Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 1, 2020

لاٶڈ ‏اسپیکر ‏کا ‏غلط ‏استعمال ‏ایک ‏لمحہ ‏فکریہ۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔
از/ شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی۔/صداٸے وقت۔
==============================
اسلام  ایک عالمگیر مذہب ہے ۔ اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کا واضح اور جامع حل موجود ہے ۔
اسلام نے جہاں انفرادی زندگی کے متعلق انسان کی رہنمائی کی ہے وہیں اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے تعلق سے بھی کچھ ہدایات اور تعلیمات دی ہیں ۔ اگر انسان ان تعلیمات و ہدایات کو اپناۓ تو ایک خوشگوار اور صالح معاشرہ تشکیل پاۓ گا اور ساتھ ہی ساتھ انسان دنیا اور آخرت کی سعادت و کامیابی سے بہرہ ور ہو گا ۔
اجتماعی اور معاشرتی زندگی کا تعلق اسلام سے بنیادی طور پر یہ ہدایت دیتا ہے کہ انسان اس طرح زندگی گزارے کہ اس کے قول و فعل اور حرکات و سکنات سے کسی کو ٹھیس نہ پہنچے اس کی طرز معاشرت اور رہن سہن کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے ۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل اور مکمل انسان اس شخص کو قرار دیا ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں ۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جس کی حرکتوں سے اس کا پڑوسی پریشان اور کبیدہ خاطر رہتا ہو ۔
آج ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی سنگین غلطیاں پائی جاتی ہیں جن میں عام ابتلا پایا جاتا ہے ۔ اور ان کی سنگینی کا احساس ہمارے دلوں سے رخصت ہو چکا ہے ۔ ان غلطیوں میں سے ایک لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال ہے ۔
لاؤڈ اسپیکر آواز کو دور تک پہنچانے کا ایک آلہ ہے ۔ اس کا استعمال
سیاسی اجتماعات و پروگرام
اور
مذہبی و دینی جلسوں میں بھی کیا جاتا ہے ۔
لیکن عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ اربابِ جلسہ ساؤنڈ باکس جلسہ گاہ باہر نصب کرتے ہیں ۔
جس کے نتیجے میں آواز محلے کے گھر گھر میں اس قوت کے ساتھ پہنچتی ہے کہ کوئی شخص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ نہ کوئی آرام کرسکتا ہے نہ کوئی یکسوئی سے اپنا کام انجام دے سکتا ہے ۔
اسی طرح 
شادی ہالوں میں رات دیر گئے لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے پتہ نہیں قرب و جوار میں رہنے والے کتنے لوگوں کی نیندیں حرام ہوتی ہیں ۔ کتنے مریض و بیمار بیچینی سے کروٹ بدلتے رہتے ہیں ۔
گانا بجانا فی نفسہ ناجائز اور حرام ہے ۔ پھر گانے کی آواز کو دور تک اس قوت سے پہنچانا کہ وہ دوسروں کے لئے باعث زحمت ہو اس میں دوہری برائی ہے ۔
اسی طرح بعض مساجد کے اندر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جماعت کے وقت باہر کا اسپیکر کھول دیا جاتا ہے اور نماز مائیک پر ادا کی جاتی ہے اور لوگوں کو قرآن سننے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔
اس میں جہاں لوگوں کی یکسوئی میں فرق آتا ہے اور انہیں ایذا پہنچتی ہے وہیں قرآن کریم کی بے حرمتی اور اس کے تقدس کی پامالی بھی ہے ۔
دوسرے یہ کہ محلے میں مسلمانوں کے ساتھ دوسری قومیں بھی بستی ہیں ۔
مسلمانوں کے اس طرز عمل سے وہ اسلام کے قریب ہونے کے بجائے ان سے متنفر ہوتے ہیں ۔
اسلام کی صاف و شفاف ہدایات و تعلیمات کے متعلق غلط تاثرات ان کے ذہنوں میں راہ پاتے ہیں ۔
لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال 
مساجد
جلسہ گاہ
اور شادی ہالوں تک ہی کیا محدود ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی لاؤڈ اسپیکر نصب کرتا ہے تو اسے یہ فکر نہیں ہوتی کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز ضرورت تک محدود ہے ۔ یا پھر اس کی آواز ضرورت سے زائد دور تک پہنچ کر دوسروں کے لئے باعث زحمت بن رہی ہے ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں ۔
