاہتے ہیں،سوائے اس کے کہ وہ انتہاپسندی کو ہوا دے رہےہیں،ایک ایسے وقت جبکہ پوری دنیا امن امان کی تلاش میں ہے انسانیت سسکیاں لےرہی ہے نفرت وتعصب پروان چڑھ رہاہے، ایسے میں محسن انسانیت، جنکے صدقے میں جہان کی تمام چیزوں کو پیدا کیاگیا،انکی شخصیت کو داغدار کرکے،انکی شان میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کرکے،دنیائے  انسانیت کے مسائل کیسےحل کئے جاسکتے ہیں؟اظہارِ رائے کی آزادی اور ڈھکوسلہ بازی کے نام پر کبھی بھی اسطرح مسلمان برداشت نہیں کرسکتا،چاہے اسکے لئے ہمیں جوقیمت بھی چکانی پڑے،فرانس میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے،پیرس کے علاقے میں ایک مسجد کوزبردستی طاقت کےبل بوتے پر 6ماہ کےلئے بندکردیاگیاہے،دوسری جانب گستاخانہ کارٹون کوسرکاری عمارتوں پرنصب کیاگیاہے،تاکہ مسلمانوں کے جذبات مزید مجروح ہوں،مسلم دشمنی میں جسطرح اسلام اور صاحب اسلام کو نشانہ بنایاجارہاہے اس سے یہ بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ متعصبانہ اور شدت پسندانہ اقدام انسانیت کو شرم سار کرنے اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنے کےلئے کیاجارہا ہےاور یہ کہ مسلمانوں کے جذبات کی کوئی قدر نہیں ہے،1989 میں برطانوی سنسر بورڈ نے ایک فلم کو ریلیز ہونے سے محض اسلئے روک دیا کہ اس میں چرچ اور عیسائی مذہب کی توہین پائی جاتی ہے،ایسے ہی جرمنی قتل عام کی خود ساختہ تاریخ تحریر کرنا قانوناً جرم ہے،جب عیسائیوں اور کسی دوسرے مذہب کے لوگوں کےجذبات کومجروح کرنا قانوناً جرم ہے توپھر مسلمانوں کےخلاف اس طرح کی حرکت کرناکیسے قابل قبول ہوسکتاہے؟یہ جرم میں شامل کیوں نہیں؟کیا یہ کھلی منافقت تعصب پرستی نہیں ہے؟
      تحفظ ناموس رسالت کےمعاملے میں ہماری  ذمہ داریاں کیاہیں؟اورہمیں اس  موقع پرکیاکرناچاہئے؟ اسکےلئے ذیل کے یہ اقتباس پڑھئے "رسول اکرم ﷺ کی عزت وناموس کے تحفظ کی پاسبانی ملت اسلامیہ کااولین فرض ہے،نہ اس میں تاخیرکی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی قضا کی اجازت،امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ روشن تاریخ گواہ ہے کہ امت نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس فرض کو خوب اداکیا،کبھی بھی اس معاملہ میں کسی قسم کی مداہنت اور تساہل سے کام نہیں لیاگیا،ادھرکسی مسیلمہ نے سراٹھایا،ادھر صدیق اکبر کی تلوار چمکی،یہ معرکہ جاری ہےاور امت مسلمہ ہمیشہ سے اس عظیم معرکہ میں کامیاب وسرفراز چلی آرہی ہے اور قیامت تک ایسے ہی درخشندہ روایات کو زندہ رکھاجائےگا"(تحفظ ناموس رسالت اور گستاخ رسولؐ کی سزا ص 15)
       اس معاملے میں مزید کیا کرنا چاہئے؟برصغیر کے معروف اورممتاز عالم دین مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ناموس رسالت پرحملہ کرنے والوں کےبارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"انکو پیسوں کی مار مارو،ان لوگوں کا سب سے بڑا محبوب، انکا سب سے بڑا خدا پیسہ ہے اگر انکو ایک مرتبہ پیسے کی مار پڑجائے،تو انکے دماغ درست ہوجائیں،جولوگ حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخیاں کررہےہیں کیاآپ انکے سائٹ پرجاکر(ویب سائٹ)ڈھائی ڈالر کا انعام دوگے؟کیاانکو اسکافائدہ پہونچاؤگے؟آج ایک ارب سے زیادہ مسلمان دنیامیں آباد ہیں اگرتمام دنیا کے مسلمان اس بات کا تہیہ کرلیں کہ ان سائیٹوں کابائیکاٹ کیاجائےگا،توچنددنوں کے اندر انکو تارے نظرآجائیں گے کہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ گستاخی کرنےکا کیاانجام ہوتاہے"(ناموس رسالت کی حفاظت کیجئے)
مفتی عثمانی صاحب ایک دوسری جگہ آزادیِ اظہار رائے کامقصد کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ"ہم جانتے ہیں کہ مغرب نے یہ خوبصورت الفاظ دنیا کو دھوکہ دینے کےلئے گھڑے ہوئے ہیں،یہ آزادیِ اظہار رائے جسکاڈھنڈورا پیٹا جارہاہے اور جسکے  پردے میں وہ شرمناک گستاخی کی جارہی ہےجسکے مقابل اس روئے زمین پر کسی اور گستاخی کاتصور نہیں کیاجاسکتا،اس آزادئ اظہار رائے کاحال یہ ہے کہ یورپ اور دیگر متعدد ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ یہودیوں کے "ہولوکاسٹ" کے خلاف اگرکوئی تاریخی تحقیق بھی کرناچاہے تو اسے اسکی اجازت نہیں ہے اورقانون اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ ان حالات کی کھوج کرید میں پڑے کہ یہودیوں کو جرمنی سے جب نکالاگیا تو کتنے افراد واقعتاً قتل ہوئے تھے،اور کتنے قتل نہیں ہوئےتھے،اگرکوئی شخص علمی بنیاد پر یہ تایخ تحقیق کرناچاہے تو یہ قانوناً جرم ہے،پھربھی یہی کہاجاتاہے کہ ہرکسی کو اظہارِ رائے کی آزادی ہے"(توہین رسالت اسباب اورسدباب) 
ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ جب کبھی ایسی گستاخی کی جائے تو اس پرمسلمان اپنے ردعمل کااظہار کریں،ہمیں قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پربھی اس بدباطنی کے خلاف احتجاج کو قوت کے ساتھ جاری رکھنا ہے،اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ یہ مغربی طاقتیں،ٹھیٹھ لفظوں میں اگرمیں لفظ استعمال کروں تو ہماری اردو زبان کا محاورہ ہے کہ "یہ لوگ جوتے کے آشناہیں"یعنی انکے اوپردباؤ ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم انکی مصنوعات کابائیکاٹ کریں،اورجس دن انکو اپنی تجارت میں خسارہ نظرآئےگا اس دن انکے آزادئ اظہارِ رائے کے سارے خواب بکھر جائیں گے،مسلمان اس بات کاتہیہ اور عہد کریں کہ جن ملکوں میں یہ گستاخی کی گئی ہے ان ممالک کی مصنوعات کی خریدوفروخت ہم بند کردیں،جوامپوٹر ہیں وہ امپورٹ کرنابندکردیں،جوتاجر ہیں وہ انکی مصنوعات کو فروخت کرنا بند کردیں،اور جوصارفین ہیں وہ انکو خریدنا بند کردیں"کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ بعض لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتےہیں کہ"بھئی کب تک احتجاج کرتے رہوگے؟ارے ہم اسوقت تک احتجاج کرتےرہیں گے جب تک نبئی کریم ﷺ کی ناموس کومکمل تحفظ نہیں دیاجاتا،اس واسطے جب تک پہ احتجاج جاری نہیں رہےگا اسوقت تک مغربی دنیا پر دباؤ نہیں پڑےگا،لہذا بین الاقوامی سطح پر اگرآپ کوئی کام کرناچاہتے ہیں تو وہ مؤثر اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک یہ احتجاج جاری نہیں رہےگا"(توہین رسالت اسباب اور سدباب ص19)
افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ فرانس کی اس بےہودہ حرکت کے بعد تمام مسلم ممالک کو متحدہ طور پر آواز بلند کرنی چاہئے تھی تاکہ ناموس رسالت کے تحفظ کےلئے ہماری کوششیں کامیاب ہوتی،لیکن کچھ مسلم حکمراں اب بھی مصلحت کی چادر اوڑھ کر مجرمانہ خاموش اختیار کئے ہوئے ہیں،آخراس پراسرار خاموشی کی وجہ کیاہے؟کب ان حکمرانوں کاضمیر زندہ ہوگا؟ کیاانکی حکومتیں اورسلطنتیں رسول اکرم ﷺ کی عزت وناموس سے بڑھ کر ہے؟ناموس رسالت کے تحفظ کےلئے انکی کوئی ذمہ داریاں نہیں ہیں؟اگرجواب ہاں میں ہے تو پھرانھیں بھی اپنے انجام کےلئے تیاررہناچاہئے،تمام مسلم حکمرانوں کو بیک آواز تجارتی،اقتصادی اورسفارتی تعلقات کلی طور پرختم کردینا چاہئے تھالیکن افسوس ابھی تک ایسانہیں ہوااس طرح کے حساس اورمرکزی معاملہ میں مسلم حکومتیں اتحاد کامظاہرہ نہیں کرسکتیں توپھرکونساموقع ایساآئےگاجب یہ لوگ متحد ہوں گے ؟ ،شاید شاعرمشرق علامہ اقبال مرحوم نے اپنی قوم کویہی پیغام دینے اور ضمیر بیدار کرنے کی کوشش کی ہےکہ 
یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر 
زمیں پر تو ہو اور تیری صداہو آسمانوں میں

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com