ایذا رسانی کی بے شمار صورتوں میں ایک انتہائی تکلیف دہ صورت لاؤڈ اسپیکر کا ظالمانہ استعمال ہے ۔ جب کوئی شخص کہیں لاؤڈ اسپیکر نصب کرتا ہے تو اسے اس بات کی پروا نہیں ہوتی اس کی آواز صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھا جائے اور آس پاس کے ان ضعیفوں اور بیماروں پر رحم کیا جائے جو یہ آواز سننا نہیں چاہتے ۔
لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز دور تک پہنچانا تو برحق ہے لیکن مسجدوں میں جو وعظ اور تقریریں یا ذکر و تلاوت لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہے ان کی آواز دور دور تک پہنچانے کا کوئی جواز نہیں ملتا ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی چند نکات پیش کرتے ہیں ۔
1, مشہور محدث حضرت عمر بن شیبہ نے مدینہ منورہ کی تاریخ پر چار جلدوں میں بڑی مفصل کتاب لکھی ہے ۔ جس کا حوالہ بڑے بڑے علماء اور محدثین دیتے رہے ہیں ۔
اس کتاب میں انہوں نے ایک واقعہ اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ ایک واعظ صاحب حضرت عائشہ صدیقہ کے مکان کے بالکل سامنے بہت بلند آواز سے وعظ کیا کرتے تھے ۔
ظاہر ہے وہ زمانہ لاؤڈ اسپیکر کا نہیں تھا لیکن ان کی آواز بہت بلند تھی اور اس سے حضرت عائشہ صدیقہ کی یکسوئی میں فرق آتا تھا ۔ یہ زمانہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کا تھا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے شکایت حضرت عمر فاروق تک پہنچائ کہ یہ صاحب بلند آواز سے میرے گھر کے سامنے وعظ کرتے رہتے ہیں جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور مجھے کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی حضرت عمر فاروق نے ان صاحب کو پیغام بھیج کر وہاں وعظ کرنے سے منع کیا لیکن کچھ عرصہ بعد واعظ صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ شروع کردیا ۔ حضرت عمر فاروق کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے خود جاکر ان صاحب کو پکڑا اور ان پر تعزیری سزا جاری کی ۔ 
2, مشہور واقعہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق کے پاس سے گزرے وہ تہجد کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق سے پوچھا کہ وہ بلند آواز سے تلاوت کیوں کرتے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق نے جواب دیا کہ میں سوتے کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی آواز کو تھوڑا پست کردو ۔
3, تہجد کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھنے کا انداز ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے ساری عمر کبھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑ ی ۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر آسانی فرماتے ہوئے تہجد کی نماز واجب نہیں فرمائی ۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تہجد کی نماز قضا نہیں فرمائی ۔
لیکن حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے تو آہستہ سے اٹھتے اور آہستگی سے دروازہ کھولتے کہ کہیں میرے اس عمل کی وجہ سے میری بیوی کی آنکھ نہ کھل جائے اور ان کی نیند خراب نہ ہوجائے ۔
4, بلند آواز سے تلاوت کرنا ۔
تلاوت قرآن کریم ایک عبادت ہے یہ اتنی اہم عبادت کہ ایک حرف پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ گویا کہ تلاوت قرآن کے وقت نیکیوں کا خزانہ جمع ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ سارے اذکار اور تسبیحات میں سب سے افضل ترین قرآن کریم کی تلاوت ہے اور تلاو میں افضل یہ ہے کہ بلند آواز سے کی جاۓ آہستہ آواز کے مقابلے میں بلند آواز سے تلاوت کرنے پر زیادہ ثواب ملتا ہے ۔ لیکن اگر تمہاری تلاوت کی وجہ سے کسی کی نیند یا آرام میں خلل آرہاہو تو پھر بلند آواز سے تلاوت کرنا جائز نہیں ۔
مساجد کے باہر والے لاؤڈ اسپیکر اذان کے ماسوا کھولنا ناجائز ہے ۔
اذان کے لئے اوپر کے اسپیکر کھولنے کا تو کوئی مضائقہ نہیں کہ باہر کے لوگوں تک اذان کی آواز پہنچانا مطلوب ہے ۔
لیکن ۔
نماز
تراویح
درس
وغیرہ کے لئے اگر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی ضرورت ہوتو اس کی آواز مسجد کے مقتدیوں تک محدود رہنی چاہیے باہر نہیں جانی چاہیے ۔
تراویح کے لئے اور درس وغیرہ کے لئے باہر کے اسپیکر کھولنا عقلاً و شرعاً نہایت قبیح ہے ۔
جس کے وجوہ حسب ذیل ہیں ۔
1, بعض مساجد اتنی قریب قریب ہیں کہ ایک کی آواز دوسری سے ٹکراتی ہے جس سے دونوں مسجدوں کے نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے اور ان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں کہ ایک مسجد کے مقتدی جو پچھلی صفوں میں تھے دوسری مسجد کی تکبیر پر رکوع ۔ سجدے میں چلے گئے ۔ نمازیوں ایسی تشویش میں مبتلا کرنا کہ ان کی نماز میں گڑبڑ ہو جائے صریح حرام ہے اور اس حرام کا وبال ان تمام لوگوں کی گردن پر ہوگا جو نماز کے دوران اوپر کے اسپیکر کھولتے ہیں ۔
2, مسجد کے نمازیوں تک آواز پہنچانا تو ایک ضرورت ہوئی لیکن نماز میں اوپر کے اسپیکر کھول دینا جس سے آواز دور دور تک پہنچے یہ محض ریاکاری ہی ۔ جس سے عبادت کا ثواب باطل ہوجاتا ہے ۔
رمضان میں بعض حافظ صاحبان ساری رات لاؤڈ اسپیکر پر قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں جس میں ریاکاری کے سوا کوئی بھی صحیح غرض نظر نہیں آتی ۔
3, تراویح میں باہر کے اسپیکر کھولنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ چلتے پھرتے اور گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے کان میں سجدہ تلاوت کی آیات آتی ہیں جن کی وجہ سے ان پر سجدہ تلاوت واجب ہو جاتا ہے ان میں سے بہت سے لوگوں کو یہ معلوم بھی  ہوگا کہ یہ سجدہ کی آیت ہے پھر بھی وہ لوگ سجدہ نہیں کرتے ہوں گے ۔ ان بے شمار لوگوں کے ترک واجب کا وبال بھی سنانے والوں کے گردن پر رہے گا ۔
4, بعض حضرات اپنے لحن داؤدی سنانے کے شوق
رمضان سحری کے وقت ۔ یا عام دنوں میں تہجد کے وقت بھی لاؤڈ اسپیکر پر تلاوت ۔ یا نعت خوانی شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تہجد کا پرسکون وقت مناجات بھی شور و ہنگامے کی نذر ہو جاتا ہے اس وقت اگر کوئی تہجد میں اپنی منزل پڑھنا چاہے تو نہیں پڑھ سکتا ۔ اور بعض ظالم اس وقت تلاو ت کا ریکارڈ لگا کر لوگوں کا سکون برباد کردیتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ جو لوگ اذان کے علاوہ پنجگانہ نماز میں ۔ تراویح ۔ یا درس و تقریر میں باہر کے اسپیکر کھول دیتے ہیں وہ اپنے خیال میں تو شاید نیکی کا کام کررہے ہوں ۔ لیکن ان کے اس فعل پر چند در چند مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔ اور بہت سے محرمات کا وبال ان پر لازم آتا ہے ۔ اور یہ سب محرمات گناہ کبیرہ میں داخل ہیں ۔ اس لئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد ۔ اور جلسہ گاہ کے حدود تک محدود رکھنا ضروری ہے ۔
سارا قرآن اور حدیث اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے ۔ اور قدم قدم پر شریعت نے اس کی تاکید کی ہے ۔
اب ذرا اپنا محاسبہ کریں کہ کیا ہم اپنے دینی عمل کے ذریعہ لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچا رہے ہیں ۔
کتب احادیث سے چند مثالیں ذکر کی گئی ہیں ورنہ کتب احادیث اس طرح کی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ دین اسلام کی بنیاد ہی سراپا رحمت و شفقت اور اخوت و مساوات پر ہے اور یہ اپنے پیروکار و ں  کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت کی تاکید کرتا ہے ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات وجذبات کی قدر کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ہدایت نصیب فرمائے اور اسلامی معاشرہ کو خوشگوار اور مثالی بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
شمشیر عالم مظاہری ۔ دربھنگوی
امام
جامع مسجد
شاہ میاں روہوا
ویشالی ۔ بہار ۔